تعلیم کی بنیاد نرسری ہے پانچویں نہیں۔۔۔۔ از: ذوالفقار خان، داؤدخیل

Print Friendly, PDF & Email

سرکاری سکولز میں خرابی کا سبب پرائمری سطح پر غیر معیاری تعلم کو قرار دیاجاتاہے۔ اس کے لیے ڈی ایس ڈی جیسا ادارہ کئی سالوں سے تگ و دو میں مصروف ہے۔ ایلیمنٹری کالجز میں ڈسٹرکٹ ٹریننگ سپورٹ سنٹر بنائے گئے ہیں۔پھر پندرہ کلومیٹرکے دائرہ میں کلسٹرٹریننگ سپورٹ سنٹرہیں۔ جہاں ڈی ٹی ایز دس سے پندرہ پرائمری سکولزکے اساتذہ کوہرماہ راہنمائی فراہم کرتے اور کلاس سوم، چہارم اور پنجم کا امتحان لیتے ہیں۔مگر خرابی ہے کہ دُور ہی نہیں ہوپارہی۔ آج بھی جماعت پنجم پاس کرکے آنے والے اسی نوے فیصدطلبا جماعت ششم میں اُردو پڑھنے اور لکھنے سے قاصر ہیں، انگریزی تو دُور کی بات۔ مڈل اور ہائی حصہ کے اساتذہ سر پیٹ کے رہ جاتے ہیں۔ سرکاری اداروں کے ان طلبا کی بنیاد ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے یہ ہمیشہ کے لیے احساس کمتری کا شکار ہوکراکثر بھگوڑے پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔اساتذہ حاضری کو یقینی بنانے کے لیے سختی کرتے ہیں۔اساتذہ محنت تو کرتے ہیں مگربنیاد مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے اکثر طلبا کے پلے کچھ بھی نہیں پڑتا۔پھر اساتذہ خود سزا سے بچنے کے لیے مڈل اسٹینڈرڈ اور میٹرک میں بہتر نتائج کے لیے نقل اور غیر قانونی ذرائع استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ جہاں پرائمری تعلیم کو ذمہ دار قرار دے کر اس کی اصلاح کی کوششیں کی جارہی ہیں وہاں اصل نقطہ نظروں سے اوجھل ہے۔ یعنی بنیاد۔ پرائمری تعلیم بنیاد نہیں ہے بلکہ نرسری بنیاد ہے۔ اگر ڈی ایس ڈی اور محکمہ تعلیم کے دیگر ذمہ داران اس طرف غور فرمائیں اور نرسری ، اول اوردوم کو بنیاد تسلیم کریں جو کہ تسلیم کرنا بھی چاہیے تو یہ مسئلہ حل ہوسکتاہے۔ پانچویں کے بجائے نرسری ،اول اوردوم کے امتحانات کا بورڈ تشکیل دیں۔نرسری ، اول اور دوم کے لیے بہترین اساتذہ تعینات کریں۔ ان بنیادی تین کلاسز کے اساتذہ کو خصوصی الاؤنس دیا جائے اور غیر معیاری نتائج پر اساتذہ سے سخت باز پرس کی جائے تو ہم دیکھیں گے کہ بنیاد کتنی مضبوط ہوتی ہے اور اس پر کھڑی ہونے والی عمارت پھر کتنی مضبوطی سے استوار ہوتی ہے۔خدا را پرائمری تعلیم میں نرسری ، اول اوردوم کو بنیاد بنایا جائے ورنہ کبھی بھی بہتر نتائج کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔

(ذوالفقارخان، داؤدخیل ضلع میانوالی)

Short URL: http://tinyurl.com/hqgev2b
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *