۔۔۔۔ تحریر: محمد ممتاز بیگ، رحیم یار خان Miscarriage of Justice بھٹو کی پھانسی

Print Friendly, PDF & Email

دنیا میں چند ایسے عالمی لیڈر گزرے ہیں جنہوں نے اپنی دور اندیشی سے قوموں کی قسمت بدل ڈالی ۔اللہ تعالیٰ نے قائد اعظم کے بعد لیاقت علی خان،ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو جیسی ذہین و فہیم، مخلص،نڈر، دور اندیش اور انتہائی سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے لیڈرعطا کئے جنکی خدا داد صلاحیتوں نے ملکی سیاست کو ایک نئی جہت بخشی مگر ہم انکی قدر نہ کر سکے اور اندرونی، بیرونی و عالمی سازشوں کے تحت انہیں ہم سے چھین لیا گیا۔
4اپریل ذوالفقار علی بھٹو کی 36ویں برسی ہے۔3اور4اپریل1979 کی درمیانی رات2بجکر4منٹ پر انہیں راوالپنڈی جیل میں ایک عدالتی فیصلہ کے تحت تختہ دار پر لٹکاکرایک گھنٹے کے اندرہیلی کاپٹر کے ذریعہ گڑھی خدا بخش پہنچا کر9بجکر20منٹ پر نماز جنازہ اور 10بجکر30منٹ پرتدفین کا عمل مکمل کردیا گیا۔گڑھی خدا بخش کی جامع مسجد کے امام محمود احمد بھٹو نے نماز جنازہ پڑھائی اور قریبی عزیزداروں نے بھٹو کا آخری دیدار کیا اور پھر اسی جامع مسجد کے قریب دفن کرکے پاکستان کی تاریخ کا ایک روشن باب بند کر دیا گیااور یوں4اپریل 1979کو پاکستان کی سیاسی تاریخ اجڑ گئی ۔لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے18مارچ1978کو دی گئی موت کی سزا کو سپریم کورٹ نے 24مارچ1979کو برقرار رکھا۔ جسے دنیا عدالتی قتل کے نام سے بھی پکارتی ہے۔31مارچ کو پیپلز پارٹی نے اور یکم اپریل کو بھٹو صاحب کی ہمشیرہ شہر بانو نے اور 54ممالک کے سربراہان مملکت کے علاوہ بہت سی عالمی تنظیموں اور ملک کے اندر سے بہت نمایاں شخصیات نے صدر مملکت جنرل ضیا الحق سے رحم کی اپیل کی مگر یکم اپریل1979کو صدر مملکت نے ان تمام اپیلوں کو مسترد کر کے بھٹو کی قسمت میں لکھا موت کا فیصلہ سنا دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی 21سالہ مختصرسیاسی زندگی (1958-1977)میں جس قدر مقبولیت اور شہرت حاصل کی یہ دنیا کی تاریخ کا ایک منفرد باب ہے۔وطن عزیز میں اسکو متنازعہ بنا دیاگیا جبکہ بیرونی دنیا میں سعودی عرب سے لیکر امریکہ تک وہ اپنی سیاسی بصیرت،جراٗت، بہادری، دور اندیشی اور لازوال قائدانہ صلاحییتوں کے باعث آج بھی قدآور اورناقابل فراموش لیڈر مانے جاتے ہیں۔وہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے بانی، اسلامی دنیا کو متحد کرنے کیلئے1974میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے میزبان بن کراسلامی بلاک بنانے اور پاکستان کو اسلامی دنیا کا لیڈر بنا کر پیش کرنے کا غیر معمولی کارنامہ ،ملکی تاریخ میں 1973کا متفقہ،جامع اور غیر متنازعہ آئین دینے،1971کی پاک بھارت جنگ میں قید 93ہزارسے زائد جنگی قیدیوں کی اپنی سیاسی بصیرت اور ڈپلومیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شملہ معاہدے کے تحت جولائی 1972میں باعزت رہائی،بھارت کے زیر تسلط 5ہزار مربع میل سے زائدکا اپنا علاقہ واپس لینا اور پہلی دفعہ پسے ہوئے طبقہ، مزدور اور کسان کے حقوق کی بات کرنا اور انہیں شعور دینا ان کے چوٹی کے چند کارناموں میں شامل ہیں۔لیکن اس سب کچھ کے باوجود وہ اپنے دوراقتدار میں، مہنگائی، غربت، بیروزگاری کو ختم اورمعیشت، تعلیم، زراعت،صنعت اور صحت کی ترقی یا معاشرتی بہبودکیلئے کوئی بڑی تبدیلیاں نہ لا سکے۔قائد اعظم کے بعدبھٹو ہی وہ واحد لیڈر تھے جو مسلم امہ کی پہچان بنے اس کے بعد سے آج تک ہم قیادت کے بحران سے دوچار چلے آرہے ہیں۔بھٹو ہر اہم اور بڑی شخصیت کی طرح اپنی زندگی میں متنازعہ رہے انکے چاہنے والے انہیں قائد عوام قرار دیتے رہے اورمخالفین انہیں فاشسٹ، غدار اور قاتل کے الزامات سے نوازتے رہے۔
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ بھٹو پر سرے سے قتل کاکیس بنتا ہی نہیں تھاتو اس کی وجہ یہ ہے کہ بھٹو کے مقدمے کے مدعی احمد رضا قصوری جنہوں نے 11نومبر1974کو اپنے والد نواب محمد احمد خاں قصوری قتل کی ایف آئی آر،زیردفعہ 302اور307 لاہور کے تھانہ اچھرہ میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف درج کرائی تھی وہ اصولی، اخلاقی اورقولی طور پر اپنے باپ کاخون ذوالفقار بھٹو کو معاف کر چکے تھے وہ اس طرح کہ لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے تشکیل دیا گیا تحقیقاتی ٹریبونل جو جسٹس شفیع الرحمن کی سربراہی میں قائم ہوا تھا نے جب 26فروری1975کو اپنی تحقیقاتی رپورٹ اس وقت کے وریر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پیش کی تو پیپلز پارٹی کے میڈیا ایڈوائزر کے بقول ٹریبونل نے ذوالفقار علی بھٹو کو بے گناہ ثابت کر دیا تھا ( جس کی آج تک کہیں سے تردید نہیں آئی)ایسے میں احمد رضا قصوری مایوس ہو چکے تھے ۔ پھرکچھ عرصہ بعد ذوالفقار علی بھٹو کی بیگم نصرت بھٹو احمد رضا قصوری کے آبائی علاقے قصور گئیں اور احمد رضا قصوری کو ماضی کو بھلا دینے اور آئندہ مل کر چلنے کی درخواست کی اور معافی کی خواستگار ہوئیں تو احمد رضا قصوری نے بیگم نصرت بھٹو کے سر پر چادر ڈالتے ہوئے کہا کہ جب بہن ننگے سر چل کر بھائی کے گھر آجائے تو پنجاب کی روایت ہے کہ بھائی معاف کر دیا کرتے ہیں اور خون کا الزام واپس لے لیا۔لیکن حیران کن طور پر دونوں اطراف سے ایف آئی آر کو ختم کرانے کیلئے کوئی قانونی کوشش نہیں کی گئی ۔بعد ازاں جناب احمد رضا قصوری اپنے اس قول پر قائم نہ رہ سکے اور 1977کے الیکشن میں اختلافات پر احمد رضا قصوری ایک بار پھر مخالف کیمپ میں جا کھڑے ہوئے اور5جولائی 1977کے ماشل لاء کے نفاذ کے بعد اس کیس میں ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کر لیا گیا جو کہ 1977میں عدم پتہ قرار دیکرداخل دفتر کر دیا گیا تھا اسے دوبارہ کھولا گیا اور24ستمبر 1977 کو دوبارہ کاروائی شروع کر دی گئی۔ اس کیس میں وعدہ معاف گواہ ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود نے اعتراف کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ہی نواب قصوری کے قتل کا حکم دیا تھا۔لاہور ہائی کورٹ نے 18مارچ1978کومولوی مشتاق حسین چیف جسٹس کی سربراہی میں اس مقدمے کا فیصلہ سنایا اورذوالفقار علی بھٹو کو6ماہ قید یا25ہزار روپیہ جرمانہ اور سزائے موت سنائی۔
شہید بھٹو ایک متنازعہ اور منقسم عدالتی فیصلے کے تحت پھانسی کے تختے پر اپنی جان کی قربانی دے کر امر ہوگئے اور عوام کے دلوں پر راج کرنے میں “شہید بھٹو” ۔۔۔۔ زندہ بھٹو پر بازی لے گیا.پاکستان کی سیاست بھٹو کے سحر سے تاحا ل باہر نہیں نکل سکی اور عوام میں بھٹو کی شخصیت کا سحر ابھی تک موجودہے جس کا اندازہ عقیدت مندوں کی گڑھی خدا بخش میں اجتماعات سے لگایا جا سکتا ہے جبکہ اس کے مخالفین تاریخ کی دھند میں غائب ہو چکے ہیں۔تین ججوں جسٹس دوراب پٹیل (بلوچستان)،جسٹس صفدر شاہ (صوبہ سرحد)،جسٹس محمد حلیم (سندھ) نے بھٹو کی رہائی جبکہ چار ججوں جسٹس محمداکرم، جسٹس کرم الہی چوہان،جسٹس نسیم حسن شاہ نے چیف جسٹس انوارالحق کے لکھے فیصلہ موت کی سزا کی حمایت کی۔اتفاق سے ان چاروں ججز کا تعلق پنجاب سے تھا۔ عوام کی اکثریت نے وقت کی عدالت کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اورایک جسٹس کے ریمارکس کے مطابق
“What I believe, Miscarriage of Justice was done when Mr.Bhutto was awarded Capital punishment”
قرار دیالیکن یہ بات طے ہے کہ دنیا میں بھٹو کا نام آج بھی دلوں کو گرما دیتا ہے چاہے وہ گرمی محبت کی ہو،مخالفت کی ہو یا نفرت کی۔

Short URL: http://tinyurl.com/jgscgce
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *