سیلاب متاثرین کی زندگی عملی طور پر مفلوج ہو چکی ہے

flood victims
Print Friendly, PDF & Email

The life of the flood victims The life of the flood victims The life of the flood victims

M. Nafees Danish
محمد نفیس دانش، شیخوپورہ

مکرمی! برسات و سیلاب متاثرین کی حقیقی تعداد تو اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے لیکن مختلف اعداد و شمار کے مطابق تقریبا 4 کروڑ لوگ برسات و سیلاب سے متاثر ہیں، امداد کے جو اعداد و شمار سامنے آ رہے ہیں اگر ان اعداد و شمار کو سامنے رکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ تمام متاثرین ماشاءاللہ سے لکھ پتی بن چکے ہوں گے، لیکن اگر زمینی حقائق پر جائیں تو کہانی بالکل الٹ ہے کہ متاثرین کی اپنی زندگی عملی طور پر مفلوج ہو چکی ہے، ایک ہی وقت میں متاثرین کئی مسائل سے ایک ساتھ نمٹ رہے ہیں، متاثرین کا سب سے پہلا مسئلہ تھا پانی کا خروج، عمومی طور پر لوگ بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ جہاں سے پانی نکل گیا وہاں اب متاثرین نہیں رہے، یہ حقیقت ہے کہ گھروں گلیوں اور سڑکوں سے 80 فیصد پانی نکل چکا ہے لیکن 50 فیصد زمینوں پر پانی اب بھی موجود ہے، زمینوں پر پانی ہونے کی وجہ سے جانوروں کے گھاس کا مسئلہ بنا پڑا ہے، گھاس کی کمی کی وجہ سے دودھ کی قلت پیدا ہو رہی ہے اور اس وقت دودھ کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے، ہر متاثر کے گھر میں بھینس نہیں ہے، متاثر اپنے یا اپنے بچوں کے لئے دودھ خرید لے اس کے لئے اس کے پاس پیسے نہیں ہیں، سبزیاں زمین میں لگی تھیں، زمین میں پانی آ گیا، اس لئے سبزیوں کی قیمت آسمان پر چلی گئی، ساتھ ساتھ لاکھوں کی تعداد میں کئی پولٹری فارم میں موجود تیار مرغیاں مر گئیں اس وجہ سے مرغی کا گوشت بھی مہنگا ہوگیا اور انڈوں کی قیمت بھی نیچے نہیں آ رہی، متاثرین کی قوت خرید زیرو ہو چکی وہ کہاں جائیں، قوت خرید ختم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دیہات میں رہنے والے عمومی طور پر زمین پر مزدوری کرتے ہیں لیکن زمینوں میں پانی ہونے کی وجہ سے انہیں مزدوری نہیں مل رہی تو اپنے بچوں کا پیٹ کیسے پالیں، ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ زمینوں پر پانی کھڑا ہے، پانی میں مچھروں کی پیدائش بہت زیادہ ہوتی ہے، اس لئے شام 5 بجے سے ہی مچھر انسانوں اور جانوروں کی مرمت شروع کر دیتے ہیں، مچھروں کی مرمت کی وجہ سے جانور اور انسان دونوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں، متعدد جانور مر چکے ہیں، جو زندہ جانور کھڑے ہیں انہیں پالنا اور سنبھالنا محال ہوا پڑا ہے، لیکن عمومی طور پر جو لوگ متاثرین سے تعاون کے لئے آتے ہیں ان کے ذہن میں میرٹ پانی ہے، یعنی جہاں پانی کھڑا ہے وہ متاثر ہے اور جہاں پانی نہیں ہے وہ متاثر نہیں ہے، میرے مشاہدے کے مطابق یہ میرٹ درست نہیں، جہاں پانی کھڑا ہے یا جہاں پانی کھڑا تھا اس سے اس علاقے کے مکینوں پر کتنا اثر پڑا ان کی زندگی کتنی متاثر ہوئی یہ حساب لگا کر امداد کرنی چاہئیے، بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی کل کائنات ان کا کچا کمرہ تھا، پانی تو ادھر ادھر نکل گیا مگر کچا کمرہ گر گیا، اب کچے کمرے کی تعمیر کے لئے 20 سے 30 ہزار کی رقم درکار ہے جو کہ اس مزدور کے پاس موجود نہیں، وہ بیچارہ کہاں جائے، کئی مکین ملبے کے ڈھیر پر اپنا سامان رکھ کر اس آس پر بیٹھے ہیں کہ کوئی صورت تعمیر کی بن جائے تو ہم اپنی زندگی کو پھر سے شروع کریں۔ اس لیے کم از کم 3 ماہ تک متاثرین کے گھروں کی دیکھ بھال کرنا ہوگی، سرکاری سطح پر تو کونسلر حضرات کو یہ ذمہ داری اٹھانی چاہیے کہ ان کے وارڈ میں کوئی متاثر امداد سے محروم نہ رہے، اسی طرح دینی اعتبار سے ائمہ مساجد و دینی کارکنان کو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کے بجائے اپنے حلقہ احباب کی داد رسی کے لئے میدان میں نکلنا چاہیے، ائمہ مساجد اور دینی کارکنان کو پوری کوشش کرنی چاہئیے کہ ان کے حلقہ احباب اور علاقے میں کوئی مستحق بھوکا نہ سوئے، کسی کی دیوار گری نہ رہے، کسی کا بچہ دودھ کے لئے نہ بلبلائے، کس کی ایک دن مدد کرنی ہے، کس کی ایک ہفتہ، کس کی ایک ماہ، کسی کی 3 مہینے اور کس کی 3 مہینے کے بعد بھی، یہ پیپر ورک تیار کرنا پڑے گا۔

( محمد نفیس دانش، شیخوپورہ )

Short URL: https://tinyurl.com/2fo9zbbm
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *