یقین اور اعتبار

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: قراۃ العین شفیق، ساہیوال

      پیر فیروز اللہ شاہ کی گاؤں میں ایک بہت بڑی حویلی تھی اس کی گاؤں میں بہت سی زمینیں تھی گاؤں کے قریبی قبرستان کے پاس پیر فیروز اللہ شاہ کا بہت بڑا دربار تھا نہ صرف گاوں کے لوگ بلکہ دور دور تک اس کی شہرت کے قصے تھے گاؤں کے لوگوں کا ماننا تھا کہ پیر فیروز اللہ شاہ ہر پریشانی کا حل ہےلوگ لاکھوں پیسے اس کے دربار پر نچھاور کرتے تھے طرح طرح کے صدقے اس کے دربار پر دیے جاتے تھےپیر کے خلاف کوئ بات کرتا تو لوگ اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے پیر فیروز اللہ شاہ کالے علم میں ماہر تھا اس بات کا علم صرف اس کے خاص بندوں کو تھا ایک دفعہ ایک عورت دربار میں اکر پیر کے سامنے گڑگڑانے لگی کہنے لگی میرا ایک ہی بیٹا تھا اس نے اپنی من پسند دلہن میرے سر پر لا کر بیٹھادی ہے میں اس کی شادی اپنی بھانجی سے کروانا چاہتی ہوں کچھ بھی کرے اس عورت کو میرے بیٹے سے دور کردیں پیر نے کہا تمہارا کام ہو جاے گا اس کے لیے تمھیں ایک لاکھ روپیہ دینا ہو گا عورت کے پاس اسے دینے کے لیے پیسے نہیں تھے پیر نے کہا پیسے نہیں ہیں تو کیا ہوا یہ جو تمھارے ہاتھ میں دو کنگن ہیں یہ مجھے دےدو تمہارا کام ہو جاے گا اس بوڑھی عورت نے سوچا اور کہا یہ کنگن بہت قیمتی ہیں یہ میں آپ کو نہیں دے سکتی پیر نے کہا بیٹے سے بھی زیادہ قیمتی ہیں کیا یہ کنگن بڑھیا نے کہا کے نہیں بڑھیا کو اپنی بہو سے نجات چاہیے تھی وہ اس کی شادی کرکے اپنی من پسند بہو چاہئے تھی ہر حال میں پھر اس نے کنگن اتارے اور پیر کو دے دیے پیر فیروز اللہ شاہ نے کہا کے کل آکر تعویذ لے جانا جب سے اس کا بیٹا فیضان علیزے سے شادی کر کے اسے گھر لے کر ایا تھا اس کی ماں کلثوم بیگم ہر وقت غصہ میں رہتی تھی اس نے علیزے کو طرح طرح کی تکلیفیں دی لیکن علیزے اسے اپنا نصیب سمجھ کر برداشت کرگئ جب کلثوم بیگم نے دیکھا کے علیزے اس کا ہر ظلم برداشت کررہی ہے تب اس کے ذہن میں تعویذ گنڈوں کا خیال ایااب پیر نے اسے کچھ تعویذ دیے اور کہا کہ کسی طرح اسے یہ تعویذ کھانے کی کسی بھی چیز میں دے دینا میں ادھر چلہ کاٹنا شروع کر دو گارات بارہ بجے کے بعد تمہیں اپنی بہو سے نجات مل جائے گی وہ بہت خوش تھی اسے اپنی منزل بہت قریب دکھائ دے رہی تھی لیکن وہ اپنی خوشی کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی سردیوں کے دن تھے ہلکا ہلکا اندھیرا ہو رہا تھا وہ گھر پہنچی تو علیزے کھانا تیار کر چکی تھی فیضان جب کام سے گھر لوٹا تو علیزے نے جلدی جلدی کھانا لگایا جیسے ہی کھانے سے سب فارغ ہوے علیزے چاے بنانے کے لیے اٹھی کیونکہ کلثوم بیگم کو کھانے کے بعد چاے پینے کی عادت تھی اور علیزے بھی کھانے کے بعد چاے پینا پسند کرتی تھی  علیزے کی ساس کلثوم بیگم نے بڑی شفقت سے علیزے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا اج میں اپنی چاند جیسی بہو کے لیے خود اپنے ہاتھوں سے چاے بناؤ گئ علیزے اس اچانک ا جانے والی تبدیلی سے بہت خوش بھی تھی اور حیران بھی کلثوم بیگم نے چاے بنای اپنا کپ علیحدہ کیا اور علیزے کی چاے میں تعویذ چمچ سے مکس کرنے لگی فیضان کو دودھ اور علیزے کو چاے دینے کے بعدوہ اپنا کپ لے کر اپنے کمرے میں اگی فیضان نے کہا بہت دن ہو گئے ماں کے ہاتھوں کی چاے نہیں پی اگر تم مناسب سمجھو تو میں تمہارا چاے کا کپ لے لوعلیزے بہت خوش تھی کیونکہ ان پانچ مہینوں میں اج پہلی دفعہ اس کی ساس نے اسے محبت بھری نظروں سے دیکھا تھا اس نے خوشی خوشی وہ کپ فیضان کو تھما دیا اور خود دودھ پینے لگی جیسے ہی رات کے بارہ بجے فیضان کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کا بدن آگ میں جل رہا ہواس سے پہلے وہ علیزے کو اٹھاتا ایک ہی جھٹکے میں اس کی روح پروز کر گئ ادھر کلثوم بیگم کو اس خوشی میں نیند نہیں ارہی تھی بڑی مشکل سے اس نے رات آنکھوں میں کاٹی اس کے علیزے کی موت کے منتظر تھی لیکن اچانک اس کا دروزہ کوئ زور زور سے کھٹکھٹانے لگا دروازہ کوئ اور نہیں بلکہ علیزے کھٹکھٹا رہی تھی علیزے ہوش وحواس سے بیگانہ تھی اس کی زبان سے الفاظ نہیں ادا ہو رہے تھے علیزے کلثوم بیگم کو اپنے کمرے میں لے کر گئ اور کہا کہ  فیضان آنکھیں نہیں کھول رہا ڈاکٹر کو بلایا گیا ڈاکٹر نے کہا کہ اب فیضان اس دنیا میں نہیں رہاکلثوم بیگم اپنے بیٹے کا دکھ برداشت نہیں کرسکی اور وہ اپنے ہوش  وحواس کھو بیٹھی اور اب وہ پاگل ہو چکی ہے اور کہتی ہے کہ میں ڈائن ہوں اور اپنے بیٹے کی موت کی ذمہ دار ہوں علیزے کے ماں باپ نے اس کی شادی ایک خوشحال گھر انے میں کردی وہ اب بہت اچھی زندگی گزاررہی ہے پیر فیروز اللہ شاہ بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے جب وہ ایک رات وہ اپنے کمرے میں سورہے تھے تو اس کمرے میں آگ لگ گئ اور وہ ان کی لاش جل کر کوئلہ بن گئ اور ان کا دربار بھی اب ویران ہو چکا ہے اج کے دور میں بھی اسی فیصد لوگ تعویذ گنڑوں پریقین رکھتے ہیں اور اپنے مستقبل کو درد ناک بنا لیتے ہیں کہتے ہیں مظلوم کو خوشیاں مل سکتی ہیں لیکن ظالم انسان کبھی خوش نہیں کرسکتا ایک سچا مومن صرف اللہ پر یقین رکھتا ہے اور اسی کے اگے جھکتا ہے ان تعویذ گنڈوں پر یقین رکھنے والا انسان تباہ برباد ہو جا تا ہے جس انسان کو اللہ تعالی پر یقین نہیں ہوتا وہی انسان شرک کرتا ہےاللہ تعالی کا ارشاد ہے میں ہر انسان کو معاف کر سکتا ہوں سواے شرک کے شرک بہت بڑا گناہ ہےجس کی سزا انسان کو  اس دنیا میں ہی مل جاتی ہےبے شک مشکلات اور پریشانیاں جتنی بھی ہوصرف اللہ سے مدد مانگےبے شک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے بے شک اللہ بہت بڑا مددگار اور اسانیاں پیدا کرنے والا ہے وہ کبھی لے کر آزمانا ہے اور کبھی دے کربس مومن وہی ہے جو ہر آزمائش پر پورا اترے۔

Short URL: https://tinyurl.com/2ptpc5a4
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *