ڈاکٹر، ڈاکو، ڈریکولا۔۔۔۔ تحریر: ذوالفقار خان، داؤد خیل

Zulfiqar Khan
Print Friendly, PDF & Email

مجھے کچھ روز پہلے اپنی شریکہ حیات کے چیک اپ کے سلسلہ میں میانوالی شہر جانا پڑا۔ ایک دوست نے مشورہ دیا کہ فلاں ڈاکٹر سے الٹرا ساؤنڈ کرا لو، وہ الٹراساؤنڈ کا ماہر ہے۔ مگر اُس سے مزید علاج نہ کروانا۔ دوست کے ہدایت پر عمل کیا۔ الٹراساؤنڈ کے لیے نمبر لکھوایا اور ڈاکٹر کا انتظار شروع ہوگیا۔ نو بجے کا وقت دیاگیا مگر دس بجے کے بعد باریش ڈاکٹر اپنی کار سے اُترے۔ کچھ دیر بعد الٹرا ساؤنڈ ہوگیا تو مجھے اندر بلایا گیا۔ ڈاکٹر موصوف نے مجھے الٹرا ساؤنڈ رپورٹ پہ لکیریں کھینچتے ہوئے بتایاکہ آپ کی بیوی کایہ مسئلہ ہے۔ ہم اس کا کیمرے والا آپریشن کردیتے ہیں۔ میں نے جواب دیا ، جناب آپ کی بات تو ٹھیک ہے مگر ہمیں سوچنے کا موقع دیں۔ ڈاکٹر صاحب نے نیم دلانا انداز میں موقع فراہم کیا۔ میں اور بیگم کمرے سے باہر آکر مشورہ کرنے لگے ۔ اسی اثنا ء میں ڈاکٹر کی ایک اٹینڈنٹ دوڑی ہوئی آئی اور ہمیں ایک پرچی تھما دی کہ جاؤ یہ تین ٹیسٹ سامنے کلینک کی لیبارٹری سے کرا لاؤ۔ ہم نے ٹیسٹ کے لیے خون وغیرہ دیا اور ڈاکٹر کے دوسرے اٹینڈنٹ سے پوچھا کہ یہ ٹیسٹ تو آپریشن کے وقت کرائے جاتے ہیں۔ تو آپ ابھی کیوں کرا رہے ہیں۔ اس نے حیرانی اور پریشانی سے مجھے دیکھا اور کہا کیوں؟ آپ نے ابھی آپریشن نہیں کرانا؟ میں نے کہاکہ جناب ہم یہاں آپریشن کرانے کے لیے نہیں ، چیک اپ کے لیے آئے تھے۔ آپریشن کرانا ہوا تو تیاری اور مشورہ کرکے آئیں گے۔ بڑی مشکل سے اُس نے ٹیسٹ رکوائے۔ اور ہماری گلو خلاصی ہوئی۔ایک دو ٹیسٹ کا پراسس تو لیبارٹری والے مبینہ طور پر کرچکے تھے اس لیے اُس کی فیس بٹور لی گئی۔
یہاں سے میں نے اپنے دوست ڈاکٹر کو فون کیا۔ اُس نے کہاکہ آپ یہ الٹرا ساؤنڈ رپورٹ کسی اور ڈاکٹر کو بھی چیک کرا لیں۔ میں نے ڈی ایچ کیو میں اُسی ڈاکٹر کے ایک ہم نام اورباریش ڈاکٹر کورپورٹس دکھائیں۔ اُس نے کہاکہ الٹرا ساؤنڈ والے ڈاکٹر کے بیان کے مطابق مسئلہ تو ہے مگر ایسی کوئی ایمرجنسی نہیں ہے۔ادویہ استعمال کرائیں۔ ٹھیک نہ ہو تو پھر آپریشن کرا لینا۔
پہلے ڈاکٹر کی جلد بازی وبازیگرانہ رائے پر پریشانی و حیرت اور دوسرے ڈاکٹر کی اطمینانہ و مخلصانہ رائے سے اطمینان لیے گھر کی راہ لی۔ بیگم کو بھی حوصلہ دیا۔ مگر جب ایک ڈاکٹر الٹراساؤنڈ کرکے مسئلہ بتا دے اور آپریشن کا فوری مشورہ صادر فرما دے تو مریض کو کب سکون آتا ہے۔ یہی ہوا، آئے روز بیگم اپنے خدشات کا اظہار کرتی اور کسی اور ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کرانے کا اصرار کرتی۔ آخر بات مانے بغیر کوئی چارہ نہ رہا۔ دوست احباب سے مشورہ کیا۔ موچھ کے ایک مخلص ساتھی محمد امیر خان نے ہمیں ہولی فیملی راولپنڈی جانے کا مشورہ دیا جہاں اُن کی بیٹی بطورِ ڈاکٹر کام کررہی ہیں۔
اللہ ہمارے ساتھی کی ڈاکٹر بیٹی کو سلامت رکھے۔ بہت اچھے طریقے سے خوش آمدید کہا۔ ہسپتال میں سینئر لیڈی ڈاکٹر سے چیک اپ کرایا اور تسلی نہ ہونے پر الٹراساؤنڈ کے بہت ماہر ڈاکٹر کے پاس خود لے گئیں۔ اڑھائی تین ہزار کا مکمل الٹراساؤنڈ بغیر کسی چارجز کے کروایا۔ اور بتایاکہ آپ پریشان نہ ہوں۔ رپورٹس کے مطابق آپ کی بیوی کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
ہم میاں بیوی کو یہ سُن کر بہت خوشی ہوئی اور حیرت بھی کہ میانوالی میں بیٹھا ، مشہور الٹراساؤنڈ ماسٹر ڈاکٹر جو اپنے ساتھ ریٹائرڈ میجر لکھوانا بھی ضروری سمجھتاہے اُس کی رپورٹ اور اس رپورٹ میں چند دن کے دوران زمین آسمان کا فرق؟
بعد میں اپنے کچھ دوستوں سے رابطہ کیا کہ میانوالی کے الٹراساؤنڈ اور راولپندی کے الٹرا ساؤنڈ میں یہ فرق پایا جاتاہے۔ تو بہت سے دوست تو پھٹ پڑے۔ ایسے لگا کہ میانوالی کے اکثر ڈاکٹرز کے ڈسے ہوئے ہیں۔ پہلے تو اُس باریش اور طبعی موت کے قریب پہنچے ہوئے میجر ریٹائرڈ ڈاکٹر کی کلاس لینا شروع کردی۔ ایک دوست گویا ہوا کہ اِسی لیے تو آپ کو منع کیا تھاکہ الٹرا ساؤنڈ کرا لیں مگر باقی اُس پر عمل نہ کرنا۔ ایک دوست نے کہاکہ اس ڈاکٹر کے الٹراساؤنڈ کو غلط ثابت کرنے کے لیے راولپنڈی جانے کا آپ کو مشورہ بھی تو ہم نے دیاتھا۔ میانوالی میں شاید کوئی اور الٹراساؤنڈ والا آپ کو اس ڈاکٹر سے متضاد رپورٹ دے بھی دیتا تو یہاں اس میجر ڈاکٹر کا شہرہ اتنا ہے کہ آپ کو خود بھی یقین نہ آتا۔ ایک بہت ہی محترم ساتھی نے کہاکہ یہ میجر ڈاکٹر نے اپنے ڈاکٹر بیٹے کے ساتھ مل کر گینگ سا بنا رکھاہے۔ یہ جس مریض کو بھی دیکھتاہے، فوری طور پر ایمرجنسی ڈکلیئر کر دیتاہے۔ مریض اور اُس کے لواحقین میڈیکل کی دُنیا سے نابلد ہونے کی وجہ سے اکثر اس سینئر ڈاکٹر کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر اپنے ڈاکٹر بیٹے کو فوری فون کرتا ہے کہ جہاں بھی ہو،جیسے بھی ہو، کلینک پہنچو، ایمرجنسی کیس ہے۔ فوری آپریشن کرنا ہے۔ اس طرح وہ مریض اور اس کے لواحقین کو یہ یقین دلاتا ہے کہ فوری آپریشن کتنا ضروری تھا۔ لواحقین اور مریض ساری جمع پونجی بھی دیتے ہیں اور ڈاکٹر کے ممنون بھی ہوتے ہیں کہ اس نے بروقت اقدام کرکے بندے کو بچا لیا۔
یہ تو ایک ڈاکٹر کے قصے اور کرتوت ہیں۔جس سے ہمیں براہ راست واسطہ پڑ گیا۔ جب مزید کھوج لگائی تو معلوم ہوا کہ میانوالی میں تو اکثر ڈاکٹرز اور لیڈی ڈاکٹرز نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھاہے۔دونوں ہاتھوں کے ساتھ ساتھ دونوں پاؤں اور بانہوں سے دولت سمیٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔ بلکہ اکثر ڈاکٹرز او لیڈی ڈاکٹرز جیون ساتھی کے بندھن میں ہونے کی وجہ سے مل کر غریبوں ، سفید پوشوں، نودولتیوں کی جمع پونجی پر جھاڑو پھیر رہے ہیں۔مشورہ کی فیس کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ ہسپتال کے کمروں کے چارجزاور اپنے قائم کیے گئے میڈیکل سٹورز پر سستی ادویہ بڑے بڑے برانڈ کے لیبل کے ساتھ انتہائی مہنگے داموں فروخت سے لوٹ مار کے نئے نئے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔ آپریشن کے لیے ایک مریض سے اتنا سامان منگواتے ہیں جو تین تین مریضوں کے لیے کافی ہوتاہے۔بڑی بڑی نامور لیڈی ڈاکٹرز عام ڈلیوری کو آپریشن کے ذریعے کرتی نظر آتی ہیں اور وہ بھی گورنمنٹ کے سکینہ ہسپتال کے بجائے اپنے پرائیویٹ کلینکس پہ۔ ڈلیوری کے لیے آئی ہوئی مریضہ کو اس حد تک مجبور کر دیا جاتاہے کہ وہ خود بخود پرائیویٹ کلینک پر جانے کو تیار ہو جاتی ہے۔
میرے ایک دوست نے تو بہت پتے کی بات کی۔ آپ بھی پورے غور سے پڑھیں اور پھر دیکھیں کہ میانوالی میں کیا ہورہاہے۔ اُس نے اندر کی بات بتاتے ہوئے کہاکہ کافی عرصہ سے میانوالی کے بنکوں میں روزانہ کی بنیاد پر سب سے زیادہ دولت ڈاکٹرز کی طرف سے جمع کرائی جاتی ہے۔ بہت حیران کن انکشاف تھا۔ مگر جب غور کیا تو بالکل حقیقت ہی لگا۔ آپ جس ڈاکٹر کو بھی دیکھیں چاہے وہ دانتوں کا ہے یا ناک کان گلے گا۔ دِل کا ہے یا جنرل فزیشن۔ نام نہاد سرجن ہے یا آرتھوپیڈک سرجن۔موچھوں والا ہے یا کلین شیو۔ داڑھی والا مبلغ ہے یا تسبیح والا باریش۔ سب نے اپنے اپنے جال لگا رکھے ہیں۔ ڈاکٹرز کے گھر دیکھیں تو بڑے بڑے ٹھیکیدار رشک کرتے نظر آئیں۔ سینکڑوں کنال خریدی گئی زرعی و کاروباری جائیدادیں دیکھیں تو جاگیردار وں کو اپنی سفید پوشی کا بھرم ٹوٹتا نظر آنے لگ جائے۔
ڈاکٹرز کی اولاد کے تعلیمی اخراجات دیکھیں تو ہوش اُڑ جائیں۔ ان کی بڑے بڑے شہروں میں کوٹھیاں اور پلازے ورطہ ء حیرت میں نہ ڈال دیں تو مجھے موردِ الزام ٹھہرا دینا۔
ہمارا معاشرہ مسلمان معاشرہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ہم الحمداللہ مسلمان ہیں اور اکثر ڈاکٹر ز بھی مسلمان ہیں۔ اسلام اللہ کا سچا دین ہے۔ قرآن مقدس کا ہر ہر حرف اور جملہ حق کا گواہ ہے۔ اللہ اپنے قرآن اور رسول ﷺ کے فرمان کے ذریعے ہمیں بتاتا ہے کہ مریض کے ساتھ ہمیشہ نرمی کرو۔ اللہ نے اپنی عبادت تک کے معاملے میں مریض کے ساتھ نرمی کردی ہے۔ کھڑے ہوکر نماز نہ پڑھ سکنے والے کو بیٹھ کر پڑھنے کی سہولت دی ہے۔ بیٹھ کر نہ پڑھ سکنے والے کو لیٹ کر پڑھنے کی سہولت دی ہے۔ جو ذہنی مریض ہو اُس کو ہر عبادت اور ہر عمل سے استثنیٰ عطا کردیاہے۔مریض کو روزے معاف کردیئے ہیں۔ مریض کو جہاد کے فریضہ سے سبکدوش قرار دے دیاہے۔مریض کی عیادت کو اپنی عیادت قرار دیاہے۔ اور دوسری طرف یہ ہمارے مسلمان ڈاکٹرز کو دیکھیں۔ کسی مریض کی موت کی تصدیق پر بھی لواحقین کی جیب پر ڈاکا ڈالنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ جس مریض کا علاج اِن کے بس میں نہ ہواُسے بھی کئی کئی دن اپنے پرائیویٹ ڈاکا سنٹر پر داخل کردیتے ہیں اور پھر کچھ دن لوٹ مار کرکے راولپنڈی یا لاہور کی راہ دکھا دیتے ہیں۔ اکثر ڈاکٹرز کو جو رپورٹس لکھ کر دیتے ہیں ، راولپنڈی اور لاہور کے ڈاکٹرز دیکھ کے حیران ہوجاتے ہیں اور بُڑ بُڑانے لگتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ہماری ایک عزیزہ کا آپریشن میانوالی کے ایک اور باریش مبلغِ اسلام ڈاکٹر نے کیا۔ حالانکہ آپریشن والی حالت میں مریض تھا ہی نہیں۔ بعدازاں راولپنڈی اور لاہور کے دھکے کھانے پڑے۔ مگر میانوالی والے ڈاکٹر نے آپریشن اتنا بگاڑ دیا کہ ہماری عزیزہ جانبر نہ ہوسکیں مگر اُس ڈاکٹر کی دین داری پرکوئی حرف آیانہ فرق ۔اور نہ اُس کے رویے میں ۔ وہ اب بھی ڈنکے کی چوٹ پر لوٹ مار میں مصروف ہے۔ چند سال پہلے نشے دینے والے ڈی ایچ کیو کے ڈاکٹر ( جو اتفاق سے باریش بھی تھا )نے میری ممانی کو آپریشن سے پہلے نشہ دیا جو آج بھی بستر مرگ پر پڑی ہیں۔ ایک عشرہ کے بعد بھی اپنے ہوش میں نہیں آسکیں۔
ہم شاید باریش ڈاکٹرز پر اعتماد زیادہ کرتے ہیں اس لیے اُنہی کے پاس مریض لے کے جاتے ہیں یا پھر اکثر ڈاکٹرز نے خوفِ خدا سے داڑھیاں رکھ لی ہیں مگر ان کے کارناموں سے تو نہیں لگتاکہ خوفِ خدا ان کے قریب سے بھی گزرا ہے۔ یا پھر ان کی نظر میں خوفِ خدا صرف حقوق اللہ کا نام ہے ، حقوق العباد کسی اور خطے کی جنس ہیں۔ باریش ڈاکٹر ز تو اتفاقیہ راقم سے متعلقہ ہوگئے ورنہ یہاں عام آدمی کی ناسمجھی سے اور دھوکادہی سے لوٹ مار کرنے میں موچھوں والے اور کلین شیو بھی پیچھے نہیں اور مسلمان کے ساتھ ساتھ غیرمسلم بھی ۔
یہ بڑے بڑے نام نہاد ڈاکٹرز کے بنک بیلنس دیکھیں اور بڑھتی جائیدادیں دیکھیں اور دوسری طرف خدمتِ خلق کے حوالے سے ان کی کارکردگی دیکھیں تو آپ کو شاید ہی کوئی ڈاکٹر ایسا نظر آجائے جس نے ہفتہ وار غریبوں کا مفت چیک اپ کا بورڈ لگا رکھا ہو، شاید ہی کوئی ہو جس نے مفت ٹیسٹ کرانے کی لیبارٹری قائم کررکھی ہو۔غریبوں کے لیے کوئی سویٹ ہوم بنا رکھا ہو۔ کسی سرکاری سکول کا اڈاپٹ کرکے اُس کے ضرورت مند بچوں کی ضروریات پوری کررہاہو۔ کسی نے 1122 جیسی ریسکیو سروس کو دو تین پروجیکٹرز خرید کر دے دیئے ہوں۔ کسی مضافات میں کوئی فری ڈسپنسری کھول دی ہو۔ کسی نے کوئی دو تین ایمبولینس ہسپتال کے باہر غریب مریضوں کے لیے کھڑی کرا رکھی ہوں۔ مجھے تو کوئی ڈاکٹر انفرادی طور پر یا کسی تنظیم کی صورت کچھ ایسا کرتا نوٹس میں نہیں ہے۔کسی کے نوٹس میں ہوتو میری تصحیح فرما دیں۔
اکثر تو اتنے ظالم ہیں کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال کو تپتے صحرا میں نایاب گھنے درخت کی چھاؤں میں زیرِزمیں لگا دام سمجھ رکھاہے کہ جو بھی ٹھنڈی چھاؤں کی خاطر سستانے آیا دام میں پھنس کے رہ گیا۔آپ جائیں تو اکثر ڈاکٹرز بددلی اور عدم توجہی سے مریض کا معائنہ کرتے پائے جاتے ہیں۔ مریض ڈاکٹر کے سامنے ایسے ہاتھ باندھیں کھڑے نظر آتے ہیں جیسے پولیس کے سامنے کوئی ملزم۔
ایک نامور ڈاکٹر نے تو ایک نیا ڈرامہ رچا رکھاہے۔ اُس کے کمرے کا دروازہ ہر وقت کھلا ملتاہے۔ اُس کا اسسٹنٹ مبینہ طور پر اُس کے گھر پر کام کاج پہ ہوتاہے۔ وہ خود ہی مریضوں کو بلاتاہے کہ آؤ جی سارے مریض اندر آجائیں۔ مریضوں کے سامنے مریض سے اُس کا مرض پوچھتاہے۔ تنہائی کا ماحول نہ ہونے کی وجہ سے کئی مریض اپنا مسئلہ تک بتانے سے پرہیز کرتے ہیں اور پھر چارو ناچار موصوف کے پرائیویٹ کلینک پر جا کر تنہائی میں اپنا مسئلہ بتاتے ، پیسے لُٹاتے واپس لوٹتے ہیں۔ اکثر ڈاکٹرز کے پاس مریضوں کا ایسا ہی رش نظر آتاہے۔ یہ مریض کو چیک کرنے کا کیسا طریقہ ہے؟ ڈاکٹرز کے پاس دورانِ او پی ڈی میڈیکل ریپس کے قافلوں کی آمد و رفت مریضوں کے لیے ایک اور اذیت ناک عمل ہے۔
ٹیکس کا محکمہ ضلعی شہر میں موجود ہے۔ مجھے نہیں معلوم اب ہمارے یہ ڈاکو نما اور ڈریکولا نما ڈاکٹرز کتنا ٹیکس دیتے ہیں۔ محکمہ ٹیکس جس کی دسترس سے موٹرسائیکل مالک سے لے کر درجہ چہارم کے سرکاری ملازم تک بچ نہیں سکتے۔ چھوٹے سے چھوٹا دکاندار تک کسی نہ کسی صورت میں ٹیکس دیتا نظر آتاہے۔ ان ڈاکٹرز جن کی دولت دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی جارہی ہے اور غریب اور سفید پوش کے لیے آج سب سے بڑا مسئلہ ہی علاج بن کے رہ گیاہے، کے گوشوارے چیک کریں کہ ان میں کتنا سچ اور کتنا جھوٹ چھپا ہے۔پرائیویٹ کلینک پر بڑے بڑے آپریشن کیے جارہے ہیں۔ رقم وصولی کی کوئی باقاعدہ رسید تک جاری نہیں کی جاتی۔ روم چارجز ، آپریشن تھیٹر چارجز تک کی باقاعدہ رسید نہیں دی جاتی۔ بس استقبالیہ پہ بیٹھے یا بیٹھی ہستی صاف کاغذ پہ بل بنا دیتی ہے اور رقم اینٹھ لی جاتی ہے۔ آج کے جدید دور میں ہر پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر کو ایک اکاؤنٹنٹ رکھنے کا پابند کیا جائے اور تما م ریکارڈ کمپیوٹر پر رکھنے کا پابند کیا جائے اور کمپیوٹرائزڈ رسید اور مریض کا رابطہ نمبر تک درج کرنا لازمی قرار دیا جائے۔
اکثر پرائیویٹ ہسپتال ایسا لگتاہے بغیر کسی نقشہ اور منظوری کے بنائے اور کھولے جارہے ہیں۔ دوسری منزل پر مریض کو لے جانے کے لیے تنگ سیڑھیوں پر مریض اور لواحقین کو ذلیل و خوار ہونا پڑتاہے۔ کمرے تنگ و تاریک اور گھٹن زدہ کے ساتھ ساتھ آسیب زدہ لگتے ہیں۔ نہ کوئی ڈیزائن نہ کوئی ترتیب۔ ایک جگہ تو معلوم ہوا کہ مالک نے مواشی فارم بنایا نہ چل پایا تو ڈاکٹر اور لیڈی ڈاکٹر میاں بیوی کوکرائے پر دے دیا اور اب کیٹل فارم میں کلینک چل رہاہے۔
اب تو مانشااللہ اکثر نامور ڈاکٹرز نے اپنے اپنے بڑے بڑے پلازہ نما کلینکس بنانے کا سلسلہ شروع کردیاہے۔ چند سال پہلے میڈیکل کی دُنیا میں وارد ہونے والے ڈاکٹرز لوٹ مار سے اس قابل ہوگئے ہیں کہ کروڑوں روپے لاگت والے ہسپتال تعمیر کررہے ہیں۔ ان کے اکاؤنٹس اور ذرائع آمدن چیک کیے جائیں ، کہیں ان میں سے بھی کئی دوسرے ممالک کی خفیہ امداد لے کر تو یہ دھندا نہیں کررہے ہیں۔ اور اگر اپنی ذاتی آمدن سے کروڑوں کی جائیدادیں اور پلازے کھڑے کررہے ہیں تو پاک وطن کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت کو سالانہ ٹیکس کتنا دے رہے ہیں۔
اپنے ذاتی کلینکس کے ساتھ ساتھ اپنے اوسط سے بھی کم ذہنی استطاعت کے بیٹوں، بیٹیوں کو سیلف فنانس پر ڈاکٹرز بنوا رہے ہیں۔ کچھ کے بچے اب باقاعدہ اپنے ڈاکٹر باپوں کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ اور کچھ کہ بس ہاؤس جاب کرکے اپنے والد کے ہسپتالوں کو سنبھالنے والے ہیں۔ اب دیکھیں اوسط ذہنی استطاعت والے یہ جوان ڈاکٹر ثابت ہوتے ہیں ، ڈاکو یا ڈریکولا۔
پرائیویٹ کلینکس میں ذاتی لیبارٹریز پہ غیر معیاری مگر مہنگے داموں ٹیسٹ اور غیر ضروری ٹیسٹ کروانا ضروری سمجھتے ہیں۔ اپنے میڈیکل سٹور پر ایسی ایسی ادویہ رکھے بیٹھے ہیں جس کی لاگت تو دس روپے ہے مگر مریض کو وہ سو روپے سے ڈیڑھ سو روپے میں فروخت کی جاتی ہے۔ ایک ڈاکٹر کے بارے تو معلوم ہوا کہ اُس نے ایک میڈیکل سٹور والے کو ایک دروازہ اپنے کلینک کی طرف کھولنے کی اجازت دے رکھی ہے مگر وہ اِس احسان کا معاوضہ ماہانا لاکھوں روپے میں لیتاہے اور پھر اُس میڈیکل سٹور والے بھی ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق وہ میڈیسن پیش کرتے ہیں جس کی لاگت اگر چالیس روپے ہے تو اُس پر چار سو روپے لکھا ہوتاہے۔ لیکن اس میڈیکل سٹور والوں کی ایک خوبی بہت خوب ہے کہ جیسے ہی اذان ہوتی ہے سٹور چھوڑ کر نماز کے لیے مسجد کی راہ نکل پڑتاہیں۔ لیکن ان کو سوچنا چاہیے کہ دین صرف ایمانیات و عبادات کانہیں معاملات کا بھی دین ہے۔ جس کے معاملات درست نہیں وہ یہاں بھی اور آخرت میں تو یقیناًاللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکیں گے۔
کئی ڈاکٹرز میانوالی سے لوٹ مار کرکے اپنے اپنے علاقوں کی راہ لے چکے ہیں اور وہاں انہوں نے بڑے بڑے کلینکس کھول لیے ہیں۔
آخر پہ ایک اور دوست کی تجویز پر گزارش ہے کہ جس طرح مختلف سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی ادارے اپنی کارکردگی، ڈیری فارمنگ ، محکمہ زراعت بیجوں پر تحقیق کے حوالے سے ڈیٹا شائع کرتے ہیں۔ سالانہ سیمینارز میں اپنی کارکردگی بیان کرتے اور اپ ڈیٹس سے آگاہ کرتے ہیں۔ ہمارے ضلع کے سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتال بھی سالانہ کوئی ایسا ڈیٹا جاری کیاکریں ، جس سے عام آدمی کو پتا چلے کہ سالانہ کس ڈاکٹر نے کتنے قریب المرگ مریضوں کی جان بچائی، کتنے زندہ سلامت مریضوں کوقبر کی راہ دکھائی۔ کون سے ڈاکٹر نے کسی طریقہ علاج میں بہتری لائی۔ کس ڈاکٹر نے سستا علاج متعارف کرایا۔وغیرہ وغیرہ
حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے ڈاکو نما اور ڈریکولا کی طرح خونخوار نام نہاد ڈاکٹرز سے اور نہیں تو کم ازکم غریب اور سفید پوش افراد کی ہی جان چھڑوا دیں۔ سرکاری ہسپتالوں کا انتظام بہتر کردیں۔سرکاری ڈاکٹرز کی پے سلپس چیک کی جائیں کہ کون کون سے الاؤنسس ناجائز لے رہے ہیں۔ رجسٹر حاضری پہ حاضر اور ڈیوٹی ٹائم میں بار بار پرائیویٹ کلینکس کے چکر تو نہیں لگائے جارہے۔ ڈی ایچ کیو اور ٹی ایچ کیوز پر مفت علاج کی سہولیات وافر مقدار میں بہم پہنچائی جائیں۔ ہسپتال کی کمیٹی میں مقامی ذمہ دار قسم کے عوامی نمائندوں، سماجی شخصیات اوروکلاء کو شامل کرکے ہسپتال کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپیں تاکہ ہسپتالوں میں غریبوں کا علاج بہتر اور مفت ہو۔ ڈاکٹر تسلی سے چیک کریں اور علاج کریں۔ وزیرِصحت پنجاب ایک دردِ دِل رکھنے والے خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ خواجہ سلمان رفیق کو چاہیے کہ وہ میانوالی ڈی ایچ کیو اور میانوالی شہر میں پھیلے ہوئے اکثر پرائیویٹ کلینکس پرمریضوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی چھان بین کرائیں اور اصلاحات کے لیے موثر اقدامات اُٹھائیں۔
میانوالی میں موجود چند بہت مخلص ڈاکٹرز سے معذرت ۔ یہ تحریر صرف اور صرف لالچ میں اندھا پن کا شکار ڈاکٹرز کے متعلق ہے۔ اچھے ڈاکٹرز تو عوام کے لیے بے شک مسیحا سے کم نہیں۔ یہ بغیرکسی لالچ کے ڈی ایچ کیو میں بھی مریضوں کو تسلی سے دیکھتے ہیں اور بہتر مشورہ دیتے ہیں۔ اور پرائیویٹ چیک اپ پر بھی لوٹ مار نہیں کرتے۔
میری تحریر کی تصدیق یا تردید کے لیے کوئی بھی غیر جانبدار شخص میانوالی کے پرائیویٹ اور سرکاری ہسپتال سے نکلتے ہوئے مریضوں اور ان کے لواحقین سے حالات پوچھ لیں۔ سب کی آنکھیں اور دماغ کھل جائیں گے۔انشااللہ

Short URL: http://tinyurl.com/zqfy34z
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *