دیس کا سکھ
تحریر: ماہم حامد(ڈیرہ غازی خان)
”بس مجھے نہیں پتا، مجھے دوبئی جانا ہے؛ اگر پیسے نہیں ہیں تو ابا کو بولیں نہر کے پاس والی زمین بیچ دیں مگر مجھے ہر صورت دوبئی بھیجوائیں۔“
شاہ زیب کو پھر دورہ پڑا تھا پردیس جانے کا؛ کیوں کہ اس کا جگری دوست ولید بھی آج دوبئی چلا گیا تھا۔ پاکستان میں پھیلی مہنگائی، بدامنی اور بیروزگاری سے اکتا کر بیرون ملک جانے والا ولید اس کا تیسرا دوست تھا۔ شاہ زیب بھی بیرون ملک جانے کی ضد کیے بیٹھا تھا؛ مگر اس کا باپ چوہدری فیاض کسی صورت اسے باہر بھیجنے پر رضامند نہیں تھا۔ ویسے اسے اپنا بیٹا دنیا جہان کا نکما، لاپرواہ اور نافرمان لگتا تھا؛ مگر اسے اپنی آنکھوں سے دور پردیس بھیجنے کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
”اماں کہہ ناں ابے کو بھیج دے دوبئی مجھے بھی۔ میں دوبئی جا کر اتنا کماؤں گا کہ ابا پورے گاؤں کی زمینیں خریدنے جوگا ہو جائے گا۔ بس ایک دفعہ وہ نہر والی زمین بیچ کر دوبئی بھیج دے مجھے۔“
وہ ماں کو پھر اکسانے لگا؛ کیونکہ ابا ابھی ابھی زمینوں سے لوٹا تھا اور ہاتھ دھو کر کھانا کھانے کے لیے چارپائی پر بیٹھا تھا۔
”تو ماما لگتا ہے نہر والی زمین کا؟ کبھی جھانکتا ہے کھیت میں جا کر۔ فصل کو پانی لگاتے تو موت پڑتی تجھے تو دوبئی کمائے گا۔“
ابا جوتوں سمیت چڑھ دوڑا تھا اس پر۔ وہ منہ بسورتے ہوئے باہر نکل گیا۔
”جوان اولاد سے اتنے غصے سے بات نہیں کرتے چوہدری صاحب؛ اگر کہیں منہ کر گیا تو ساری عمر روتے رہنا، ایک ہی تو اولاد ہے ہماری۔“
رقیہ نے موٹے موٹے آنسو بہاتے ہوئے کہا۔
”تم نے ہی سر چڑھا رکھا ہے اسے، سوچا ہے اگر یہ پردیس چلا گیا تو ہمارے جنازوں کو کاندھا کون دے گا۔“
چوہدری فیاض کے دل کا درد اس کی زبان پر آ گیا۔ رقیہ بھی آنسو پونچھتی ہوئی اندر چلی گئی۔
رابیل اپنی سہیلیوں کے ساتھ کالج سے واپس گھر جا رہی تھی؛ مگر شاہ زیب کو دیکھ کر راستے میں رک گئی۔ وہ آم کے پیڑ کے نیچے اداس بیٹھا تھا۔
”اسلام علیکم!۔“
شاہ زیب نے اس کے سلام کو کوئی جواب نہیں دیا۔
”اب تو بہرہ بھی ہو گیا ہے کیا؟ سلام کیا میں نے جواب ہی نہیں دیا مجھے۔“
وہ اسے چھیڑتے ہوئے بولی۔
”ہاں ہو گیا ہوں بہرہ، معاف کرو مجھے، میرے پاس نہیں ہے تمہارے سلاموں کا جواب، جان چھوڑو میری۔“
وہ یہ کہہ کر غصے سے کھڑا ہو گیا۔
”لگتا ہے آج پھر تیری عزت افزائی ہوئی ہے خالو سے۔ ضرور تو نے ولید کی طرح دوبئی جانے کی ضد کی ہوگی۔“
وہ کہاں باز آنے والی تھی؛ مگر آج وہ بھی غصے میں تھا۔
