امتحان کی رات بھر جاگنا تباہ کن کیوں؟

Print Friendly, PDF & Email

جیکی تمینن کے پاس پڑھنے والے بہت سے طلبہ امتحان سے پہلے پوری پوری رات جاگ کر تیاری میں گزارتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے علم میں اضافے کا باعث بنے گا۔ لیکن برطانیہ کے رائل ہالو وے یونیورسٹی میں سائیکالوجی کے پروفیسر جیکی کے مطابق یہ اس صورتحال میں کرنے والا بدترین کام ہے۔

ننید انسانی یادداشت پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے، خاص طور پر ہم زبان کو کیسے یاد رکھ پاتے ہیں۔ تمینن اسی شعبے کے ماہر ہیں۔

سونے کی عادت سیکھنا بچوں کے لیے پسندیدہ خیال ہو سکتا ہے اس امید کے ساتھ کہ وہ ساتھ زبان بھی سیکھیں۔ یہ روایت کہ سوتے ہوئے زبان سیکھنے کے متعلق ریکارڈنگ سننے سے آپ کے دماغ پر نقش چھوڑ جاتی ہے اور جب آپ اٹھتے ہیں تو وہ قدیم زبان بولنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔

لیکن علم کو دماغ کے اندر رکھنے کے لیے بھی نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں تمینن اور دیگر محققین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق نے بتایا ہے کہ یہ سب کیوں ضروری ہے یعنی نیند۔

تمینن کی تحقیق ابھی جاری ہے جس میں شرکا کو نئے الفاظ سکھائے جاتے ہیں اور پھر ان کو پوری رات جاگنے کو کہا جاتا ہے۔

تمینن نے اس حوالے سے کچھ دن اور پھر کچھ ہفتے کے بعد یہ دیکھا کہ کیا انھیں وہ الفاظ اب بھی یاد ہیں۔

بہت سی راتوں کے بعد نیند پوری ہونے کے عمل سے گزرنے کے بعد انھوں نے دیکھا کہ انھوں نے کتنی جلدی ان الفاظ کو یاد کر لیا اس گروپ کے مقابلے میں جو نیند کی کمی کا شکار تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ نیند واقعی ہی سیکھنے کا مرکز ہے۔

‘اگر آپ پڑھائی نہیں بھی کر رہے تو بھی جب آپ سو رہے ہوتے ہیں تو آپ کا دماغ مسلسل پڑھ رہا ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے وہ آپ کی جگہ کام کر رہا ہے۔ آپ اگر سوئئں گے نہیں تو اپنی پڑھائی پر صرف کیے جانے والی وقت سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔’

تمینن کی سونے کے لیے مختص تجربہ گاہ کے کمرہ نمبر ایک کی تزئین و آرائش بہت اچھی کی گئی تھی۔ وہاں تتلیوں کی تصاویر کی فریم اور رنگ برنگی غالیچے رکھے ہوئے تھے۔

وہاں موجود بستر کے اوپر ایک چھوٹی سی ای ای جی مشین لگی ہوئی تھی۔ جس کامقصد مریض کے دماغ میں ہونے والے عوامل کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہے۔ اس کے لیے وہاں ان کے سروں پر الیکٹروڈز موجود ہوتے ہیں۔ یہ دماغ کے سامنے والا، سائڈ والا اور اندرونی حصہ مانیٹر کرتا ہے بلکہ مسلز کی نقل و حرکت اور آنکھوں کے ہلنے تک کو ریکارڈ کرتا ہے۔

خواب اصل میں دن کے وقت جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے اس کا ری پلے ہی ہوتے ہیں۔ ریسرچ کے مطابق دماغ کا وہ حصہ جو منطق سے جڑا ہوتا ہے اور جذبات سے وہ نیند کے دوران مختلف طرح سے کام کرتا ہے۔ جو بچے دوسری زبان سیکھ رہے ہوتے ہیں سوتے میں ان کی آنکھوں کی پتلیاں زیادہ حرکت کرتی ہیں۔ یوں انھیں زیادہ ٹائم ملتا ہے۔ اس مواد کو ضم کرنے میں جو انھوں نے سیکھا۔

ہمارے اندر موروثی طور پر ایک گھڑیال ہوتا ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ کب سونا ہے اور کب جاگنا ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس شخص کا طرز زندگی عام سے مختلف ہو، ماحول یا موروثی طور پر وہ بے خوابی کا شکار ہو تو سب سے پہلا کام جو وہ کر سکتا ہے گہرے رنگ کے پردوں کا استعمال کرے یا دن کے وقت زیادہ روشنی میں رہے۔

تمینن کی حالیہ تحقیق میں سلو ویو سلیپ پر بات کی گئی ہے جسے عرف عام میں گہری نیند کہتے ہیں۔ یہ یاداشت بنانے اور اسے محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے چاہے وہ گرامر سے متعلق ہو، الفاظ کے ذخیرے سے یا کوئی اور معلومات ہوں۔ یہاں دماغ کے مختلف حصوں کا آپس میں رابطہ بہت اہم ہے۔

گہری نیند کے دوران ہوتا یہ ہے کہ ہمارے دماغ کا جو حصہ ہیپیکمپوس کہلاتا ہے وہ شاید ابتدائی طور پر اس دن سیکھنے والے الفاظ کو ان کوڈ کرتے ہیں۔ ایسے میں دماغ کے مختلف حصوں کا آپس میں رابطہ بہت اہم ہوتا ہے۔

گہری نیند کے دوران ہیپی کیمپس جو کہ جلد سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ نیو کورٹیکس سے رابطہ کرتا ہے اور اسے لمبے عرصے کے لیے معلومات کو یاد رکھنے کے لیے مستحکم کرتا ہے۔

بالغوں کی تعلیم کے لیے روزانہ نظموں کی دوہرائی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن ہاں بچپن میں اس کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔ بچوں کی نیند بڑوں کی نسبت گہری ہوتی ہے اور اس وجہ سے شاید اس نکتے کی وضاحت ہوتی ہے کہ بچے زبان اور دیگر امور جلدی سیکھتے ہیں۔

جرمنی کی یونیورسٹی میں یہ تحقیق کی گئی کہ نیند بچے کی سیکھنے کی استعداد میں کیا کردار ادا کرتی ہے۔ محققین نے یہ مانیٹر کیا کہ نید کے دورانبچے کے دماغ میں کیا ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہ نیند سے پہلے سیکھی جانے والی چیزیں جاگنے کے بعد کتنی حد تک یاد رہ جاتی ہیں۔

یہ معلوم ہوا کہ نیند بچے کو مکمل علم میں مدد دیتی ہے یعنی یہ اس کی یاداشت کو باضابطہ طور پر بننے اور اسے تشریحی یاداشت بنانے میں مدد دیتی ہے۔

بالغ افراد بھی سیکھی گئی معلومات کو نیند کے بعد دوہرا سکتے ہیں لیکن محقق کیتھرینہ زینکی کا کہنا ہے ‘نیند بچوں میں زیادہ پراثر انداز میں اثر چھوڑتی ہے۔’

ڈومنکی پیٹٹ کینیڈین سلیپ اینڈ سرکیڈین نیٹ ورک میں کوارڈنیٹر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بچوں کو دن کے وقت سونے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کا دماغ سب کچھ سیکھ سکے۔

لڑکپن میں بچوں کے لیے دن کو سونا ان میں زبان سیکھنے کی صلاحیت کے حوالے سے بہت اہم ہوتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ نیند دماغ کو متحرک کرتی ہے اور اس میں معلومات کو محفوظ کرتی ہے اس کے علاوہ یہ ضرورت کے وقت معلومات کو دماغ سے نکالنے یعنی استعمال میں لانے میں بھی مدد کرتی ہے۔

‘یاداشت کی اہم معلومات یاد رہ جاتی ہے۔’

یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ بچوں میں اور بالغوں میں بھی لمبی نیند سستی کی علامت نہیں ہوتی۔

Short URL: http://tinyurl.com/y8ucvm9b
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *