تحریک” بے انصاف” نہ ہوجائے۔۔۔۔ تحریر: ذوالفقار خان، داؤد خیل

Zulfiqar Khan
Print Friendly, PDF & Email

تحریک انصاف کے سمجھدار لوگوں کا یہ خدشہ کہ تحریک انصاف کو باہر سے نہیں اندر سے خطرہ ہے میں جان نظر آتی ہے۔ اس خدشے کا اظہار سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور بھی اپنی پہلی تقریر میں کرچکے ہیں۔کچھ روز قبل عمران خان نے بھی کہاکہ لاہور میں پانچ پانچ پی ٹی آئی بنی ہوئی ہیں۔ ان باتوں سے لگتاہے پی ٹی آئی کو مجموعی طور پر پاکستان کے اکثر علاقوں میں ایسی صورتِ حال کا سامنا ہے۔
ضلع میانوالی جسے پی ٹی آئی کا لاڑکانہ کہاجانے لگاہے یہاں بھی پارٹی کااندرونی خلفشار و اضطراب اب ڈھکی چھُپی بات نہیں ۔زیادہ نہیں تو کم ازکم دو گروپس تو واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ ان گروپس کے اختلافات اگر پارٹی میٹنگز تک محدود ہوتے تو شاید یہ جمہوریت کا حُسن قرار پاتے مگر یہاں تو یہ آئے روز اخبارات کی زینت میں اضافہ کررہے ہیں۔ مقامی اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ بیانات اور پورے پورے صفحے کے اشتہارات پارٹی کی جگ ہنسائی اور ان کی سیاسی بصیرت کا منہ چڑھا رہے ہیں۔
ان اختلافات کی گونج صوبہ پنجاب کے کوارڈی نیٹر چوہدری محمد سرور سے ہوتی ہوئی بنی گالہ تک پہنچ رہی ہے۔ کچھ روز قبل چوہدری محمدسرورنے پی ٹی آئی میانوالی کے ضلعی ترجمان خادمِ موچھ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ سردار سبطین خان سے مشاورت کرکے ضلع میانوالی کی قیادت کے درمیان اختلافات کو ختم کرانے کی کوشش کریں اور فی الفور اخبارات میں بیان بازی سے ان کو روکیں۔
ماہ رمضان کی بابرکت ساعتوں کے ساتھ خادم موچھ نے سب سے پہلے عیسیٰ خیل کا رُخ کیا۔ پہنچ کے پتا چلاکہ عبدالرحمن خان المعروف ببلی خان تو گرمی کی شدت سے محفوظ رہنے کے لیے آج کل مری کی ٹھنڈی ہواؤں میں ماہ رمضان کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سو ٹیلی فون پر ہی بات کرنا پڑی۔ پھر پی ٹی آئی کے ایک اور راہنما معروف گلوکار عطااللہ خان عیسیٰ خیلوی کے عیسیٰ خیلوی ہاؤس پر حاضر ہوئے۔ لالہ نے اپنے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا۔ پی ٹی آئی کے ایک ورکر جو کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہیں، اُس کے لیے عیسیٰ خیلوی عیدکے دوسرے دن ایک شو کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بھی پارٹی کے اندرونی اختلافات پر پریشان دکھائی دیئے۔حتیٰ کہ اس وجہ سے ایک مریض کے لیے کیا جانے والا پروگرام بھی متاثر ہورہاہے۔
ہو سکتاہے اب یہ پروگرام کسی نیوٹرل مقام جیسے اسکندرآباد وغیرہ میں ہو مگر پھر بھی ڈر ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کا ایک دھڑا اس پروگرام کا دھڑن تختہ نہ کردے۔ واپسی پر پی ٹی آئی کے ضلعی ترجمان ترگ میں پی ٹی آئی کے جفاکش و محنتی کارکن اور یونین ناظم کے امیدوار احسان اللہ خان سے ان کے خدمتی دفتر میں ملے۔ وہاں بھی ان دو شخصیات نے پی ٹی آئی کی قیادت کے آپس کے اختلافات کا دُکھڑا بیان کیا۔
جلالپور کے قریب پی ٹی آئی کے دیرینہ ساتھی اور سابقہ امیدوار ایم پی اے پی پی تینتالیس، عیسیٰ خیل کیڈٹ کالج کی جدوجہد کے سُرخیل جمال احسن خان سے ملاقات کی۔ جمال خان پی ٹی آئی کے ورکرز کی طرح کا ردِ عمل کرتے دکھائی دیئے۔ پی ٹی آئی سے محبت کا حال یہ تھاکہ اپنی بھڑاس نکال کر آخر پہ پھر بھی یہی کہتے رہے کہ کچھ بھی ہوجائے ہم پی ٹی آئی کی قیادت کے پابند ہیں البتہ ہمارے خلاف بیان بازی کرنے والے کبھی غیر مشروط پارٹی سے وفاداری پر آمادہ نہیں ہونگے۔
یاد رہے کہ جمال احسن خان گزشتہ انتخابات میں پی پی تینتالیس سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے تھے۔ یہ وہ واحد بدقسمت امیدوار تھے جس کو اُس وقت کی پی ٹی آئی کی ایک مرکزی شخصیت نے ہرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پی ٹی آئی کے ورکرز نے پوری لگن سے جمال احسن خان کو ووٹ دیئے مگر اُس شخصیت کے زیرِ اثر علاقہ کے عوام نے آزاد اُمیدوارببلی خان کو ووٹ دے دیئے۔ پی ٹی آئی کا اُمیدوار جیت سکا نہ وہ آزاد اُمیدوار بلکہ مسلم لیگ ن کا امیدوار امانت اللہ خان شادی خیل جیت گیا ۔ اس طرح پی ٹی آئی کا ضلع میانوالی سے کلین سویپ کا خواب ادھورا رہ گیا۔
تحصیل عیسیٰ خیل میں سابق ممبر صوبائی اسمبلی عبدالرحمن المعروف ببلی خان گزشتہ انتخابات کے موقع پر پی ٹی آئی کی طرف راغب ہوئے۔ مسلم لیگ ن سے ٹکٹس کی تقسیم پر اختلاف ہوا ۔ یہ شادی خیل برادران کو ٹکٹ دینے کے مخالف تھے مگر ن لیگ کی قیادت کی اپنی مجبوریاں تھیں۔ بہرحال بالآخر ببلی خان آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں کود پڑے۔ ببلی خان دراصل مسلم لیگ ن کی صوبائی وزیر محترمہ ذکیہ شاہنواز کے بھائی ہیں۔ محترمہ کا اپنے حلقہ اور پنجاب بھرمیں کافی قد کاٹھ ہے۔ ببلی خان نے خود بھی حلقے میں ایک بھاری ووٹ بنک کو اپنا ہم نوا بنا رکھاہے۔ اب ببلی خان پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل جب محترمہ ذکیہ شاہنواز صاحبہ کا نام گورنر پنجاب کے لیے لیا جانے لگا تو اُن دنوں ببلی خان ایسا لگاجیسے کچھ عرصہ کے لیے زیرِ زمین چلے گئے ہوں۔اُن کے بیانات تھم سے گئے تھے۔ ببلی خان حقیقت میں مسلم لیگی ہیں مگر شادی خیل برادران کی مخالفت میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کے خلاف بھی کھڑے ہونے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ ببلی خان اور جمال احسن خان آپس میں رشتہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی پی پی تینتالیس میں نمائندگی کے لیے ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھڑے ہیں۔ ببلی خان اپنے ووٹ بنک کے بل بوتے پہ جمال احسن خان کو چیلنج کرتے نظر آتے ہیں جبکہ جمال احسن خان پی ٹی آئی کے ساتھ اپنی کمنمنٹ کا دعوی رکھتے ہیں۔پی ٹی آئی کے ورکرز کے کندھوں کو اپنا سہارا سمجھتے ہوئے یہ چیلنج قبول کیے کھڑے ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جمال احسن اور ببلی خان میں سے اگر صرف ایک امیدوار پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے اور پی ٹی آئی کی قیادت پچھلی بار والا چکر نہ چلائے تو پی ٹی آئی کی جیت یقینی ہے۔
سردار سبطین خان جو پہلے مسلم لیگ ق کے صوبائی وزیر رہ چکے ہیں وہ بھی گزشتہ انتخابات سے پی ٹی آئی کی کشتی کے سوار ہوچکے ہیں۔موجودہ ڈسٹرکٹ کوارڈی نیٹر امجدعلی خان بھی انتخابات کے موقع پر پی ٹی آئی کا حصہ بنے اور ایم این اے بنے۔ احمد خان بھچر بھی پی ٹی آئی کے ایسے ہی ایک سوار ہیں۔سردار سبطین خان اور امجد علی خان تو اب پی ٹی آئی کی قیادت کے اہم ستون بن چکے ہیں۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کے حلقہ چوالیس سے ایم پی اے ڈاکٹر صلاح الدین خان ہیں جو پی ٹی آئی کے ساتھ اپنی طویل رفاقت کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کافی عرصہ پہلے سیاسی میدان میں قدم رکھنے کے لیے اپنی سترہ سالہ پُرکشش سرکاری نوکری کو خیرآباد کہہ دیا۔ کافی عرصہ پہلے اپنی انتخابی مہم شروع کردی۔ جب الیکشن قریب آئے تو پی ٹی آئی کا ایک گروپ ڈاکٹر صلاح الدین خان کو ٹکٹ دینے کے حق میں نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی طویل جدوجہد کا انجام بھیانک ہونے کو تھاکہ عمران خان نے ڈاکٹر صلاح الدین کے حق میں فیصلہ دے دیا ورنہ جس قیادت نے جمال احسن خان کو جیت سے دُور رکھا تھا وہ ڈاکٹر صلاح الدین کی سیاست کا بھی جنازہ نکالنے والی تھی۔
ضلعی کوارڈی نیٹر وغیرہ کے انتخاب کے لیے چند ہفتے پہلے سترہ جون لاہور میں چوہدری محمد سرور کی رہائشگاہ پر ضلع میانوالی پی ٹی آئی کی مبینہ ایگزیکٹو باڈی کا اجلاس ہوا جس میں بارہ ممبران شریک ہوئے۔ وہاں ضلعی کوارڈی نیٹر کے لیے سابق سینئرنائب صدر جنوبی پنجاب محمد اقبال خان نیازی آف سوانس کو نو (9) جبکہ ایم این اے امجدعلی خان کو تین (3) ووٹ ملے۔اگر واقعی یہی واقعہ ہے تو انصاف کا تقاضا تو یہی تھاکہ اس فیصلے کی روشنی میں نامزدگی کی جاتی مگر شایدیہاں انصاف کا نہیں تحریک انصاف کا مسئلہ تھااس لیے چوہدری سرور نے دِلی طور پر اس فیصلے کے حق میں ہونے کے باوجود بھی ضلع میانوالی کے فیصلے براہ راست چیئرمین عمران خان سے کرانے کو ترجیح دی۔ اس پر اقبال خان نیازی نے چوہدری سرور اور عمران خان کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی طرف توجہ بھی دلائی۔مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عمران خان نے امجدعلی خان کو ضلعی کوارڈینیٹر بنانے کا فیصلہ دے دیا۔شاید حالات کا تقاضا یہی سمجھا ہو۔ میری دانست میں اس کے ساتھ ڈاکٹر صلاح الدین خان کو ڈپٹی ڈسٹرکٹ کوارڈی نیٹر بنا نے کا کافی سمجھدارانہ فیصلہ کیاہے۔اس فیصلے سے لگتاہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت ضلع میانوالی میں پی ٹی آئی کی آپس کی خلیج کو کم کرنا چاہتی ہے۔
ایک گروپ نے ایگزیکٹو باڈی کے ممبران پر بھی عدمِ اعتماد کا اظہارکیا۔ انہوں نے کہاکہ یہ نام نہاد ایگزیکٹو باڈی ہے جو ایک گروپ نے خودساختہ ظاہرکررکھی ہے۔ اس لیے چوہدری سرور کے پاس ضلعی کوارڈی نیٹر کے لیے رائے کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔
ایک طرف امجدعلی خان ڈسٹرکٹ کوارڈی نیٹر ہیں جو پی ٹی آئی کے بجائے
electibles
کے کیمپ کے نمائندہ شمار ہوتے ہیں، کچھ عمران خان کے ابتدائی ساتھی بھی امجدعلی خان کے ساتھ کھڑے نظرآتے ہیں جیسے سلیم گل خان، پرویزخان،ضیااللہ خان پائی خیل وغیرہ جبکہ ڈاکٹر صلاح الدین خان پی ٹی آئی کے ورکرز کی نمائندگی کادعویٰ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صلاح الدین بھی
electibles
کی اہمیت کے انکاری نہیں ہیں مگر جہاں پی ٹی آئی کے دیرینہ ساتھی منتخب ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہاں وہ کسی
electible
والے فارمولا کو پسند نہیں کرتے۔
میانوالی میں قیادت کے اس اختلاف کا اثر نچلی سطح پر بھی نظر آتاہے۔یہاں بھی حقیقی ورکرز ،زبانی بیانی ورکرز،نئے اور پرانے، عہدوں کے شوقین اور بے لوث حمایتیوں کے درمیان تقسیم کی لکیر واضح نظر آتی ہے۔ اس کی تازہ مثال گزشتہ روز مقامی اخبار میں نصف صفحہ کا ایک اشتہار ہے جو شاہد حمیدخان ایڈووکیٹ آف موچھ کی طرف سے دیاگیاہے۔ انہوں نے اشتہار میں ایم این اے امجدعلی خان کو ضلعی کوارڈی نیٹر بننے کی مبارک باد دی اور اُمید ظاہر کی کہ نوابزادہ ملک وحید خان، ایم پی اے سردار سبطین خان، ایم پی اے ملک احمد خان بھچر اور عبدالرحمن المعروف ببلی خان کے ساتھ مل کر ضلع بھر میں پارٹی کو فعال اور ناقابلِ تسخیر بنائیں گے۔ انہوں نے منجانب میں کارکنان پی ٹی آئی یونین کونسل موچھ کوبھی لکھنا ضروری سمجھا۔ شاہد حمیدخان نے مجال ہے جو ڈپٹی ضلعی کوارڈی نیٹر پی پی چوالیس سے ایم پی اے ڈاکٹر صلاح الدین خان کا نام تک لکھا ہو، مبارک باد دینا تو دُور کی بات۔ جہاں دوایم پی ایز کے نام لکھے ہیں وہاں ملک وحیدخان اور ببلی خان کا نام تو لکھاہے مگر ڈاکٹر صلاح الدین خان کو پی ٹی آئی کے ایم پی ایز کی لسٹ سے بھی باہر رکھاہے اورپی ٹی آئی کی جان ، مقبول و مشہور لالہ عطااللہ خان عیسیٰ خیلوی، سابق امیدوار پی پی تینتالیس جمال احسن خان ،محمد اقبال خان نیازی آف سوانس ، خورشید انور خان ، داؤدخیل کے سابق ناظمین غلام شبیر خان اورامین اللہ خان کا نام تک لکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
شاہد حمیدخان مقامی سیاست میں اختلاف کو اس حد تک ایسے تو نہیں لے گئے، ہو سکتاہے اوپر کی تقسیم میں کسی گروپ کا سہارا لینا مقصد ہو۔ دوہزار تیرہ میں بلدیاتی الیکشن کا اعلان ہوا تو موچھ یونین کونسل سے پی ٹی آئی کی قیادت نے شاہد حمیدخان کی بجائے خادم موچھ مولوی عظمت اللہ خان کو یونین ناظم کا ٹکٹ دیاتھا۔اور اُس ٹکٹ دینے میں ڈاکٹر صلاح الدین خان کی رضامندی بھی شامل تھی۔ اب گزشتہ روز کے اشتہار میں ڈاکٹر صلاح الدین خان کو نظرانداز کرنے کی بھی شاید یہی وجہ ہو کہ اگر بلدیاتی الیکشن ہوتے ہیں تو ڈاکٹر صلاح الدین پھر مولوی عظمت اللہ خان ٹکٹ دینے کی سفارش کریں گے۔ حالانکہ ڈاکٹر صلاح الدین خان نے ٹکٹ ذاتی پسند ناپسند پر نہیں کارکردگی کی بنیاد پر دیا تھا۔ آج بھی موچھ یونین کونسل میں مولوی عظمت اللہ خان کارکردگی کے حوالے سے اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے مخالف دھڑے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں کہ کسی طرح موچھ سے مولوی عظمت اللہ خان کو ٹکٹ نہ ملے ورنہ مخالفین کی شکست یقینی ہے۔ مولوی عظمت اللہ خان کی دن رات عوامی خدمت کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ ن کے ضلعی صدر ساجد اللہ خان تک نے کچھ روز پہلے سستا رمضان بازار میانوالی میں کافی لوگوں کے سامنے کہہ دیاکہ اگر موچھ کے لوگوں میں کچھ شعور ہو تو وہ ذاتی مخالفت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اپنے شہر کی بھلائی کے لیے پی ٹی آئی کے راہنما مولوی عظمت اللہ خان کو ووٹ دیں۔پتا نہیں یہ بات اب ضلعی صدر نے مولوی عظمت اللہ خان کو خوش کرنے کے لیے کہی یا اُن کی عظمت کا اعتراف تھا، بہرحال درجنوں افراد کے سامنے کہی۔(ویسے ساجد اللہ خان نے موچھ کے عوام کے لیے شعور کی بجائے جو لفظ استعمال کیا وہ غیرت مند وں کے لیے اعزاز کا لفظ اور تنگ نظر وں کو اشتعال دلانے کے مترادف تھا)
مولوی عظمت اللہ خان اور شاہد حمیدخان کے درمیان پی ٹی آئی سے وفاداری کے متعلق باقی فرق کا تو مجھے نہیں پتاالبتہ اگر پی ٹی آئی نے مولوی عظمت اللہ خان کی بجائے کسی اور کو یونین ناظم کا ٹکٹ دیاتو وہ پھر بھی اپنی پارٹی کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے مگر مجھے شدید اندیشہ ہے بلکہ بیانات گواہ ہیں کہ اگر پی ٹی آئی نے یونین ناظم کا ٹکٹ مولوی عظمت اللہ خان کو دے دیا تو شاہد حمیدخان پی ٹی آئی کو خیرآباد کہہ کر مخالف کیمپ کی کمپین چلاتے نظر آئیں گے۔جس طرح 2013 ء میں متوقع بلدیاتی الیکشن میں مولوی عظمت اللہ خان کی نامزدگی پر شاہد حمیدخان نے مسلم لیگ ن کے سلیمان خان کی حمایت کا اعلان کردیاتھا۔2013ء کے قومی الیکشن میں بھی موصوف نے پی ٹی آئی کے امیدوار کے بجائے مسلم لیگ ن کے امیدوار کی حمایت کی تھی۔
داؤدخیل میں بھی اب ایک گروپ نے امجد علی خان کو مبارک باد دینا اور اپنے ایم پی اے ڈاکٹر صلاح الدین خان کو نظر انداز کرنے کے اشتہارات دینا شروع کردیئے ہیں۔ڈاکٹر صلاح الدین خان ایم پی اے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے سابق ضلعی صدر بھی ہیں۔ داؤدخیل کے اس گروپ کے ایک نہایت مصلحت پسند شخصیت کا کہناہے کہ اشتہار ضلعی دفتر کی طرف سے گیاہے، ہم ضلعی دفتر کے فیصلوں کے پابندہیں۔ انہوں نے داؤدخیل میں پی ٹی آئی کی گروپنگ کا اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ میں نے ہمیشہ دونوں گروپس کو ملانے کی کوشش کی۔ ہر بار تمام قیادت کو مدعوکیا۔ مقامی پی ٹی آئی کے کچھ لوگ بے جاشکوک شبہات کے ذریعے دونوں گروپس میں اختلافات کا سبب بن رہے ہیں۔ اس گروپ بندی میں صرف نئے آنے والے یا
electibles
کے رویوں کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ پرانے پی ٹی آئی کے کچھ ورکرز بھی نئے افراد کو دِل سے تسلیم نہیں کرتے۔ عہدوں کے چھن جانے کے خوف نے کچھ پرانے ورکرز کو بھی مشتعل کررکھاہے۔پرانے ورکرز کو بھی پی ٹی آئی کی بھلائی اور فتح کے لیے جوق در جوق پی ٹی آئی میں داخل ہونے والوں کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔
گزشتہ روز تری خیل میں منظور حسین المعروف حاجی شیکا خان کی طرف سے افطار پارٹی میں جہاں سینکڑوں پی ٹی آئی ورکرز شریک ہوئے وہاں قیادت میں سے صرف محمد اقبال خان نیازی آف سوانس، نوابزادہ ملک وحیدخان، عطااللہ خان عیسیٰ خیلوی ،سابق تحصیل ناظم سیدشمیم عباس شاہ ، ملک طارق اعوان،ملک زبیر اعوان آف تھانہ چکڑالہ کے علاوہ راقم کو کوئی دکھائی نہیں دیا۔ امجدعلی خان، سردار سبطین خان، احمدخان بھچر،ڈاکٹر صلاح الدین خان، خورشید انور خان،جمال احسن خان، ببلی خان ، سلیم گل خان، پرویز خان وغیرہ کی غیر حاضری کافی محسوس کی گئی۔ اتنے بڑے اجتماع کا اہتما م کرنے والے پارٹی کا بے لوث اثاثہ حاجی شیکا خان کے دِ ل کو بھی تکلیف تو بہت ہوئی ہوگی مگر اُن کا ضبط قابلِ رشک تھا۔
پی ٹی آئی ضلع میانوالی پر پاکستان بھر کی نظر ہے۔ ضلع میانوالی کو پی ٹی آئی کا لاڑکانہ کے بجائے لڑائی خانہ بنانے کی جو مشق جاری ہے اگر اس سے نجات حاصل نہ کی گئی تو بیرسٹر عمیرخان نیازی، کرنل حسن خان، محمداقبال خان نیازی،جمال احسن خان، عطااللہ خان عیسیٰ خیلوی اور ہر یونین کونسل میں موجود پی ٹی آئی کے حقیقی ورکرز کہیں مایوسی کا شکار نہ ہوجائیں۔
اگر پی ٹی آئی کو
electibles
کی مجبوری لاحق ہے تو کم ازکم ایک کام یہ پارٹی ضرور کرے کہ اپنے بہترین ورکرز کو ضلع بھر میں ایسی حیثیت ضرور دے کہ اُن کی بات کو ہر سرکاری و غیر سرکاری دفتر میں وزن ملے۔ وہ ورکرز احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔ ہر ورکر کو اُس کی حیثیت کے مطابق ضرور مقام ملنا چاہیے۔اور
electibles
جو پی ٹی آئی کے حُب دار تو نہیں البتہ حصہ داربن رہے ہیں وہ پی ٹی آئی کے ورکرزکی عزت افزائی اور حوصلہ افزائی میں تنگ نظری کامظاہرہ نہ کریں تو بھی مخلص ورکرز ان کو قبول کرلیں گے۔
آج پی ٹی آئی میانوالی اختلافات کے جس مقام پر کھڑی ہے، ایسے ہی 2013ء کے قومی الیکشن میں مسلم لیگ ن ضلع میانوالی کی قیادت بھی کھڑی تھی۔ ایک طرف گل حمید روکھڑی اور علی حیدر نورخان ایک دوسرے سے اختلاف کررہے تھے تو دوسری طرف روکھڑی گروپ اور شادی خیل گروپ کا اتحاد اخلاص کے بجائے شکوک و شبہات کاشاہکار تھا۔دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ جس کا نتیجہ ضلع میانوالی میں ن لیگ کی بُری شکست کی صورت نکلا۔
یاد رکھیں پی ٹی آئی کی ضلعی قیادت کی آپسی لڑائی پر پی ٹی آئی کے ورکرز بالکل خوش نظر نہیں آتے۔ وہ خلوص سے پی ٹی آئی کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار کھڑے ہیں۔ مگر شاید عہدوں کے شوقین راہنما اختلافات کا بیج اکھیڑنے کے بجائے بونے میں لگے ہوئے ہیں جو ان کے لیے بھی نقصان دہ ہوگا اور پی ٹی آئی کی ساکھ بھی شدید متاثر ہوگی۔
بنی گالہ میں بیٹھ کر عمران خان ضلع میانوالی کے ورکرز کاگِلہ دور کرسکتے ہیں نہ لاہور میں بیٹھ کر چوہدری محمدسرور ضلع میانوالی کے ورکرز کو سرور کا احساس دلاسکتے ہیں۔اس کے لیے انہیں ذرا وقت نکالنا ہوگا۔ پہلے بھی عمران خان کی ضلع میانوالی میں طویل غیر حاضری کو محسوس کیا جارہاہے۔ چوہدری سرور بھی میانوالی آئیں اور یہاں پی ٹی آئی اور عام میانوالین کی محبت کو دیکھیں تب احساس ہوگا کہ یہ کیسی سرزمین ہے؟میانوالی کے لوگ قیادتوں سے جذباتی نہیں شعوری محبت کرتے ہیں۔ اس لیے پی ٹی آئی یاد رکھے وہ طویل عرصہ جذبات کے ذریعے میانوالین کو اپنا ہم نوا نہیں رکھ پائے گی۔
اب کامیابی کادارومدار عمران خان اور چوہدری محمدسرور کی بصیرت پر ہے۔ اگر وہ تحصیل عیسیٰ خیل میں جمال احسن خان، عبدالرحمن ببلی خان اور ملک وحید خان کے درمیان اور اسی طرح امجدعلی خان، سردار سبطین خان، احمدخان بھچر اور ڈاکٹر صلاح الدین خان کے درمیان عدم اعتماد کی فضا کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یونین کونسلز کی سطح پر پارٹی ورکرز اور دیگر حمایتیوں کے درمیان بھی اختلافات کی خلیج کم ہوجائے گی۔
اب امجدعلی خان اور ڈاکٹر صلاح الدین خان کی سیاسی بصیرت کا امتحان شروع ہے۔ دیکھتے ہیں یہ شخصیات متعصبانہ،خوشامدی اور چاپلوس کلچرسے متاثر ہوکرفیصلے کرتے ہیں یا پی ٹی آئی کی کامیابی کو مدنظر رکھ میرٹ پر فیصلے کرتے ہیں۔ یہ دو شخصیات یاد رکھیں کہ ان کے جانتے بوجھتے غلط فیصلے پی ٹی آئی کی کشتی کو ڈبونے کا سبب بنیں گے جس میں یہ خود بھی سوار ہیں۔

Short URL: http://tinyurl.com/jg4bwx3
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *