عمران خان اور میانوالی کا امتحان۔۔۔۔ تحریر: ذوالفقارخان

Zulfiqar Khan
Print Friendly, PDF & Email

اس شخص نے 1963ء میں آنکھ کھولی ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد محکمہ تعلیم کے سکول ونگ میں نسلِ نو کی نظم و ضبط کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ 1991ء میں شادی کے بندھن میں بندھا۔ اپنے بچوں اور معاشرے کے بچوں کی اخلاقی، جسمانی وذہنی تربیت میں جُت گیا۔ ہمیشہ سے نوجوان نسل سے اُمیدیں وابسطہ کیے رکھیں۔ ہر وقت معاشرے میں تبدیلی کا خواہش مند رہا۔ 2005-06 ء تک جماعت اسلامی کا رُکن رہا۔بہترانداز میں عوامی خدمت کے جذبے کومدِنظر رکھتے ہوئے 2002ء میں سولہ سالہ سرکاری نوکری ترک کرکے عملی سیاست میں قدم رکھ دیا۔ جب اُس وقت کے دو بڑے سیاسی گروپس روکھڑی اور شادی خیل میں سے انتخاب مجبوری تھا تو شادی خیل کا ساتھ دیا۔ سیاسی مخالفین نے ان کے چھوٹے بھائی کو سمگلنگ کے کیس میں پھنسوا دیا مگر کرائم برانچ نے بے گناہ قرار دے کر مخالفین کے عزائم خاک میں ملا دیئے۔ وکیل تحریک میں ان کے قانون دان بھائی نے بھی قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ گل حمیدخان روکھڑی کے مقابلہ میں اکرام اللہ خان پائی خیل کا ساتھ دیا۔ 1985ء میں نوابزادہ ملک مظفر خان کے مقابلہ میں مقبول احمد خان کی حمایت کی۔ ہمیشہ مولانا عبدالستار خان نیازی ہمیشہ کے ساتھ رہا۔ ان کے بھائی نے اپنی نائب ناظمی کے دور میں ضلع ناظم کا عبیداللہ شادی خیل اورتحصیل ناظم کاامجدعلی خان کوووٹ دیا۔
معاشرے میں بڑھتے جرائم اور اداروں میں ہوتی کرپشن کی وجہ سے ہمیشہ اضطراب میں رہا۔ دِل کڑھتا رہا۔ تحریک انصاف کا نعرہ اور عمران خان کی صاف گویانہ اور دیانتدارانہ شخصیت سے متاثر ہوا۔ آخر 2010ء میں باقاعدہ طور پر تحریک انصاف کا ہمسفر ہوگیا۔ اسلام آباد گیا۔ عمران خان کو یکم مارچ 2010ء کو جہاز چوک میانوالی جلسہ دیا۔ 2013ء کے انٹرا پارٹی الیکشن میں کسان ونگ کا تحصیل صدر منتخب ہوا۔اپنی یونین کونسل میں بھی پی ٹی آئی کا عہدیدار رہا۔ پی ٹی آئی نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں 2013ء اور بعدازاں 2015ء میں بھی اپنی یونین کونسل سے چیئرمین کا ٹکٹ دیا۔2014ء میں اپنی پارٹی کا ضلعی ترجمان مقرر ہوا۔
خدمات کے حوالے سے بات کی جائے تو2009ء میں لفٹ سکیم موچھ کو پرائیویٹ سے سرکاری کرایا۔ 2012ء میں لفٹ سکیم پائی خیل کو عوام کی مدد سے چالو کرایا۔ 2013ء میں لفٹ سکیم میجر جنرل (ر) رفیع اللہ خان کو پرائیویٹ سے سرکاری کرایا۔ 2014ء میں لفٹ سکیم تری خیل کی بجلی کی متبادل لائن سمندوالا کے لیے ایک کروڑ دس لاکھ روپے منظور کرائے اور نئی لائن بچھوا کر اُسے چالو کرایا۔
