مِترو

Print Friendly, PDF & Email

اپنی تقریر میں اک بار کہا تھا مترو
میرے چیلوں نے تو تہوار منایا مترو

ہوتے ہوتے ہوئے یہ بول بہت ہی مقبول
بن گئے تکیہ کلامی یعنی تکیہ مترو

پہلے پہلے تو بہت خوب مزے لیتا تھا
مائک پر جب بھی مِرا قبضہ ہوا تھا مترو

لفظ آساں تھا سہل بھی تھا بہلتے تھے سبھی
سارے مجمع کو بہت خوب پٹایا ’مترو‘

میرے چیلے بھی بڑے گیان کے بھنڈاری ہیں 
میں اسی گیان سے محفل کو پکارا مترو

پاس میرے تو کوئی لائحہ تھانا کوئی کام
بس چھلانگوں سے شب و روز گذارا مترو

یہ چھلانگیں میرے چیلوں کو لبھاتی ہی رہیں
اور حریفوں کو بھی بے سوچ بھگایا مترو

میڈیا کو میں بنایا مِرے در کے کتے
بندروں سا میں رعایا کو نچایا مترو

ایسے ہی دھوم مچاتے ہوئے دنیا گھوما
چائے والے کو جہاں دید کرایا مترو

اپنی قسمت کا ستارا ذرا مدھم ہے ابھی
جانے کیوں روٹھا ہے قسمت کا ستارا مترو

رب نے ابلیس کو جنت سے بھگانے کے لیے
ایک ادنیٰ ہی صحیح بھول کرایا مترو

ٹھیک اسی طرح سے تذلیل کرانے کے لیے
نوٹ بندی کی بڑی بھول کرایا مترو

میں صحیح تھا کہ غلط مجھ کو خبر تھی ہی نہیں
آپ کے دم سے ہی کرسی کو میں پایا مترو

جملہ بازی مِرا فن ہے، مِری شہرت اس سے
کب کہاں میں کوئی وعدہ بھی نبھایا مترو

مجھ کو کب فکر ہے لوگوں کی کہاں ڈوب مریں
دیش بھکتی میں مِرا نام ہے اونچا مترو

میری ڈگری پہ بحث چھیڑ کے اروِند میاں
پوٹلی چھوٹ کی کس طرح کھلایا مترو

***
شاعر : احمد نثارؔ 
شہر پونہ، مہاراشٹرا

Short URL: Generating...
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *