جُوا کسی کا نہ ہُوا۔۔۔۔ تحریر: ذوالفقار خان، داؤد خیل

Zulfiqar Khan
Print Friendly, PDF & Email

بچپن میں بَنٹے اور اخروٹ کے ساتھ مختلف کھیل کھیلنا پاکستان کے اکثر قصبات کی مشترکہ ثقافت کا حصہ ہیں۔ ابتداء میں بَنٹے یا اخروٹ کے کھیل میں پوائنٹس پر ہار جیت ہوتی ہے۔ پھر ہر پوائنٹ پر ہارنے والا ایک بَنٹا جیتنے والے کو دیتاہے۔ اسی طرح اخروٹ کے کھیل میں دو تین بچے دو تین تین اخروٹ اکٹھے کرتے ہیں اور زمین میں ایک بوئی ( چار پانچ سینٹی میٹر چوڑا اور گہرا سوراخ) کھود کر باری باری ہر لڑکا اُس میں اخروٹ کچھ فاصلے سے پھینکتاہے۔ جو اخروٹ بوئی کے اندر چلے گئے وہ اُس کے ہوئے اور جو باہر چلے گئے ، اُن کا وہ نشانہ لیتاہے۔ جس جس اخروٹ پر نشانہ لگ گیا وہ بھی اُسی کا ہوجاتاہے۔
اس طرح ایک ایک دو دو بَنٹے اور اخروٹ جیتنے کا سلسلہ شروع ہوتااور پھربَنٹا اوراخروٹ کی جگہ دس ، بیس روپے سے ہوتے ہوئے بات سینکڑوں ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے۔
اسی طرح کھیل کے میدانوں میں بھی پہلے پہل ہار جیت کے شوق کے ساتھ نوجوان اُترتے ہیں۔شروع شروع میں مقابلہ میں ہارنے والی ٹیم سے چائے ، سوفٹ ڈرنکس یا پھر مٹھائی کھائی جاتی ہے۔ پھر ہر کھلاڑی سے بہتر کھیل پیش کرانے کے لیے ایک اورحربہ استعمال کیاجاتاہے ۔ کہاجاتاہے کہ دس بیس بیس روپے ہر کھلاڑی لگائے گا۔ جو ٹیم ہار جاتی ہے وہ جیتنے والی ٹیم کو وہ رقم دے دیتی ہے۔اس طرح ہر کھلاڑی اپنی رقم بچانے اور دوسری ٹیم والے دس بیس روپے جیتنے کے چکر میں اچھا کھیل پیش کرنے کی کوشش کرتاہے۔ اس طرح کھیل کا مظاہرہ اکثر چھوٹے سے چھوٹے کھیل کے میدان میں ، حتیٰ کہ گلی محلے میں کھیلنے والے بچوں کے درمیان بھی ملتاہے۔
دس بیس روپے ہارنے جیتنے والے کچھ بڑے ہوتے ہیں تو پھر اُن کو جوئے کی لَت پڑچکی ہوتی ہے۔ اب وہ کھیل کھیل میں مالدار ہونا چاہتے ہیں۔ بین الاقوامی جوئے کا غلغلہ بھی اُن کے دماغوں تک رسائی پا چکا ہوتاہے۔اب یہ دس بیس روپے سے آگے بڑھ کر سو، پانچ سو روپے تک لگانا شروع کردیتے ہیں۔ جب مزید لَت مضبوط ہوتی ہے تو بات ہزاروں سے لاکھوں روپے تک پہنچ جاتی ہے۔ پورے پورے گروہ کھیل کے میدانوں میں جوئے میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ اب ہر کھلاڑی اپنی استطاعت کے مطابق تو پیسا لگاتاہی ہے مگر اُن سے زیادہ باہر بیٹھے پیشہ ور جواری گیم کرتے ہیں۔
ضلع میانوالی کے اکثر والی بال کے میدانوں کی رونقیں اِسی جوا کی مرہونِ منت ہوچکی ہیں۔ خاص کر میانوالی شہر، عیسیٰ خیل،ترگ، کمرمشانی، جلالپور، کوٹ چاندنہ، کالاباغ، ماڑی انڈس،پکی شاہ مردان، داؤدخیل، پائی خیل، موچھ، دلیوالی، روکھڑی، شہبازخیل، موسیٰ خیل، کندیاں، پپلاں، ہرنولی، واں بھچراں، شادیہ اور دیگر کئی چھوٹے قصبات بھی والی بال کے کھیل میں خصوصاََ اور کرکٹ وغیرہ میں عمومی طور پر جوا کی وبا پھیل چکی ہے۔ اکثر ہوٹلوں پرچائے مٹھائی کے جوئے لڈو، تاش، کِرم بورڈ پہ جاری ہیں۔ جو آہستہ آہستہ بڑے جوئے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ غریب لوگوں کے لیے تو لڈو تاش پہ چالیس پچاس روپے روزانہ ہارنا بھی اپنے اور اپنے بچوں کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔
کھیل کے میدان میں ہونے والے جوا میں بہت سے شرفا تک ملوث ہو چکے ہیں۔ وہ کھیل سے جیتنے والی رقم کو جوا میں شمار ہی نہیں کرتے۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ یہ بھی جوا ہے۔ یہ بھی حرام کی کمائی ہے۔ صرف چھُپ چھُپا کے تاش پر فلاش ، منگ پتا ، رنگ اور سِپ پر اور لڈو کے دانہ پرجوا نہیں ہوتا بلکہ ہر اُس سرگرمی میں حاصل ہونے والی رقم ناجائز ہوتی ہے جو جوئے کی سی صورتِ حال سے حاصل ہوتی ہے۔ ضلع میانوالی میں ہفتہ وار لگنے والے میلوں پر بٹیر کی لڑائی پر بھی بہت زیادہ جوا ہوتاہے۔مرغ کی لڑائی تو ظالمانہ فعل کے ساتھ ساتھ جوئے کا بھی ایک بہت بڑا ذریعہ بن چکاہے۔
آئی پی ایل جوا تو اکثر گلی محلے کی بیٹھکوں اور ٹی وی رومز کی زینت بن چکا ہے۔ پولیس کبھی کبھی خوابِ خرگوش سے اچانک اُٹھ کر پکڑ دھکڑ کرتی ہے مگر دوسرے دن جواری ضمانت پر رہا ہوکر دوبارہ دھڑلے سے جوا کی دکان سجا لیتے ہیں۔کئی جواری تو تھانے پہنچتے ہی کوئی ایسی گدڑسنگھی سونگھاتے ہیں کہ پولیس اُنہیں تھانے ہی سے باعزت فارغ کردیتی ہے۔ اب پتا نہیں وہ گدڑ سنگھی سیاسی سفارش والی ہوتی ہے یا لفافے میں بند کسی جادوائی تعویذ کا اثر ۔
جوا ایک ایسی بیماری ہے جس سے نوجوانوں کو محنت سے دُور کردیاہے۔ حلال روزی کمانے کا شوق ختم ہوکے رہ گیاہے۔ نوجوان حرام کی کمائی سے بوزکی کا ریشمی لباس، تِلے والی جوتی اور ہاتھوں کی دو دو تین تین انگلیوں میں سونے کی بڑی بڑی انگوٹھیاں پہن کر اِتراتے پھرتے ہیں۔اور اکثر ہارنے والے اپنے گھر بار برباد کررہے ہیں۔ ہار کے بعد سود خوروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو اُن کا خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیتے ہیں۔
سماجی سطح پر ہرقسم کے جوا کے خلاف سیمینار کرنے، مساجد میں ہر جمعہ پر ایسی سماجی و اخلاقی برائیوں کے خلاف قرآن وسنت کے مطابق سمجھانے،خبردار کرنے اور انتظامی سطح پر پولیس اور عدلیہ کے ذریعے سخت سزائیں دینے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ہماری نوجوان نسل اس لعنت سے چھٹکارہ پاسکے اور ہمارے جو گھر اس جوا کی وبا سے متاثر ہورہے ہیں وہ محفوظ ہوں۔
ہر شہر میں جوا، شراب اور سود کے خلاف سماجی تنظیموں اور ضلعی حکومتوں کی طرف سے بڑے بڑے بینرز اور سائن بورڈز نصب کیے جائیں۔
بار بار اس بات کا احساس دلایا جائے کہ جوا کی کمائی حرام کی کمائی ہے ، حرام کی کمائی ہے تاکہ معاشرہ میں اس کے خلاف نفرت پیدا ہو۔ جس طرح مردار کا گوشت حرام ہے، جس طرح کتے اور خنزیر کا گوشت حرام ہے، اِسی طرح شراب بھی حرام ہے اور جوا کی کمائی سے خریدی گئی اشیاء بھی حرام ہیں۔ جوئے میں جیتا گیا پیسا مسجد کے کام کا نہ مدرسے کے۔ نہ خدمت خلق نہ کسی صدقہ جاریہ میں استعمال کے کام کا۔ جوا کی کمائی صرف اور صرف اپنی قبر کو آگ سے بھرنے کے مترادف ہے۔
خدا را اندھی لالچ سے بچیئے۔ لالچ بُری بلا ہے۔اپنی توانائیاں محنت کے میدان میں لگائیے اور حلال کی کمائی سے اپنے گھروں میں برکت اور سکون لائیے۔ جوا کے خاتمہ سے دیگر جرائم میں بھی کمی ہوگی۔ گھروں میں لڑائی جھگڑے کم ہوجائیں گے۔ چوری چکاری کا سلسلہ قدرے تھم جائے گا۔ دولت مند جوئے کے بجائے کاروبار میں رقم لگائیں گے جس سے کاروبار میں اضافہ ہوگا۔
جوا کے وبا کے خاتمہ کے لیے صرف پولیس پہ سارا کام چھوڑ دینا زیادتی ہوگی۔ ہر شہری کو اس سلسلہ میں پولیس کی مدد کرنی چاہیے۔جہاں کھیل کے میدان یا بٹیر ، مرغ کی لڑائی پر جوا ہونے لگے فی الفور پولیس کو اطلاع دی جائے۔ اساتذہ اور خطیب حضرات اپنے اپنے دائرہ اختیار میں بھر پور طریقے سے آواز بلند کریں۔این جی اوزمغرب زدہ ہوں یا مشرق زدہ سب کو اس وبا کے خلاف صف آرا ء ہونا ہوگا۔
جُوا کسی کا نہ ہُوا بہت معروف جملہ ہے مگر پھر بھی لوگ اس سے باز نہیں آتے ہیں۔ لالچ اور تن آسانی اندھا کرکے رکھ دیتی ہے۔ جُوا کسی کا ہو بھی جائے تو کس کام کا۔ اپنی حلال کی کمائی بھی حرام کے حوالے اور جیتی ہوئی رقم بھی حرام کی۔ جُوا گھاٹے ہی گھاٹے کا سودا ہے۔
جوا صرف اخلاقی برائی ہی نہیں بہت بڑی برائیوں اور جرائم کی بنیاد بھی ہے۔ اس کا مکمل خاتمہ ممکن نہ بھی ہو تو اس کے اثرات کافی حد تک کم کرنے میں ہم کامیاب ہوسکتے ہیں۔

Short URL: http://tinyurl.com/hxlkram
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *