ٹیکس ایمنسٹی سکیم : ایک لاحاصل مشق

Print Friendly, PDF & Email

ٹیکس ایمنسٹی سکیم ایک لا حاصل مشق ہے جس کا وطن عزیز میں دسویں بار تجربہ کیاجا رہا ہے ۔1958ء سے لیکر 2013ء تک کی گزشتہ تمام نو سکیموں سے معیشت کو کوئی خاطر خواہ سہارا نہیں مل سکا۔ 1958ء میں71279اور 1969ء میں19600جبکہ 2000ء میں صرف 79411ڈیکلیریشن داخل کرائے گئے۔سال 2008میں انکم ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے صرف دوارب اسی کروڑ روپے اکٹھے کئے جا سکے اور2013ء میں کل 50ہزار نان کسٹم پیڈ کار والوں نے فائدہ اٹھایا۔ موجودہ سکیم صرف ٹریڈرز کو فائدہ پہنچانے اورانہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے ترتیب دی گئی ہے۔ ایمنسٹی کو صرف ٹریڈرز تک محدود رکھناایک نا مناسب عمل ہے۔ ٹیکس کا نظام مساوی اور منصفانہ نہ ہونے کے باعث ایماندار لوگ بھی ٹیکس اور گوشوراہ جمع کرانے سے کتراتے ہیں جسکی وجہ سے سمگلنگ اور ٹیکس چوری کو روکنا نا ممکن ہے۔ لہذا حکومت کو ٹیکس اصلاحات کے ساتھ عوام میں ایف بی آرکاخوف ختم اور اسے جدیددور کے تقاضوں کے مطابق سائنسی خطوط پر استوارکرنے اور ٹیکس ادا کرنے والوں اوراکٹھا کرنے والے اداروں کے درمیان اعتماد کی فضاء قائم کرنے اور عوام کویقین دلانے کی ضرورت ہے کہ ان کی رقم ٹرانسپیرنٹ طریقے سے استعمال ہورہی ہے۔اس مقصد کیلئے اعلیٰ عدالتوں کے جج، پروفیشنلز،ٹیکس ادا کرنے والوں ،ایف بی آر، وزارت خزانہ اورعوام کے منتخب کے نمائندوں پر مشتمل ایک مستقل ادارہ قائم کیا جانا چاہئے جووقت کے ساتھ ساتھ اصلاحات کے عمل کو جاری رکھے جو بلواسطہ ٹیکسوں میں بتدریج کمی اورخاتمہ کے ساتھ عوام میں رضاکارانہ ڈائریکٹ ٹیکس ادا کرنے کا کلچر پیدا کرسکے جس کے نتیجہ میں آخرکار مہنگائی اور بیرونی قرضوں سے نجات مل سکتی ہے۔

(محمد ممتاز بیگ، رحیم یار خان)

Short URL: http://tinyurl.com/h6ldz46
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *