خوداری یا عزت نفس

Rehmat Ullah Baloch
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: رحمت اللہ بلوچ

یہ وہ اخلاقی وصف ہے جس سے انسان اپنی عزت اپنی شان اپنے مرتبہ اور اپنی حیثیت کی حفاظت کرتا ہے زندگی میں اسکے موقعے کثرت سے پیش أتے ہیں اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے ملنے جھلنےکھانے پینے اوڑھنے پہنے غرض معاشرتی زندگی کے تمام حالات میں انسان کو اپنی حیثیت اور عزت کے محفوظ رکھنے کیلٸے اسکی ضرورت ہوتی ہے جس میں یہ وصف نہ ہوگا اس میں نہ نظر کی بلندی ہوگی نہ خیال کی رفعت نہ اخلاق کی اونچاٸی نہلوگوں کی نگاہوں میں اسکی عزت ہوگی نہ اسکی باتوں کا لحاظ کیا جاٸیگا اور نہ اسکی طرف لوگ متوجہ ہونگے اور نہ اسکو کسی مجلس میں وقار حاصل ہوگا یہ عزت و وقار سب سے پہلے اس بلند و برتر ذات الہی میں ہے جو ہماری عزتوں کامرکز ہےبہتر مقعوں پر اللہ پاک کا نام عزیز لیا گیا ہے عزیز کے معنی ہیں عزت والا صحابہ کرام زمانہ خلافت میں قیسر و کسرا کے مقابلہ میں صف أرا تھے انکی اسلامی خوداری کا یہ عالم تھا کہ کمزور سے کمزور مسلمان قیسر و کسرا کے درباروں میں بے دھڑک چلا جاتا تھا أج بھی ہر مسلمان بحیثیت مسلمان کے اپنی مذہبی عزت اور خوداری کا احساس رکھتا ہے یہ خوداری عین شرافت ہے جس میں یہ خوداری نہیں لوگوں کی أنکھوں میں اسکا وقار نہیں اس اخلاقی خوداری اور شریفانہ رکھ رکھاٶ کی حفاظت کی خاطر قدم قدم پر اپنی ایک ایک بات پر نظر رکھنی پڑتی ہے چال دھال بول چال لباس ہر چیز سے شرافت کا اظہار ہو لیکن اس احتیاط کے ساتھ ہو تنگ ظرفی غرور نماٸش کی بو تک نہ ہو یعنی اس میں اپنی بڑھاٸی اور دوسروں کی تحقیر کی جز شامل نہ ہو یہی چیز ہے جس سے خوداری غرور اور نماٸش فرق و امتیاز کیا جاسکتا ہے اسکو کہتے ہیں خوداری یا عزت نفس/

Short URL: http://tinyurl.com/yxo3c5uv
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *