رمضان المبارک اور عید الفطر پر جہاں کراچی کے شہر ہیوں کو آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں باہر آتے ہوئے گدا گروں کی یلغار کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے

محترم جناب ایڈیٹر صاحب
آپ کے اخبار کے ذریعے میں حکام بالا کی توجہ ایک خاص مسئلے کی جانب مبذول کروانا چاہتی ہوں کہ رمضان المبارک اور عید الفطر پر جہاں کراچی کے شہر ہیوں کو آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں باہر آتے ہوئے گدا گروں کی یلغار کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے گویا رمضان کی خریداری اور عید کی خریداری کرتے وقت کراچی کے شہریوں کو ان گداگروں کے لئے بھی کچھ بجٹ رکھنا پڑتا ہے غریبوں اور محتاجوں کی خبر گیری اور ان کی مدد کرنا یقینا ثواب کا کام ہے لیکن اب تو گدا گری بھی ایک پیشہ اور کاروبار بن گیا ہے – باقاعدہ ٹھیکیداری نظام کی طرز پر ایک ایک فرد کے ایک ایک ٹھیکیدار کے کئی کئی سو فقیر ہوتے ہیں اور ان فقیروں کو پک اینڈ ڈراب کی سہولت مہیا کی جاتی ہے ایک ٹھیکیدار کے فقیر کو دوسرے ٹھیکیدار کے فقیر کے علاقے میں جانے پر بھی پابندی ہوتی ہے پھر سارا روپیہ پیسہ شام کو ٹھکیدار کے سامنے ڈھیر لگا دیا جاتا ہے اور ٹھیکیدار پھر ان کو ڈیہاڑی ادا کرتا ہے . میں ایک شہری اور طالبہ ہونے کی حیثیت سے ارباب اختیار سے گزارش کرتی ہوں کہ پیشہ ور فقیروں کو روکا جائے تاکہ جو حقیقی ضرورت مند ہے ان تک خیرات پہنچ سکے اور اِس کام کو باقاعدہ پیشہ یا کاروبار بنانے سے بھی مافیہ کو روکا جائے.
آپ کی شکرگزار.
سمرین احتشام (شعبہ ابلاغ عامہ، جامعہ کراچی)
Leave a Reply