1998ء سے منظور شدہ لفٹ سکیم قریشیاں کو سال ہا سال کی جدوجہد کے بعد 2015ء میں چالو کرایا۔ داؤدخیل لفٹ سکیمز کی بار بار مرمت کے لیے محکمہ انہار کے آفیسرزکے دفاتر میں اب بھی موجود ہوتاہے۔ لفٹ سکیم تری خیل پہ سمندوالا، ماچھی والا اور تری خیل کی بحالی کرائی۔ کھالہ جات کی پچاس لاکھ روپے سے صفائی مکمل کرائی۔ اب بھی ان کھالہ جات کی مسلسل نگرانی کرتا رہتاہے۔ کَس عمرخان نہر کی بہتری کے لیے مقامی تنظیم کو مشاورت مہیاکرتاہے۔ نہربخارا کی بیس سال بعد مثالی صفائی کرائی۔ وانڈھا ہمایوں خیل کے پاس ڈیرہ عزیزاللہ کے قریب نہر پل اس کی کوشش کا ثمر ہے۔ 48 برجیاں نہر کو صاف کرادیا جس سے اس کا حجم بڑھ گیاہے۔
2007ء میں پندرہ لاکھ کی گرانٹ سے موچھ سے خان محمد والا، سلطان والا، محمدشریف والی، رستم والا، ہندال والا، دھپ سڑی، محلہ عطااللہ خان کے درمیان پُل کی تعمیر اس فولادی اعصاب کے مالک انسان کی مرہونِ منت ہے۔ ڈیرہ مددخیل اور ڈیرہ رن بازخیل کو پُل بنوا کردیئے۔ وٹوانوالہ کا پھاٹک پہلے منظور کرایا اور پھر بندش پر کھلوایا۔
نمل جھیل کا کیس لڑ ا اور اب یہاں سے ہزاروں کنال اراضی جھیل کے پانی سے سیراب ہورہی ہے۔ 2008ء کے کھاد کے بحران میں یہ مردِمجاہد اُس وقت تک میدان میں ڈٹا رہاجب تک اپنے علاقہ کے کسانوں کو سرکاری نرخ پر پانچ ہزا ر گٹو نہ دلوا دیئے۔ کئی کلومیٹر لمبی موچھ ڈرین بنوائی۔ اب تو موچھ کی ہر گلی اور ہر محلے کو صاف ستھرا کرتا کراتا نظرآتاہے۔
ایل ٹی پرپوزل کے ذریعے موچھ کے کئی محلوں میں بجلی پول لگوائے، ٹرانسفارمر لگوائے۔ ہر سال پوزیشن ہولڈر طلبہ کو انعامات سے نوازنا اعزاز سمجھتاہے۔ ساری رابطہ سڑکیں مرمت کرائیں۔
2012-13ء میں ملک امیر چھرال کو قتل کیاگیا تو اس مرد مجاہد نے موچھ پُل کے پاس ہائی وے بلاک کراکر احتجاج کیا جس پر پولیس نے قتل کا مقدمہ پر درج کیا۔
ایک بہت ہی بڑا کارنامہ اور انتہائی عظیم کام یہ جاری کررکھاہے کہ خاندانوں کے درمیان موجود اور نئی پیدا ہونے والی قتل کی درجنوں دُشمنیوں کو ختم کراتاپھرتاہے۔ اب تک درجنوں قتلوں کی صُلح کراچکاہے۔ کئی جگہ اپنی جیب سے بھی حسبِ توفیق صلح میں حصہ ڈالتا ہے۔تیس تیس سال کی پرانی دشمنیاں مٹانے کا فریضہ سرانجام دے چکاہے۔ اغوا برائے تاوان کے خلاف جدوجہد کی۔ 2007-08 میں اس کے خلاف پوری تحریک چلائی۔
2007ء تا 2010ء انجمن تاجران کا صدر رہا۔نامزدگی کا نظام ختم کرکے جمہوری طریقہ کے ذریعے انتخاب کو یقینی بنوایا۔
ہر کھیل کے میدان میں حاضر ہوتاہے۔ بچوں کو کھیلوں کا سامان اور انعامات سے حوصلہ افزائی ان کا شیوا ہے۔ سرکاری کھیلوں میں بھی شریک ہوتاہے۔
فرقہ واریت کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی۔ کبھی فروعی اختلافات کو پنپنے نہیں دیا۔ ہردور میں تجاوزات کے خاتمہ کی جدوجہد کی۔ منشیات کے خلاف سینہ سپر رہتاہے۔ منشیات فروشوں کی مخالفت مول لی مگر پولیس کا درکار تعاون حاصل نہ ہونے کا ان کو گلہ رہتاہے۔ جرائم پیشہ افراد کی سفارش کا سوچنا بھی گناہ سمجھتاہے۔ ہمیشہ بغیر رشوت کے مظلوم کو انصاف دلایا۔
کسان کے حقوق کے لیے 2009ء میں جیل کاٹی۔ فلیٹ ریٹس اور ٹربائین کے نئے ٹیرف کے خلاف آواز بلند کی۔ احتجاج کیا۔ 2011ء میں تحریک حقوق میانوالی میں دوسال دہشت گردی کورٹس میں مقدمہ لڑا اور باعزت بری ہوا۔
گرلز ڈگری کالج کے لیے افسرانِ بالا کے دفاتر کے چکر لگالگا کے جوتے گھسا دیئے مگر سرکاری سرد مہری اور افسر شاہی کی روایتی سست روی سے یہ منصوبہ آج تک تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔اس سلسلہ میں ابھی جدوجہد جاری ہے۔
آرایچ سی موچھ جو ویرانی کی کیفیت میں ایک ڈسپنسر چلارہاتھا، اس کی کوششوں سے وہاں اب دو ڈاکٹرز اور دیگر سہولیات بھی ملنے لگی ہیں۔
ان خدمات کی بدولت یوسی موچھ کے غیور اور سمجھدار لوگوں نے حالیہ بلدیاتی الیکشن میں چیئرمین کے لیے اُس کا ساتھ دیا اور شادی خیل، روکھڑی گروپ اور پی ٹی آئی کے باغی گروپ کے متفقہ اُمیدوار کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔خادم موچھ سے خادم میانوالی کااعزاز حاصل کرچکاہے۔
اب بھی اُس کا مشن ہے کہ لوگوں کے غضب شدہ حقوق کی جنگ قانونی طریقے سے جاری رکھے گا۔ کرپشن فری ضلعی گورنمنٹ اور ترقیاتی کام مثالی معیار پر کرائے گا۔
ضلع میانوالی سے پیدا ہونے والی بجلی کی رائیلٹی، لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دلواکے دَم لے گا۔ اُن کا موقف ہے کہ جب میانوالی سے پیدا ہونے والی بجلی کی رائیلٹی وفاق سے لاہور کو مل سکتی ہے تو ضلع میانوالی کو اپنی پیداوار کیوں نہیں مل سکتی۔ ایٹمی بجلی گھروں کی تابکار شعاعوں سے بیمار ہمارے میانوالی کے شہری ہورہے ہیں اور بجلی سے بھی یہی محروم ہیں۔
ان کا مشن ہے کہ معدنیات سے مالامال میانوالی میں ہی کارخانے لگوائے گا۔ ضلع اسمبلی میں قرار داد پاس ہوگی اور صوبائی اسمبلی کے سامنے مطالبہ کے پورا ہونے تک احتجاج ہوگا۔
ضلع میانوالی میں دو بیراج ہیں مگر یہاں سے نکلنے والی نہروں سے نکلنے والے پانی سے ضلع میانوالی کا اکثرعلاقہ محروم ہے۔ اس کا ازالہ ہوگا۔ ضلعی حکومت چلانے کے لیے ہرشعبہ زندگی سے ماہر لوگوں پر مشتمل تھنک ٹینک بنوائے گا جس کی مشاورت سے آگے بڑھے گا۔تھانہ کو کرپشن فری کراکے دکھائے گا۔
ان خیالات کا مالک یہ شخص پسِ منظر کے لحاظ سے بھی خاص اہمیت رکھتاہے۔ سردارعالم خان جیسے معمارقوم کا بیٹا اور ماں بھی معمارِ قوم۔ حمیداللہ ضیا مرحوم جیسے ادیب و شاعر کا یہ نواسہ۔اس کا بچپن بھی منزلِ مراد اور تاریخ نیازی کے پہلے لکھاری نانا جی کے پاس گزرا۔ خان جی عباس خان جو موچھ کو تعلیم سے روشناس کرانے والی ہستی تھے، یہ اس مردِ قلندر کی معمارِ قوم والدہ ماجدہ کے دادا تھے۔ایک بھائی لطیف اللہ خان قانون دان اور سابق نائب ناظم، ایک بھائی صفی اللہ خان پاک فوج کااہم آفیسر(ریٹائرڈ)، چھوٹا بھائی محمدزبیرخان پی ٹی آئی کاسماجی و سیاسی ورکرجو اُچ شریف بہاول پور میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر چیئرمین کا الیکشن لڑا ۔صرف 135ووٹ سے ناکام ہوا۔پورے ڈویژن میں تحریک انصاف کے مشن کو چلارہاہے۔ضمنی الیکشن میں جہانگیرخان ترین کے اہم پولنگ اسٹیشن پر پولنگ ایجنٹ کے فرائض سرانجام دیئے۔ اس کاخاندان ہمیشہ سیاست کے میدان میں چلاآرہاہے۔ اسی پسِ منظر کی وجہ سے یہ مردِ میدان سیاست کی اونچ نیچ سے پوری طرح آگاہ ہے۔ جرات و ہمت کا نشان ہے۔جلوت و خلوت دونوں میں سازشوں سے پاک ہے۔ شائستگی اس کے قدم چومتی ہے۔ اس کی حق گوئی بہت سو کوکھٹکتی تو ہوگی مگر وہ حق گوئی پر سودا بازی کو تیار نہیں ہوتا۔ غلطیوں سے پاک تو نہیں ہوسکتا۔ انسان ہے، بیمار بھی ہوتاہے۔ سوتا بھی ہے مگر جاگتازیادہ ہے۔خوش بھی ہوتاہے اور ناراض بھی ہوتاہے۔وقت کا زبردست پابند ہے مگر کبھی لیٹ بھی ہوجاتاہے۔ لیٹ ہونے پر معذرت کرنا نہیں بھولتا۔ اپنے دائرہ اختیار میں اچھی بات کہنے کا موقع بالکل ضائع نہیں کرتا۔ آج بھی موٹرسائیکل اس کاکل اثاثہ ہے۔
جاؤ میرے پی ٹی آئی کے ذمہ داران، پی ٹی آئی کے مخلص کارکنان جاؤ اور اپنے خان کو بتاؤ کہ میانوالی کو حقیقی لاڑکانہ بنوانا ہے تو ایسے مردِ مجاہد کو ضلع میانوالی کی قیادت سونپو۔ اگر خان کو میری اور آپ کی باتوں پر یقین نہ ہو تو کوئی خفیہ سروے کرالے۔ سب حقیقت عیاں ہوجائے گی۔
اگر پی ٹی آئی عام آدمی کو سامنے لانا چاہتی ہے، سٹیٹس کو کاخاتمہ کرنا چاہتی ہے تو پھر یہ شخص بہترین انتخاب ہوگا۔یہ شخص پنجاب حکومت سے فنڈحاصل کرنے کا مسئلہ بھی حل کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے مقابلے میں میانوالی میں ضلع چیئرمینی دولت مند یا عام فہم بندے کے بس کا روگ نہیں بلکہ اس کے لیے ذاتی نفع نقصان سے بالاتر سوچنے اور طارق بن زیاد کی طرح کشتیاں جلا دینے کی ہمت رکھنے والے شخص کی ضرورت ہے۔ میری ناقص رائے میں اس وقت ضلع میانوالی میں پی ٹی آئی کے پاس اس سے زیادہ معقول اور مناسب شخص دکھائی نہیں دیتا۔ بعض لوگ اس سے عبادت میں آگے ہوں گے، بعض لوگ دولت میں بہت آگے ہوں گے، بعض لوگ جائیداد میں سبقت رکھتے ہوں گے مگر صاف ستھری مگر فہم و فراست اور جرات والی سیاست میں اس کا یہاں کوئی ثانی نہیں۔ اس سب کے باوجود بھی اگر ان پر عمران خان کی نظر نہیں ٹکتی تو ۔ ۔ ۔
کیا عمران خان اب بھی اُن پتوں پر بھروسا کریں گے جنہوں نے کندیاں سے عاصم جوڑا جیسے پی ٹی آئی کے بنیادی رُکن اور تحصیل نائب صدر کو مسلم لیگ ن کے مقابلہ میں ٹکٹ تک نہ دیا مگر پھر بھی وہ جیت گیا۔
کیا اُن کی مشاورت کو اہمیت دیں گے جنہوں نے ہرنولی میں ملک ممتاز اسڑ جیسے پی ٹی آئی کے جیالے کو ٹکٹ سے محروم رکھا مگر وہ جیت گیا۔
کیا اُن کی بصیرت سے فائدہ اُٹھائیں گے جنہوں نے سابق تحصیل ناظم ،کرپشن فری اور عوام دوست شخصیت حاجی خورشیدانور خان کو ٹکٹ نہ دے کر پی ٹی آئی کی ایک سیٹ گنوا دی۔
کیا خان صاحب اُن کی فہم و فراست سے اب بھی سبکدوش نہیں ہوں گے جنہوں نے پی ٹی آئی کے ضلعی جنرل سیکرٹری پی ٹی آئی کے بنیادی رُکن غلام اکبر خان کو نامزد نہ کیا جس سے پی ٹی آئی ایک اور یقینی نشست گنوا بیٹھی۔
کیا اب بھی پی ٹی آئی چیئرمین کی نظریں اُن کی طرف لگی ہوئی ہیں جنہوں نے خورشیداحمدخان خٹک کو ٹکٹ نہ دیا مگر وہ بلے باز کے نشان پر جیت کر اپنی نشست غیرمشروط پارٹی کے حوالے کردی۔
اگر روکھڑی یونین کونسل سے ٹکٹ بلے باز کے نشان پر لڑنے والے عاصم خان کو دیاجاتا تو اُن کی فتح یقینی تھی۔ اور یہ فتح پنجاب بھر میں بطورِ مثال پیش کی جاتی۔کیونکہ وہاں سابق صوبائی وزیر گل حمیدخان روکھڑی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے تھے جو بلے باز سے صرف تقریباََ 130 ووٹس سے جیت سکے جبکہ پی ٹی آئی والا نامزد اُمیدوار کئی سو ووٹ پیچھے رہا۔
عمران خان کو چاہیے کہ وہ تھوڑا ٹھہریں اور سوچیں۔ میانوالی کو اگر واقعی پی ٹی آئی کالاڑکانہ بناناہے تو پھر ضلعی کمیٹی میں پی ٹی آئی کے ایم این اے اورایم پی ایز کے ہمراہ جمال احسن خان، ملک طارق ، ملک فتح خان، محمداقبال خان سوانسی، کرنل حسن خان،ڈاکٹر ثاقب،احسان اللہ خان آف ترگ،غلام شبیرخان اورسابق ڈی جی آئی بی میجر جنرل(ر) رفیع اللہ خان جیسے مخلص اور زیرک افراد کو شامل کریں۔زوہیب حسن خان،لیاقت علی خان ،ضرارخان ،احمد جمال خان ،شہزاد اقبال بھچر، ڈاکٹر غلام شبیرخان اور لازوال قربانیاں دینے والے حاجی شیکاخان جیسے نوجوانوں کو بھی کمیٹی میں نمائندگی دی جائے۔ یہ کمیٹی وہ خود تشکیل دیں، کسی ایک شخص پر نہ چھوڑیں ورنہ وہی حال ہوگا جو بلدیاتی الیکشن میں ہوا۔یقینی جیتی جاسکنے والی کئی نشستوں سے محروم ہونا پڑا۔
بلے باز پر الیکشن لڑنے والے افراد پارٹی کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ یہ لوگ احتجاجاََ اور صدمے کی کیفیت میں بلے باز کے نشان پر الیکشن لڑے ہیں۔ ان لوگوں کی پارٹی کے لیے قربانیاں ہیں اور اہل بھی ہیں۔
اگر عمران خان یہی رونا روتے رہے کہ ضلع میانوالی میں پی ٹی آئی کا چیئرمین ہوگا تو فنڈز نہیں ملیں گے۔ ایسی باتیں کرکے تو اُلٹا پارٹی ورکرز کو مایوس کرنا ہے۔ اس طرح تو بننے والی ضلعی حکومت بھی نہیں بن پائے گی۔ چیئرمین پی ٹی آئی فی الفور میانوالی آئیں۔ کچھ دن ٹک کے بیٹھیں۔ نوجوان سے بزرگ تک سے مشاورت کریں۔ جیتنے ، ہارنے والے اور دیگر ناراض ورکرز کو وقت دیں اور میانوالی سے پنجاب میں اپنی کامیابیوں کاسفر شروع کریں۔
اور ہر سوال کا جواب ، ہرسیاسی پارٹی کے اقدام پر ہر بار خود ردِعمل ظاہرکرنے کے بجائے اسدعمر ،چوہدری محمد سرور، میجرجنرل(ر) رفیع اللہ خان نیازی اور جہانگیرترین جیسے معقول اور ویژنری افراد کی ذمہ داری لگائیں۔ اس سے پارٹی اور چیئرمین دونوں کی ساکھ میں اضافہ ہوگا۔

Short URL: http://tinyurl.com/zssvzce
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *