غزل: کہاں انسان پائے جارہے ہیں

Print Friendly, PDF & Email

Kahan Insan Paye Ja Rahe Hein Kahan Insan Paye Ja Rahe Hein Kahan Insan Paye Ja Rahe Hein

شاعر: احمد نثارؔ

کہاں انسان پائے جارہے ہیں
فقط انساں کے سائے جارہے ہیں

یہ کیسے غم ہیں کھائے جارہے ہیں
ہمیں پل پل مٹائے جارہے ہیں

جنہیں زنداں میں ہونا چاہئے تھا
انہیں مسند بچھائے جارہے ہیں

یہاں پر بھوک سے جلتی ہیں آنکھیں
کہاں چولہے جلائے جارہے ہیں

محبت کے پیالوں کی جگہ اب
تنفر کے پلائے جارہے ہیں

جہاں نغمے سنائے جارہے تھے
وہاں نوحے سنائے جارہے ہیں

نہیں بدلے گی دنیا چھوڑئے گا
کہاں سر کو کھپائے جارہے ہیں

کبھی کھل کر بھی رونا سیکھئے گا
کہاں آ نسو چھپائے جارہے ہیں

صلیبِ عشق پر شاعر میاں بھی
چڑھاوا اِک چڑھائے جارہے ہیں

جنہیں نظریں ملانا چاہئے تھا
وہی نظریں چرائے جارہے ہیں

یہ لمحے آخری ہیں زندگی کے
میاں اب سر جھکائے جارہے ہیں

ہم اْن کو آزمائے جارہے ہیں
وہ ہم کو آزمائے جارہے ہیں

حیا کی شان ہوتے تھے کبھی جو
وہ پردے اْف گرائے جارہے ہیں

یہاں جذبات کے اب بھی جنازے
سبھی کاندھے اْٹھائے جارہے ہیں

وہ گْل شبنم سے کل تھے تازہ تازہ
وہی خوں میں نہائے جارہے ہیں

سلیقہ ہم سے سیکھا تھا وفا کا
وہی ہم کو مٹائے جارہے ہیں

یہ پتھر کے صنم ہیں اِن کے آگے
کہاں آنسو بہائے جارہے ہیں

جو چھیڑا میں نے تارِ دل کے نغمے
زمانے گنگنائے جارہے ہیں

نثارِؔ بے نوا کے سارے قصے
شبِ غم کو ہنسائے جارہے ہیں
٭٭٭٭

شاعر: احمد نثارؔ
شہر پونے، مہاراشٹرا، انڈیا

Short URL: https://tinyurl.com/27fqyznc
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *