چھوٹا تبت۔۔۔ شادی بلتستان اور کشمیر

مجھے نہیں معلوم کہ ہندوستان کے مغل بادشاہ اکبر نے کب اور کیسے بلتستان کے راجے کی بیٹی کو شہزادہ سلیم کے لیئے مانگا پر یہ کہانی ہمیں تاریخ میں نظر آرہی ہے کہ 1846 سے بہت پہلے ہی شادی اور رشتوں کی بدولت بلتستان کا تعلق کشمیر کے ساتھ بندھ چکا تھا تاریخ کو جب کھنگالا جائے تو بڑے ہی دلچسپ واقعات بھی پڑھنے کو مل جاتے ہیں کیا ہوا تھا کیسے ہوا یہ سب کچھ آئیں 1947 سے پہلے والے ہندوستان کی طرف چلتے ہیں جہاں مغل حکومت کا طوطی بولتا تھا ۔آپ کیا سمجھتے ہیں کیا اس وقت گلگت بلتستان ایک تھے نہیں نا تو پھر کیا تھے ؟۔ کچھ تو تھے نا ۔جی ہاں گلگت دردستان تھا اور بلتستان بلتیوں کی سر زمین تھی ۔یاد رہے کہ یہ باتیں پندرویں صدی عیسوی کی میں آپ سے کر رہا ہوں جب بلتستان کو قرون وسطی دور کے حوالے سے چھوٹا تبت کہا جاتا تھا اس وقت گلگت اور بلتستان آج کی طرح ایک نہیں تھے بلکہ دو الگ الگ حثیت کے خطے تھے ۔اس حوالے سے بلتستان کا تعلق گلگت سے نہیں ان کی یاری جموں، لداخ اور وسطی ہندوستانی خطے کے ساتھ تھی ۔پندرویں صدی کے آخر تک دردستان اور بلتیوں کی سرزمین پر یکے بعد دیگرے کئی سلطنطوں کا راج رہا جن میں موری سلطنت، ہن، اجین سلطنت اور مسلم بادشاہ شامل ہیں۔مسلم بادشاہوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو مغل بادشاہ اکبر کے دل میں بھی یہ خواہش ابھری کہ کیوں نہ کشمیر جنت نظیر کو شامل حکومت کیا جائے ۔بادشاہ بادشاہ ہوتے ہیں بس خیال آنے کی دیر تھی سب انتظامات مکمل ہوئے اور میترو اکبر بادشاہ نے کشمیر کو اپنی راجدھانی میں شامل کیااور جب کشمیر جنت نظیر اس کے ہاتھ لگی تھی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اس جنت سے تعلق رکھنے والے دیگر حسین مقامات اس کی دسترس سے باہر رہئیں ۔چناچہ جنگ جدل کے ساتھ رشتے ناطوں سے بھی خواہشوں کی تکمیل کرنے میں پس و پیش نہیں کیا گیا ۔ایسا ہی ایک رشتہ بلتستان کی شہزادی کا دکھائی دیتا ہے جو اکبر بادشاہ کے بیٹے سلیم کے ساتھ ہوا تھا جس کے باعث بلتستان اور لداخ پر قبضہ کرنا آسان ہو ا۔ وقت گزرنے کے ساتھ شادیوں کے اتحاد اور بلتستان کے مقامی وائسرائوں کی تقرری کی بدولت سولویں صدی عیسوی میں بلتستان مغلوں کے زیر تسلط اور جھولی میں آیا
Leave a Reply