”ایک دن تم سب دیکھتے رہ جاؤ گے، جب میں باہر کے ملک چلا جاؤں گا اور کبھی واپس نہیں آؤں گا تمہارے اور ابا کے طعنے سننے۔ یہ اب چوہدری شاہ زیب کی ضد ہے کہ وہ پردیس ضرور جائے گا۔“
وہ یہ کہہ کر غصے سے اٹھ کر چلا گیا اور رابیل کا دل غم سے بھر آیا؛ کیونکہ وہ شاہ زیب کی بچپن کی منگیتر تھی اور اسے شاہ زیب سے بہت محبت تھی۔
دو ہفتے بعد:
”شاہ زیب کے ابا! شاہ زیب نہیں ہے گھر۔ نہ اس نے آج ناشتہ کیا، نہ دوپہر کی روٹی کھانے آیا۔ میرا بچہ کہیں چلا تو نہیں گیا پتا کر اس کا۔“
رقیہ رو رہی تھی۔
”کہاں جائے گا؟ یہیں ہو گا، میں ڈھونڈ کر لاتا ہوں اسے۔“
فیاض یہ کہہ کر باہر نکل گیا، باہر کرامت دوکان والے نے بتایا کہ وہ کسی شہری آدمی کے ساتھ کل شام دیکھا گیا تھا؛ مگر اس کے بعد نہیں دیکھا۔ فیاض سارے گاؤں میں دھکے کھا کر رات کو مایوس گھر لوٹ آیا۔ رقیہ زور زور سے رو رہی تھی، رابیل بھی ایک کونے میں کھڑی آنسو بہا رہی تھی۔
”رقیہ اس کے کمرے کی تلاشی تو لو شاید کوئی خط یا چٹھی چھوڑ گیا ہو۔“
ماسی خیراں کے مشورے پر رقیہ بھاگتی ہوئی اس کے کمرے میں گئی، وہاں واقعی تکیے کے نیچے ایک کاغذ پڑا تھا۔ جسے رقیہ پڑھ نہیں سکتی تھی؛ کیوں کہ وہ چٹی ان پڑھ تھی، رقیہ نے وہ کاغذ رابیل کو تھما دیا۔ رابیل نے بلند آواز میں وہ کاغذ پڑھنے لگی۔
”ابا! اماں! میں باہر کے ملک جا رہے ہوں۔ چاچے رفیق کے بھانجے نے مجھے بتایا ہے کہ باہر تھوڑے پیسوں میں بھی جایا جا سکتا ہے۔ وہ مجھے سمندری راستے سے اٹلی پہنچا دے گا۔ اس کے لیے صرف ایک لاکھ درکار تھا، جو میں نے اماں کی پرانی بالیاں بیچ کر ادا کر دئیے۔ اماں! تم فکر مت کرنا میں اٹلی سے تمہارے لیے سونے کی بالیاں بھیجوں گا۔ تیرے بیٹے نے چوری نہیں کی بس ادھار لی ہیں بالیاں۔
میرے لیے دعا کرنا میں خیر سے اٹلی پہنچ جاؤں۔
تمہارا نکما پتر: چوہدری شاہ زیب۔
آخری لائن رابیل نے سسکتے ہوئے پڑھی۔ اسے ایسا لگا جیسے درد سے اس کا دل پھٹ جائے گا؛مگر اس سے بھی زیادہ یہ خط دردناک خالو کے لیے تھا۔ وہ یہ خط سنتے ہی دل پکڑ کر بیٹھ گئے، درد اتنا شدید تھا کہ انہیں خود پر قابو نہیں رہا تھا۔ وہ درد کے مارے زور زور سے کراہ تھے۔ انہیں ٹریکٹر پر ڈال کر شہر کے ہسپتال لے جایا گیا۔ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا؛ مگر خدا نے ان کی زندگی بخش دی تھی۔ رقیہ شوہر اور بیٹے دونوں کی پریشانی سے نڈھال ہوئی پڑی تھی۔ اب چوہدری فیاض زمینوں پر فصلیں کاشت کرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ دل کے عارضے اور بیٹے کی جدائی نے اس کی کمر توڑ دی تھی۔ اس زمین ٹھیکے پر دے دی اور خود گھر کے ایک کونے میں پڑا رہتا تھا۔ دن رات رقیہ اور فیاض اپنے بیٹے کو یاد کر کے روتے رہتے تھے۔ پردیس جانے کے بعد نہ اس کا کوئی فون آیا نہ کوئی چٹھی۔ گاؤں لوگ یہی کہتے تھے کہ وہ سمندر میں ڈوب کر مر گیا ہوگا؛ کیونکہ غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر جانے والوں میں سے کوئی قسمت سے ہی واپس لوٹتا ہے۔
چار سال بعد:
”السلام علیکم! فیاض بھائی! رقیہ بہن!۔“
صفیہ اور شمشاد نے گھر میں داخل ہوتے ہی سلام کیا۔
”وعلیکم سلام! آجا صفیہ بیٹھ جا۔ شاہ زیب کے ابا اٹھ جائیں، شمشاد بھائی اور اپنی صفیہ آئی ہے۔“
رقیہ نے بہن بہنوئی کی آمد کا بتا کر چارپائی پر لیٹے فیاض کو جگایا۔ وہ آنکھیں ملتا ہوا بیٹھ گیا اور شمشاد اس کے پاس بیٹھ گیا۔
”فیاض بھائی! تو تو بالکل گھر کا ہو کر رہ گیا ہے۔ چار سال ہو گئے شاہ زیب کو گئے ہوئے تو نے زمینوں پر پیر ہی نہیں رکھا۔ باہر نکل کر لوگوں سے ملنا تو نے بالکل ہی چھوڑ دیا۔“
”یار دل نہیں چاہتا میرا، شاہ زیب میرے اندر سے جینے کی خواہش ہی لے گیا۔ اولاد ماں باپ کے لیے پروں کی طرح ہوتی ہے، وہ ان کے سہارے اڑتے پھرتے ہیں، محنت کرتے ہیں، ہر مشکل سے لڑتے ہیں۔ میرے تو پر ہی ٹوٹ گئے یار اب مجھ سے نہ کھیتوں میں پھرا جاتا ہے نہ کسی سے ملا جاتا ہے۔ میرے حوصلے توڑ دئیے شاہ زیب کی جدائی نے۔“
وہ یہ کہہ کر رونے لگا۔
”بس یار حوصلہ کر، ہم یہاں تم لوگوں رابیل کی شادی کا کہنے آئے تھے۔ وہ کملی کسی رشتے کے لیے مانتی ہی نہیں ہے، اس کی عمر نکلی جا رہی ہے اور اگر بیٹیوں کی صحیح عمر میں شادی نہ ہو تو وہ ساری زندگی باپ کی دہلیز پر بیٹھی رہ جاتی ہیں۔
شمشاد نے اداس لہجے میں کہا۔
”ہم تجھے اور فیاض بھائی کو لینے آئے ہیں۔ ہمارے ساتھ چل کر اسے سمجھائیں کہ درزی مشتاق کے بیٹے کے رشتے کے لیے ہاں کر دے۔ سب تیاریاں مکمل ہیں؛ مگر رابیل ہمیشہ کی طرح ضد لگائے بیٹھی ہے کہ وہ شادی شاہ زیب سے ہی کرے گی۔ اس پاگل کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اگر شاہ زیب زندہ ہوتا تو اس کا کوئی خط، کوئی فون، کوئی پیغام تو آتا۔ میں نے ہزار مرتبہ سمجھایا ہے کہ وہ ڈوب کر مر گیا ہو گا سمندر میں؛ مگر یہ نہیں مانتی اور آج بھی اس کے عشق میں ڈوبی پڑی ہے۔“
صفیہ پریشان تھی بہت، وہ پریشانی میں یہ بھی بھول گئی کہ اس کی بات بہن کے دل کو چیر رہی ہے۔
”میرا شاہ زیب ڈوب کر نہیں مر سکتا، پورا گاؤں جانتا ہے وہ گاؤں کی بڑی نہر میں کیسے تیراکی کرتا تھا۔“
رقیہ تڑپ کر بولی۔
”نہر اور سمندر میں زمین آسمان فرق ہوتا ہے رقیہ بہن۔“
یہ کہہ کر شمشاد چارپائی سے اٹھا اور ساتھ ہی فیاض بھی اٹھ گیا۔
”چل رقیہ ہم سمجھا آتے ہیں رابیل بیٹی کو، آخر وہ بھی تو ہماری بیٹی ہی ہے۔“
فیاض نے رقیہ کو کہا اور وہ آنسو پونچھتی ہوئی ان سب کے ساتھ چل پڑی۔
سترہ اگست کا دن شادی کے لیے طے پایا؛ کیونکہ چودہ اگست تک مشتاق درزی بہت مصروف تھا، گاؤں کے لڑکوں کے سبز کرتے سینے تھے اس نے۔
رقیہ گھر آ کر بہت روئی؛ کیونکہ اس نے رابیل کو ہمیشہ اپنی بہو کے روپ میں دیکھنا چاہا تھا۔ وہ آج اپنے ہاتھوں سے اس کے سر پر کسی اور نام کی چنری ڈال کر آئی تھی۔
”مت رو رقیہ! مت رو!، بلکہ تو رابیل کے لیے نیک نصیب کی دعائیں کر۔ اللہ پاک اس بچی کی جھولی میں وہ تمام خوشیاں ڈالے جس کی وہ حقدار ہے، وہ بھی ہماری طرح گزشتہ چار سالوں سے انتظار کی سولی پر لٹکی ہوئی تھی۔ چلو کسی کی تو جان چھوٹی ہماری جان تو شاید جان نکلنے کے بعد ہی چھوٹے۔“
فیاض کی آنکھوں میں نمی تھی کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ فیاض کھانستا ہوا دروازہ کھولنے پہنچا۔ اس نے جیسے ہی دروازے کی کنڈی کھولی تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا، میلے کچیلے کپڑوں میں اس کا پتر شاہ زیب سامنے کھڑا تھا۔
”شاہ زیب!۔“
اس کے منہ سے اتنا نکلا بس، شاہ زیب دیوانہ وار باپ سے لپٹ گیا۔
”ابا!، ابا!۔“
وہ بلک بلک کر بچوں کی طرح رونے لگا۔ رقیہ بھی گرتی پڑتی بیٹے سے آ کر لپٹ گئی۔
”شاہ زیب میرا پتر!، میرا شہزادہ! کہاں چلا گیا تھا تو؟ اپنی ماں کو چھوڑ کر کوئی ایسے جاتا ہے کیا؟ تجھے ذرا ترس نہیں آیا ماں باپ کا۔“
رقیہ پاگلوں طرح کبھی اس ہاتھ چوم رہی تھی، کبھی اس کا منہ۔ رقیہ اور فیاض کی حالت ایسی تھی، جیسے بھٹکتے ہوئے مسافر اچانک سے منزل کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔
وہ ماں کی گود میں لیٹا تھا اور وہ بڑی محبت سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی۔
”میں ذلیل خوار ہوتا ہوا ایران پہنچا اور پھر ایران سے چھپتا چھپاتا جان بچاتا ترکی، مجھے ترکی سے لبنان پہنچنا تھا اور لبنان سے اٹلی۔ میں نے بہت دھکے کھائے کئی دن میں بھوکا بھی رہا، لوگوں سے پیٹ بھرنے کے لیے بھیک بھی مانگی اور کام بھی؛ مگر وہاں کوئی میری بات سننے کو تیار ہی نہیں تھا۔ نہ زبان اپنی نہ لوگ۔ مجھے احساس ہو گیا تھا کہ میں نے اپنے وطن کی سکھ بھری زندگی کو لات مار کر بہت بڑی غلطی کی ہے؛ مگر اب میرے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ میں باقی کے تارکین وطن کے ساتھ لبنان کی سرحد کراس کرنے والا تھا کہ ترک فوجی کی گولی میری ٹانگ میں لگ گئی۔ میں کچھ دن ہسپتال اور پھر جیل میں ڈال دیا گیا۔ میں نے بہت بار کوشش کی کہ گھر رابطہ کروں؛ مگر نہیں کر سکا۔ اماں مجھے معاف کر دینا! میں تیری بالیاں واپس نہیں لا سکا، تیرا نکما پتر پردیس جا کر بھی نکما ہی رہا۔“
وہ گود میں پڑا آنسو بہا رہا تھا۔
”ایسے نہ کہہ پتر!، آگے بتا، پھر آگے کیا ہوا۔؟“
”پھر میں تین سال جیل میں پڑا سڑتا رہا اور پرسوں ترک حکومت نے پاکستان کے یوم آزادی کے تحفے کے طور پر خیر سگالی جذبے کے تحت کچھ تارکین وطن پاکستانی قیدیوں کو پاکستانی سفارت خانے کے حوالے کیا۔ خوش قسمتی سے ان میں سے ایک میں بھی تھا۔ میں کل اسلام آباد پہنچا اور آج صبح کا اسلام آباد سے چلا رات گئے اپنے گاؤں پہنچ سکا۔ یہ ہے میری ترک وطن کی کہانی، جس کے ہر موڑ پر مجھے اپنا گاؤں، آپ دونوں اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
وہ چپ ہو گیا ایکدم بولتا ہوا۔
”رابیل کیسی ہے وہ ٹھیک تو ہے ناں؟“
وہ ایکدم پوچھنے لگا۔
”ٹھیک ہے، تجھے بہت یاد کرتی ہے؛ مگر تین دن بعد اس کی شادی ہے۔ وہ شادی کی لیے نہیں مان رہی تھی، بڑی مشکل سے میں نے اور تمہارے ابا نے راضی کیا ہے اسے۔ ہمیں کیا پتا تھا تو لوٹ آئے گا، ورنہ ہم کبھی اسے کسی دوسرے سے شادی کے لیے راضی نہ کرتے۔ تو اب اسے بھول جا بیٹا، وہ تیرے نصیب میں نہیں تھی۔ اب وہ کسی اور کی منگ ہے۔“
اماں کے یہ بات بتاتے ہی شاہ زیب کے چہرے کا رنگ اڑ گیا، اس نے گاؤں میں رہ کر بھلے رابیل کی محبت کی کبھی قدر نہ کی ہو؛ مگر پردیس جا کر وہ ہر لمحہ اس کی محبت میں گھلتا رہا تھا۔
صبح ہوتے ہی پورا گاؤں شاہ زیب کو ملنے پہنچ گیا، سب آ گئے؛ مگر وہ نہ آئی جس کا راستہ وہ صبح سے دیکھ رہا تھا۔ شام ہو گئی اس کا دل گھبرانے لگا۔
”اماں! میں ماسی کے گھر ہو آؤں۔ میرا دل چاہ رہا ہے، چار سال ہو گئے مجھے وہاں گئے ہوئے۔“
”ہاں، ہاں چلا جا۔“
اماں کی بجائے ابا بولا اور فوراً ماسی کے گھر کی طرف چل دیا۔
”ارے کیوں بھیج دیا وہاں اسے جانتے ہیں ناں رابیل کی منگنی ہو گئی ہے اور پرسوں شادی ہے اس کی۔ ایسے اس کا اس کے گھر جانا اس کے سسرال والوں کو ناگوار نہ گزرے۔“
رقیہ پریشانی سے بولی۔
”کچھ نہیں ہوتا، وہ اس کی خالہ کا گھر بھی ہے۔“
فیاض نے جواب دیا۔
وہ ماسی کے گھر داخل ہوا، تو ماسی اسے دیکھتے ہی واری صدقے جانے لگی۔ فوراً اس کے لیے لسی بنا لائی؛ مگر رابیل پھر بھی باہر نہ آئی۔ بلآخر شاہ زیب نے رابیل کے بارے میں پوچھ لیا۔
”وہ چھت پر ہے پتر، میں بلاتی ہوں اسے۔“
ماسی کراہتے ہوئے اٹھنے لگی؛ مگر شاہ زیب نے انہیں روک دیا۔
”رہنے دیں خالہ آپ تنگ ہوں گی، میں خودی مل آتا ہوں اسے۔“
وہ یہ کہہ کر چھت پر چلا گیا۔ وہ ایک کونے میں زمین پر بیٹھی آسمان کو گھور رہی تھی۔
”کیا دیکھ رہی ہو؟“
وہ اس کے قریب جا کر بولا۔
”کچھ نہیں بس اوپر والے کی طرف دیکھ رہی ہوں کہ میری محبت کے نصیب میں اتنی آزمائش کیوں۔ جب میں تمہاری تھی تو تم کھو گئے اور جب میں تمہاری نہ رہی تو تم فوراً لوٹ آئے۔ شاید اسے میرا تمہارے نام ہونا منظور ہی نہیں ہے۔“
وہ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولی۔
”نہیں ایسا نہیں ہے، اسے تمہارا کسی اور کا ہونا نامنظور ہے، تبھی تو مجھے واپس لے آیا وہ۔ تم اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہو، کیا تم میرے علاؤہ کسی کی ہو سکتی ہو۔؟“
اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا اور رابیل کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو گر کر اس کے گالوں پر پھسلنے لگے۔
”اب کچھ نہیں ہو سکتا چلے جاؤ یہاں سے۔ تمہیں تو بہت شوق تھا ناں بچھڑنے کا پردیس جانے کا۔ مبارک ہو! تمہیں ہم دیس میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے لیے پردیسی ہو گئے۔“
وہ روتے ہوئے بول رہی تھی۔
”ایسا مت کہو رابیل میں مر جاؤں گا۔“
”تم مر جاؤ گے اور میں مر چکی ہوں اور جانتے ہو میں کب مری۔ جب میرے سر پر تمہاری اور میری ماں نے مشتاق درزی کے بیٹے کے نام کی چنری ڈال دی۔ مجھے وہ چنری اپنی محبت کا کفن لگ رہی تھی۔“
وہ آنسو بہاتے ہوئے بولی۔۔
شمشاد اور صفیہ دور کھڑے دونوں کی باتیں سن چکے۔ صفیہ آگے بڑھنے لگی مگر شمشاد اس کا بازو پکڑ کر اسے واپس لے آیا اور وہ نیچے اترتے ہی مشتاق درزی کی دوکان پر چلا گیا اور ہاتھ جوڑ کر رشتے سے انکار کر آیا۔ کیونکہ پورا گاؤں جانتا تھا کہ رابیل چار سالوں سے کوئی رشتہ صرف شاہ زیب کے لیے قبول نہیں کر رہی تھی، اس لیے مشتاق درزی نے بھی اس کے انکار کا برا نہیں منایا۔۔۔ اور پھر سترہ اگست کو رابیل دلہن بن گئی، مشتاق درزی کے بیٹے کی نہیں؛ بلکہ چوہدری شاہ زیب کی۔ شاہ زیب کی زندگی میں سکھ ہی سکھ تھا۔ ماں باپ کی محبت، رابیل کی محبت اور وطن کی مٹی کی اپنائیت کی خوشبو، سب مل گیا تھا اسے اور اب اسے اس سب کی قدر بھی تھی؛ کیونکہ پردیس میں دھکے کھا کر وہ دیس کا سکھ جان چکا تھا۔
ویسے میری عمر 32سال ہے لیکن مجھے آپی، باجی، بہنا، سسٹر سارے لفظ بہت اچھے ان سب لفظوں میں احترام اور محبت ہے۔
Leave a Reply