آسٹریلیا کی سیریز غلط تجربات کی بھینٹ چڑھ گئی

Print Friendly, PDF & Email

پی سی بی کے چیف سلیکٹر انضمام الحق گزشتہ چند ماہ سے اس خوف میں مبتلا تھے کہ ورلڈ کپ قریب ہے اور مصروف شیڈول کی وجہ سے کھلاڑی زخمی نہ ہوجائیں،25 دسمبر 2018 کو ملتان میں قومی ون ڈے کپ کے دوران انہوں نے اس حوالے سے کافی کھل کر باتیں کی تھیں اس وقت یہ انداز نہیں تھا کہ اس خوف کا اثر اتنا زیادہ بڑھے گا کہ میگا ایونٹ سے قبل کپتان سمیت 6 کھلاڑی آسٹریلیا جیسی اہم سیریز سے باہر کردیئے جائیں گے، اس خوف میں وہ اکیلے ہی مبتلا نہیں تھے بلکہ ہیڈ کوچ سمیت دیگر بھی پوری طرح شامل تھے،آج پے درپے شکستوں کے بعد اکیلے انضمام الحق تنقید کی زد میں ہیں،انہیں ہی ہدف بنانا زیادتی ہوگا، 1992 کے ورلڈ کپ سے قبل پاکستان نے عمران خان کی قیادت میں ہوم گرائونڈ پر جو سیریز کھیلیں تھیں،اس میں پاکستانی کپتان نے متعدد میچ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بعد میں بیٹنگ میں مشکلات ہونگی،ٹاس جیتنے کے باوجود بعد کی بیٹنگ کا فیصلہ کیا تاکہ ٹیم کو بھرپور پریکٹس ملے اور میگا ایونٹ میں اس نفسیاتی مسئلے سے چھٹکارا مل سکے،انضمام خود اس میں شامل تھے،کہیں بھی کھلاڑیوں کو ان فٹ ہونے کے خوف سے نہیں بٹھایا گیا تو اس مرتبہ کپتان سمیت 6کھلاڑی باہر کردیئے گئے،چنانچہ نتیجہ سامنے ہے،چوتھے میچ میں ڈیبیو پر سنچری کرنے والے عابد علی کے ساتھ سیریز میں دوسری سنچری بنانے والے محمد رضوان دونوں کے (112 اور 104 )216 رنز 278کے ہدف کے لئے ناکافی ثابت ہوئے ،شان مسعود،حارث سہیل،عمر اکمل،سعد علی اور کپتان عماد وسیم نے مجموعی طور پر 74 گیندیں کھیل کر40 رنزبنائے، ان میں سے آدھے کھلاڑی ورلڈ کپ اسکواڈ کا حصہ بننے کے امیدوار ہیں اور یہ کھلاڑی درکار 62 رنز نہیں بناسکے،کھلاڑیوں کی تبدیلی تو ہوگئی ،کھیلنے والوں کا کوچنگ اسٹاف وہی،ہوم سیریز اور مقابلے میں تاریخ کی کمزور آسٹریلوی ٹیم مسلسل جیت گئی،یہ بد قسمتی نہیں، حیرت ہے کہ 277 کے جواب میں 2سنچریاں بنانے والی ٹیم ہار جائے۔اس سیریز میں بیٹنگ لائن کے ساتھ بولنگ کی ناکامی بھی سامنے آئی،یہ بھی مکمل واضح ہوا ہے کہ ٹیم مینجمنٹ کے پاس گیم پلان ہے اور نہ ہی میچ کی صورتحال کے مطابق فوری اور درست فیصلے کرنے کی صلاحیت،انگلینڈ کے خلاف آنے والے 5 میچوں کی سیریز کا نتیجہ ابھی سے واضح ہے اور ورلڈ کپ فائنل فور میں رسائی ناممکنات میں دکھائی دے رہی ہے،ایک سوال اور بھی ہے کہ سرفراز احمد یہ سیریز کھیلنا چاہتے تھے،کہیں کپتان کی تبدیلی(ورلڈ کپ کپتان کے اعلان کے باوجود ) کوئی ایسی مہم تو نہیں تھی کہ جس سے ٹیم منقسم ہوکر کھیلی ہو۔پاکستانی ٹیم یکسو ہوکر نہیں کھیلی،یہ سب نے واضح نوٹ کیا ہے۔عابد علی کو سیریز ہار کر موقع دیا گیا،شعیب ملک اور عمر اکمل مکمل ناکام ہوئے،،عباس اور یاسر شاہ کا تجربہ بھی ناکام رہا،محمد عامر کی حالت سب کے سامنے ہے،محمد حسنین کی ناتجربہ کاری آڑے آگئی اور لے دے کے عثمان شنواری اکیلے کیا کرتے یا جنید خان طویل عرصہ نظر انداز کئے جانے پر یکا یک کیا جادو چلاپاتے،آخری میچ میں آسٹریلیا نے پاکستان کوہرادیا۔اس سیریز میں بیٹنگ کے شعبہ میں آسٹریلوی کپتان بازی لے گئے،آسٹریلوی کپتان ایرون فنچ نے 5ایک روزہ میچز کی باہمی سیریز میں زیادہ رنزبنانے کا ریکارڈ چوتھے ہی میچ میں قائم کردیا ہے،پاکستان کے خلاف سیریز میں انہوں نے 451 رنزبنائے ،انہوں نے ڈیوڈ وارنر کا 2016 میں جنوبی افریقا کے خلاف 77 کی اوسط سے 368 رنزکا ریکارڈ توڑا ہے ،آخری میچ سے قبل تک کوئی پاکستانی بولر 4 میچوں میں مجموعی طور پر 4 سے زیادہ وکٹیں نہ لے سکا،کلٹر نیل اور زمپا ٹاپ وکٹ ٹیکر تھے۔

Short URL: http://tinyurl.com/yxacjx35
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *