کیا زمانے میں کوئی صاحبِ کردار بھی ہے؟
دلِ نشتر تیری حسرت کا گنہگار بھی ہے
کبھی گفتار بھی، بیکار بھی، مکّار بھی ہے
عشق میرا تِرے جلؤں کا پرستار بھی ہے
کیا مِرے حق میں تِرا وصل بھی دیدار بھی ہے؟
تیغ و بھالا بھی ہے اور خنجر و تلوار بھی ہے
سچ بتاؤ کہ اٹھانے کوئی تیار بھی ہے؟
خواب کتنے درِ تعبیر پہ دم توڑ دیے
عقل دیدارِ حقیقت کی طلبگار بھی ہے
سن سکو گر تو سنو عالمِ تنہائی کا غم
دل کی پائل میں خموشی بھی ہے جھنکار بھی ہے
ایک مدت سے کوئی دے نہ سکا مجھ کو جواب
کیا زمانے میں کوئی صاحبِ کردار بھی ہے؟
نغمہ گوئی سے نثارؔآج بھی باز آ نہ سکا
کیا ادب اور ثقافت سے تجھے پیار بھی ہے؟
(احمد نثارؔ، شہر پونہ، مہاراشٹرا، انڈیا)
Short URL: https://tinyurl.com/2gboqn8q
QR Code: 
Leave a Reply