نسلِ نو کی آبیاری۔۔۔۔ تحریر: ذوالفقار خان

Zulfiqar Khan
Print Friendly, PDF & Email

جس طرح پھول باغ کی اصل زینت ہوتے ہیں ایسے ہی بچے ہر آنگن کی ۔ پھول کھِلے بھَلے لگتے ہیں اور بچے مسکراتے اچھے لگتے ہیں۔پھول خوشبو بکھیرتے اور بچے اٹکھیلیاں کرتے دِل موہ لیتے ہیں۔ پھول اظہارِمحبت کا ذریعہ ہیں تو بچے محبت کا مجسم نمونہ۔جب بچے ہمارا سب کچھ ہیں۔ ہمارا حُسن ہیں، ہمارا چین ہیں، ہمارا سُکھ اِن سے وابسطہ ہے، ہماری محبت ان کی مرہونِ منت ہے۔ ہمارا اَمن، ہماری کامیاب ازدواجی زندگی جب ان کے دِم سے ہے تو پھر ہمیں بچوں کے متعلق بہت حساس ہونا چاہیے۔
کیا ہم بچوں کے بارے حساس واقع ہوئے ہیں؟ اگر جواب بالکل نفی میں نہیں دیاجاسکتاتو کم ازکم کافی حد تک نفی میں ہی جواب بنتاہے۔ کھاتے پیتے گھرانوں میں بچوں کو کھانے پینے کی فراوانی ملتی ہے۔ پہننے کو اچھے کپڑے ملتے ہیں۔ اُن کے علاج معالجے کی طرف بھرپور توجہ مرکوز رہتی ہے اور تعلیمی سہولیات بھی من بھاتی حاصل رہتی ہیں۔متوسط گھرانوں میں بھی بچوں کو کھانے پینے، پہننے ، علاج معالجہ اور تعلیم کی سہولیات میسر رہتی ہیں۔جبکہ غریب اور نچلے گھرانے میں بچوں کی تعداد بھی زیادہ ہوتی ہے اور مذکورہ سہولیات بس نام کی میسر ہوپاتی ہیں۔
اکثر والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ بچوں کو اُن کی عمر کے مطابق دلچسپیوں تک ہی محدود رکھا جائے۔ ہم اپنے بچوں کو کوشش کرتے ہیں کہ وہ ٹی وی پر ایسے پروگرام نہ دیکھیں جو اُن کی ذہنی صلاحیت اور عمر سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ اُن کو کارٹونز، اخلاقی کہانیوں اور کھیل کود کے پروگرامز تک محدود رکھنے کی سعی کی جاتی ہے۔ کئی ٹی وی پروگرامز کے آغاز میں خبردار بھی کردیاجاتاہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچے یہ پروگرام نہ دیکھیں۔ اسی طرح سینما ہال کے باہر بھی لکھا مل جاتاہے کہ بچوں کا داخلہ بند ہے وغیرہ۔ حتیٰ کہ مغربی ممالک میں بھی ٹی وی پر کوئی پروگرام نشر کرنے سے پہلے اس بات کا اہتمام کیاجاتاہے کہ بچوں کی نفسیات پر منفی اثر نہ پڑے۔ مغربی معاشرہ میں عام آدمی کے لیے قابلِ قبول کئی پروگرامز کو اُس وقت نشر کیاجاتاہے جب بچے سو چکے ہوتے ہیں۔
ہماری تہذیب و تمدن میں بھی جب گھر میں بڑے کسی حساس معاملے پر مشاورت اور مکالمہ کرتے ہیں تو اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسی محفل میں بچے نہ بیٹھیں۔ کیوں کہ ایسی محفل میں کئی باتیں زیرِ بحث آتی ہیں۔ نفرت و شدت کے جذبات بھی موجزن ہوتے ہیں۔ اور ایسے معالات بھی جو بچوں کی ذہنی سطح سے بلند ترہوتے ہیں۔ اکثر والدین رشتہ داروں یا کسی اور سے لڑائی جھگڑا وغیرہ کے معاملات میں بھی کوشش کرتے ہیں کہ بچے ملوث نہ ہوں۔ بچوں کو پتا ہی نہ چلے۔ مقصد یہی ہوتاہے کہ بچے کی زندگی پر منفی اثرات نہ پڑیں۔
جو والدین لاپرواہی کا یاناسمجھی کا مظاہرہ کرتے ہیں ، اُن کے بچے قبلِ از وقت ذہنی طور پربڑے ہوکر منفی سرگرمیوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اور پھر ہمیشہ کے لیے یہ بچے والدین کا دردِ سر بن جاتے ہیں۔ انہی بچوں کے کرتوتوں کی بدولت اچھے بھلے والدین کو بہت جلد اس دُنیا سے ہی رخصت ہونا پڑجاتاہے۔والدین کی لاپرواہی سے بچوں کو بھی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑجاتے ہیں۔ جیسے چھوٹے بچوں کو موٹرسائیکل پکڑا دینا۔ بچوں کو موبائل کی بغیر نگرانی کے سہولت مہیا کردینا۔جیب خرچ بے دریغ دیئے جانا۔بچے کی ہر جائز ناجائز خواہش کے آگے سرتسلیم خم کرتے جانا۔
یہ تو وہ کمی کوتاہیاں ہیں جو ناسمجھی میں والدین کی طرف سے سامنے آتی ہیں مگر بعض ایسی بیماریاں بھی بچوں میں منتقل کی جارہی ہیں جنہیں شاید اپنا وقار اور مذہبی شعار سمجھ لیاگیاہے۔ سب سے زیادہ یہ بیماریاں نئی نسل کے طفیل معاشرے میں پھیل رہی ہیں۔ آج ہر بندہ ذات پات، لسانی و مذہبی تعصبات کا رونا رو رہاہے۔ یہ تعصبات پیدا کیسے ہورہے ہیں۔ان پہلوؤں پہ غور کی ضرورت ہے۔
ذرا غور کریں کہ ہمارا بچہ وہی کچھ اظہار کرتاہے جیسا ہم اُس کے سامنے عملی طور پر کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم جس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اُسے جب فخر کی علامت بناکر پیش کرتے ہیں، وقتاََ فوقتاََ بچوں کی موجودگی میں اپنے قبیلے پر فخر کرتے اور دوسرے قبیلوں کی ہجو کرتے پائے جاتے ہیں تو آہستہ آہستہ بچے کے اندر بھی یہ باتیں داخل ہوتی رہتی ہیں۔ پھر وہ بھی اپنے ہم جماعت ساتھیوں یا گلی محلے کے دوسرے قبیلے کے بچوں سے اَن بَن کے موقع پر اپنے قبیلے کاسہارا لیتے ہوئے مدمقابل کو لتاڑتا ہے۔
یقین کریں اگر ہم گھر میں اس تعصب کو داخل نہ ہونے دیں، سب قبیلوں کو برابر کی نظر سے دیکھیں۔ ذات پات کو بڑائی اور کمتری کی علامت بنا کرپیش نہ کریں تو ہمارے بچے بھی اس بیماری سے چھٹکارا پالیں گے۔
اس کے ساتھ ایک اور بڑا تعصب جو انسانی جان کا دُشمن بن چکاہے ، وہ ہے مذہبی تعصب۔ فرقہ بندی کاتعصب۔ ایک تو ہم اپنے گھروں میں جب فرقہ بندی کا بیج صبح شام بوتے رہیں گے تو ظاہر ہے ہماری اولاد بھی اس سے آلودہ ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ ضروری بات یہ کہ ہم اپنے بچوں کو ایسے مسائل میں اُلجھاتے جارہے ہیں جو اِ ن کی عمر کے ساتھ بالکل مطابقت نہیں رکھتے۔ اگر ہم گھر میں نفرت کی بات نہیں کرتے، فرقہ واریت کی بات نہیں کرتے توکیا ہوا، ایسی مسجد میں تو جاتے ہیں جہاں مولوی صاحب اپنے فرقے کو سچا مسلمان اور دوسروں کو گستاخ اور کافر کے طور پر ثابت کرتا پھرتاہے۔ ایسی امام بارہ گاہ میں اپنے ننھے منے بچوں کو ساتھ لے کر اور مائیں گود میں لے کے جاتی ہیں جہاں ذاکر اور مولوی صاحب خود کو حق پر اور باقی سب کو منافق، باطل اور استعمار کا چیلہ ثابت کرنے پر ساری توانائیاں صرف کرتا نظر آتاہے۔
اس کے ساتھ ساتھ چھوٹے بچوں کو کلمہ ،نماز، روزہ، سچائی، دیانتداری، بزرگوں کا احترام،پڑوسیوں سے اچھا سلوک،قوانین کی پاسداری، صفائی کی اہمیت، قطار بنانے کی ترغیب اور محنت جیسی صفات سے مزین کرنے کے بجائے ان معصوم بچوں کو بھی اپنے اپنے فرقے کا نمونہ بنا کے رکھ دیاہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے اب رنگ برنگی پگڑیوں اور مخصوص لباس میں نظر آتے ہیں۔اتنی چھوٹی عمر میں بچے کو اپنی پسند کے مدرسے میں بھیج دیاجاتاہے۔ کچی عمر کا بچے کو باقاعدہ کسی فرقہ کے مدرسے میں تعلیم کے لیے بھیجنا ، دولے شاہ کے مزار پر چھوڑنے کے مترادف ہے۔ بچے کے دماغ پر ایک مخصوص فرقے کا خول چڑھ جاتاہے جو زندگی بھر اُس کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔
کیا ایسا نہیں ہوسکتاکہ ہم جو شعور کی عمر میں ہیں، خود تو جہاں چاہیں، جس مولوی کو پسند کریں سُنیں۔ جس ذاکر کو دِل مانیں اُس کی آواز پر آنسو بہائیں مگر اپنے ننھے منے بچوں کو بس مذکورہ بنیادی عقائد و عبادات تک محدود رکھیں۔ اُن کو ان مجالس و واعظ و واعظین سے دُور رکھیں۔تاکہ ہماری نئی نسل تو ان تعصبات سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوجائے۔ اپنے بچوں کو دین کے اختلافی و پیچیدہ مسائل میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔ جب بڑے ہوجائیں۔ شعور کی عمر کو پہنچ جائیں تو پھر اُن کے سامنے سب مساجد اور دیگر مقامات موجود ہوں گے، جہاں چاہیں وہ جائیں ، کھلے دِل و دماغ سے غور کریں اور جو پسند آئے وہ بلاتعصب سنبھالیں اور فرسودہ خیالات کو دُور پھینکتے جائیں۔
قبیلے پہ فخر کے مظاہر بھی قابلِ تحسین قرار نہیں دیئے جاسکتے۔ سرکاری عہدوں پر براجمان افسران کے ناموں کی تختیاں اس کی گواہ ہیں۔ کوئی کلیم اللہ نیازی لکھتاپھرتاہے تو کوئی محمدنواز اعوان ۔ کوئی راجپوت تو کوئی گوندل۔ کوئی چوہدری تو کوئی وِرک۔ کوئی بھٹی تو کوئی راجہ۔ یہ سب کیاہے؟ کیا یہ صرف پہچان کے لیے قبیلوں کے القاب لکھے جاتے ہیں ، نہیں جناب ان میں بھی ایک برتری کا خمار نمایاں ہوتاہے۔ نیازی، اعوان، گوندل، ورک، بھٹی ، راجہ وغیرہ وغیرہ کوئی اپنے کمال سے تھوڑا ہی بنا ہوتاہے جو ان کو نام کی تختیوں پر سجایا جائے ۔ سرکاری عہدوں پر موجود افسران کی چھاتی اور دفتر پر لگی تختیوں پر کم ازکم قوم قبیلے کا ذکر نہ ہو تو بہت مناسب ہوگا۔ہمیں اپنے سادہ سے نام کو اپنے کارناموں سے نامور کرنا چاہیے نہ کہ اپنے قوم قبیلے کے نام پر ۔ سکول میں بچے کا نام آج کل اتنے بڑے بڑے قوم قبیلوں کے ساتھ لکھے جارہے ہیں کہ لکھنا ہی مسئلہ بن جاتاہے۔ یہاں سے ہی بچوں کے اندر ذات پات کا تصور پختہ ہونا شروع ہوجاتاہے۔ جس طرح ہمارے معاشرے میں ذات پات کا رجحان پایاجاتاہے ، اِن القابات سے گریز کیاجائے تو بہترہے۔ گھر میں بھی باربار بچوں کو یہ احساس نہ دلایاجائے کہ ہم فلاں قوم یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں تاکہ بچہ کسی احساسِ برتری یا کمتری میں مبتلا نہ ہو۔
گزشتہ روز فیس بک کے بانی مارک زکر برگ اور اُن کی اہلیہ پریسیلا چین نے اپنی بیٹی میکس کی ولادت پر اپنی کمپنی کے ۹۹ فیصد شیئرز جن کی مالیت ۴۵ ارب ڈالر ہے اپنی فلاحی تنظیم کو عطیہ کردینے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے اس موقع پر جو سب سے اہم بات کی وہ یہ تھی کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے دُنیا کو بہتر جگہ بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی فلاحی تنظیم کا مقصد انسانی قابلیت کو بڑھانا اور نئی نسل کے بچوں میں برابری کو پھیلانا ہے۔ اپنی بیٹی میکس کے نام لکھے اپنے خط میں زکربرگ نے کہاکہ آپ کی والدہ اور میرے پاس اس وقت الفاظ نہیں ہیں کہ آپ کو بتائیں کہ آپ کے آنے سے ہمیں مستقبل کے لیے کتنی اُمید ملی ہے۔ آپ نے ہمیں ابھی سے ہی اس دُنیا کی طرف متوجہ کردیا جہاں آپ نے زندگی گزارناہے۔
ایسی سوچ ہمیں اپنے اندر پیداکرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسل کی طرف بھرپور توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کے بچوں میں برابری کو پھیلانا ہے۔
جیسے ہم اپنے بچوں کو ٹی وی اور سینما پر، گھر کی نجی محفلوں میں ان کی اپروچ سے بڑے معاملات سے دُور رکھتے ہیں، ایسے ہی ہم ذات پات، لسانی و مذہبی معاملات جو ابھی ان کی اپروچ سے دُور کے ہیں ان سے بھی دُور رکھیں تو انشااللہ یہی نسل نو ہم بڑوں کے درمیان میں نفرت کی دیواریں گرانے کا سبب بن جائے گی۔
بچے کو فطرت کے مطابق بڑھنے کا موقع دیں۔ وہ شعور کی عمر میں آزادی سے اپنے خیالات اور اعمال میں بہتری کی طرف گامزن ہو جائے گا۔ قبل ازوقت اس کے دماغ پر بوجھ ڈالنا بچے کی فطرت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ہم نے اپنی نئی نسل کو ذات پات، لسانی و مذہبی تعصبات سے بچا لیا تو ہمارا معاشرہ امن کا گہوارہ ورنہ خسارا ہی خسارا ۔

Short URL: http://tinyurl.com/jfjaxrr
QR Code:


2 Responses to نسلِ نو کی آبیاری۔۔۔۔ تحریر: ذوالفقار خان

  1. Mehrkhan says:

    Nice guidelines for us and our comunity.

  2. Altaf hussain kallu Mari Idus says:

    bahot khoob likha hay,laikin jin logoon nay apni aqal ko talay laga rakhain hoon aur chabi bhi gum ker di ho,un k ley sirf dua hi ki ja saktai hay,lain aap apni koshish jari rakhain,ho sakata hay kisi per asar ker jay,ALLAH ka shukar hay k us nay hammain tofique di hay k firqa prasti say najat hasil ker li hay aur sirf musalman kehlany per fakhar kertay hain aur apnay nam k sath 1975 say malik likhna chor dia tha,kul khamakha ka takabur aur garoor paida honay ka khadsha tha.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *