کالا باغ ڈیم یا اندھیرا۔۔۔۔ تحریر : محمد ممتاز بیگ، رحیم یار خان

Muhammad Mumtaz Baig
Print Friendly, PDF & Email

جب اور جہاں کہیں بھی ترقیاتی یا تعمیراتی کام شروع ہوتے ہیں وہاں کے باشندے عارضی طورہر حال میں متاثر ہوتے ہیں۔ نہریں، سڑکیں، ریل، پل ، موٹر وے، فلائی اوور، پاور پلانٹ، جھیل اور ڈیم بنتے ہیں تو متاثرین کے علاوہ ان کے حمائیتی اور مخالفین اپنے اپنے دلائل اور مطالبات لے کر میدان میں آجاتے ہیں۔ذرائع آمدورفت کیلئے وطن عزیز میں ایک جی ٹی روڈ اور انڈس ہائی وے کے علاوہ کراچی کو پشاور سے ملانے والا کوئی تیسرامتبادل زمینی راستہ نہیں ہے۔ اور جب موٹر وے بننے لگتی ہے تو غیر ضروری طور پر اس کی مخالفت شروع کر دی جاتی ہے۔اسی طرح پانی ذخیرہ کرنے اور سستی بجلی پیدا کرنے کیلئے ہمارے پاس دو کے علاوہ تیسرا بڑاڈیم نہیں ہے اور جب تیسرا آبی ذخیرہ کالاباغ کے مقام پر بنانے کی بات کیجاتی ہے تومخالفین چاروں طرف سے اسکی مخالفت میں شورمچانا شروع کردیتے ہیں۔ترقی یافتہ ملکوں کی طرف دیکھیں توچین میں26424ڈیم ہیں،امریکہ میں6817،ہندوستان میں 4446جبکہ پاکستان میں صرف 2 ڈیم (منگلہ اورتربیلا)ہیں ۔بھارت اور اسرائیل کالاباغ ڈیم کی تعمیر میں اصل رکاوٹ ہیں۔ہمارے شمالی علاقہ جات میں پانی ایسے ہی موجودہے جیسے ہمارے میدانی علاقوں میں گرد پائی جاتی ہے۔کالا باغ ڈیم پن بجلی کا ایک سستا اوربہت بڑا منصوبہ ہے جسے سیاسی طور پر متنازعہ بنادیا گیا ہے۔بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے دکانیں، مارکیٹیں، شاپنگ پلازے اور کمرشل سینٹرز رات آٹھ بجے بند کرنا یا دفاتر میں دو دن کی چھٹی سے بجلی کی خاطر خواہ بچت ممکن نہیں ۔لوڈشیڈنگ سے صنعتی پیداوار میں کمی، انڈسٹری آہستہ آہستہ بند اور بیروزگاری میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
دانشور اور پانی کے ماہرین مسلسل آگاہ کررہے ہیں کہ بھارت کے نئے ڈیم بنانے سے پاکستان میں زیر زمین پانی کی سطح بہت تیزی سے نیچے گر رہی ہے۔ دنیا میں تیسری جنگ عظیم پانی ہی کی وجہ سے ہوگی۔دنیا تیزی سے ڈیم بنانے میں مصروف ہے اور ہم صرف دو ڈیم بنا کرخوش اور تیسرے کالا باغ ڈیم کی بھر پور مخالفت اور آپس میں گتھم گتھا ہیں۔پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ڈیمز کے مخالف موجود ہیں۔ یہاں 6ماہ پانی کی کمی کی وجہ سے پیاس اور 6ماہ پانی کے بے قابو سیلاب کی وجہ سے ہم اس میں ڈوبے ہوتے ہیں۔پاکستان کا 75فیصد پانی 3ماہ میں گزر کرسمندر میں جا گرتا ہے۔
شہر والوں کو کیا پتہ کہ نہر اور نہری پانی کی کیا اہمیت ہے۔ ان کیلئے نہر ایک خوبصورتی اورتفریح کا ذریعہ جبکہ بارشیں موسم کی تبدیلی سمجھی جاتی ہیں۔دریاؤں میں پانی وافر ہو تو نہریں بلا تعطل کھیتوں کو سیراب کرتی رہتی ہیں بصورت دیگر ٹیوب ویلوں کے ذریعے فصلیں کاشت کرنا پڑتی ہیں۔دریاؤں کے پانی اور بارشوں کے بغیر پیداہونے والی فصل،پھل اور دانے نہ تو جاندار ہوتے ہیں اور نہ ہی ذائقہ والے
کالا باغ ڈیم کی مخالفت ایک خاص گروپ اورمخصوص مفاد پرست سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں۔جن کی نظر میں کالا باغ ایک مردہ گھوڑا، ناقابل عمل منصوبہ اوراگر بنایا گیا تو ان کی لاشوں پر بنے گا حالانکہ کالاباغ ایک مردہ گھوڑا نہیں بلکہ ایک زندہ ایشو ہے اوربھاشا یا سکردوڈیم اوپر ہونے کی وجہ سے کالا باغ ڈیم کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔بھارت ہمارا ہی پانی روک کر جب چاہے یہی پانی چھوڑکر ہمیں ڈبو سکتا ہے۔بھارت کا پانی چھوڑنا آبی جارحیت اورا س آبی جارحیت کو روکنے کیلئے کالاباغ ڈیم کا بننا ضروری ہے ۔ بھارت ہمارے تین دریاؤں(ستلج، راوی اور بیاس) پر مکمل قبضہ اور دو دریاؤں(جہلم اور چناب ) کا پانی روکنے کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے اور یہ جب چاہے ان کا پانی روک کر پاکستان کو بنجر اور جب چاہے یہی پانی چھوڑ کر ہمیں غرق کر سکتا ہے ۔بھارت پاکستان کا پانی روک کر آبی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے۔اس نے دنیا کے ایک بلند ترین مقام کارگل پر دنیا کا تیسرا بڑا ڈیم بنا نا شروع کردیا ہے جسکی مدد سے وہ اسلام آباد کو بھی باآسا نی اپنی آبی دہشت گردی کا نشانہ بناسکے گا۔پاکستان کے پاس صرف30دن جبکہ بھارت نے اپنے37دریاؤں کو آپس میں لنک کرنے کے بعد 120دن کا پانی سٹور کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے اگر کالا باغ ڈیم بن جائے تو اس میں بارشوں اور سیلاب کا تمام پانی سٹور ہو سکتا ہے جو دوسال تک چاروں صوبوں کی ضروریات بھی پوری کر سکتا ہے۔ آبی ذخائر کسی بھی ملک کی زرعی معیشت کیلئے ناگزیر ہوتے ہیں بدقسمتی سے کالا باغ جیسے اقتصادی منصوبے کو ایک سیاسی ایشو بنا کر متنازعہ مسئلہ ا ورمضحکہ خیز شکل دے دی گئی ہے اور ہم اپنے پانیوں کا 40فیصدحصہ بغیر استعمال کئے ہوئے سمندر میں دھکیل دیتے ہیں۔اور 3ہزار1سو80 کلومیٹر لمبے دریائے سندھ جس کا 93فیصد حصہ پاکستان کے علاقے میں سے گزر کر جاتا ہے سے ہم خاطرخواہ فائدہ نہ لے سکے۔
عالمی بنک کی نظر میں کالا باغ ڈیم ، بھاشا ڈیم کی نسبت ایک بہتر منصوبہ ہے جس کیلئے فیزیبلٹی رپورٹ تیار اور عالمی بنک، ایشین بنک اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے قرض اور امدا دینے کیلئے راضی ہیں۔ زرعی ،توانائی اور پانی کے پاکستانی اور عالمی انجینئرز اور ماہرین کے مطابق پاکستان میں بجلی کے بڑھتے ہوئے بحران، پانی کی مسلسل کمی اور سیلابوں جیسے مسائل کومستقل بنیادوں پر حل کرنے کیلئے میانوالی کے قریب کالا باغ کے مقام پر دریائے سندھ کے پانی کو بند باندھ کر روکنا بڑاضروری ہے۔سابقہ سیاسی اور فوجی حکومتوں نے اسے کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیااوران سیاسی اور فوجی رہنماؤں نے جب بھی اس ڈیم کو بنانے کیلئے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو چند ماہ کے اندر اندر ہچکچاہٹ کے بعدپر اسرا طور پر اس کا اردہ ترک کر دیتے ہیں ۔جنرل ضیاء الحق، بینظیر بھٹو، جنرل مشرف، غلام مصطفی کھر،فاروق لغاری، ڈاکٹر شیر افگن،نواز شریف اور اب عمران خان بھی اسی صف میں شامل ہو گئے ہیں۔لاہور ہائی کورٹ بھی اس ڈیم کی تعمیر کا حکم دے چکی ہے۔جس کے جواب میں خیبر پختونخواہ کے سیاسی لیڈروں نے کہا کہ” پاکستان اور کالا باغ ڈیم اکھٹے نہیں چل سکتے یہ ایک مردہ گھوڑا ہے جسے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پختونوں کو تباہ کرنے کیلئے دوبارہ زندہ کیا جا رہو ہاہے۔اگر سپریم کورٹ بھی اس کے حق میں فیصلہ دے تو قبول نہیں کریں گے۔ چولستان اور دیگر بنجر زمینوں کو آباد کرنے کیلئے خیبر پختونخواہ کی سر زمین کو کو بنجرکرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔کالا باغ ڈیم ایک ناقابل عمل منصوبہ ہے۔بھاشا ڈیم اور سکردو ڈیم پر کام کرنا چاہئے۔کالا باغ ڈیم کی موجودگی میں اگر سیلاب آگیا تو پورا خیبر پختونخواہ ڈوب جائے گا۔کالا باغ ڈیم ہماری لاشوں پر بنے گا۔ کالا باغ ڈیم بناتو ہم اسے بم سے اڑا دیں گے۔”۔سندھ سے آوازیں آتی ہیں کہ” ہم کالا باغ ڈیم کے مخالف تھے، مخالف ہیں اور مخالفت کرتے رہیں گے اور کبھی کالاباغ ڈیم نہیں بننے دیں گے”۔تمام سیاسی پارٹیاں پنجاب میں کالا باغ ڈیم کے حق میں جبکہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں جا کر اس کے خلاف بیانات دیتی ہیں۔ کسی پارٹی میں بھی اتنی جرات نہیں کہ وہ پنجاب میں کالاباغ ڈیم کے خلاف بات کرسکیں۔سندھ اور خیبر پختونخواہ کے اعتراضات ایسے ہیں کہ انہیں مل بیٹھ کر طے اور حل کیا جاسکتا ہے۔خیبر پختونخواہ کو ڈیموں کی رائلٹی ملنی چاہئے۔کالا باغ ڈیم بنانے کا سب سے زیادہ فائدہ سندھ کوہوگاجہاں سیلاب ہر سال دوسال کے بعد تباہی مچا دیتا ہے اس سے نہ صرف بچت ہو جائیگی بلکہ ٹھٹھ اور بدین کے علاوہ پورے سندھ کو سارا سال تمام فصلوں کیلئے پانی ملتا رہے گا۔ اس وقت پانی کی سب سے زیادہ کمی سندھ اور بلوچستان میں ہے۔ سندھ کے زیریں علاقوں ٹھٹھہ، بدین،کوٹری، ٹنڈومحمدخان،ٹنڈواللہ یار،سانگھڑ،میرپورخاص، عمرکوٹ اور تھر ایسے اضلاع ہیں جہاں پینے کا پانی صرف 6مہینے ملتا ہے اورباقی 6مہینے لوگ بڑی پریشانی میں گھرے ہوتے ہیں۔ کالاباغ ڈیم سے ایک نہر نکلے گی جوخیبرپختونخواہ کے اضلاع بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے8لاکھ ایکڑ سے زیادہ وسیع صحرائی علاقوں کو سرسبز کردیگی اور دوسری نہربلوچستان کیلئے نکالی جائے گی جوبلوچستان کی وسیع و عریض علاقوں کو گل و گلزار میں بدل دیگی۔نوشہرہ کالا باغ ڈیم سے 25فٹ اونچا رہے گااور اس کا ڈوبنے کا کوئی خطرہ نہیں ۔واپڈا نے بھی اس ڈیم کو ناگزیر قرار دیا ہوا ہے۔
1968کے بعد سے ہمارے ہاں ایک بھی بڑا آبی منصوبہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا۔جنرل ایوب خان نے 1967میں اور ذوالفقارعلی بھٹو نے اس کے بعد بڑی کوشش کی کہ کسی طرح کالاباغ ڈیم کی تعمیر شروع کردی جائے مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ آبادی اور ضروریات میں اضافے کے ساتھ آبی ضرویات کی تکمیل کرنے والے منصوبوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہو تو قحط اور خشک سالی ناگزیر ہوجاتی ہے۔ پاکستان کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے اور 70فیصد لوگ زراعت پر گزارہ کر رہے ہیں۔زراعت کی ترقی کیلئے پانی کا قابل بھروسہ انتظام ہونا ضروری ہے۔ زراعت کے ساتھ ساتھ صنعتی ترقی کیلئے بجلی کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں۔ سستی اور ضرورت کی بجلی صرف بڑے آبی ذخائر کی تعمیراور پن بجلی کے ایسے بڑے منصوبوں سے ہی حاصل ہو سکتی ہے ۔بجلی کے بل ڈیموں سے پیدا ہونے والی بجلی سے ہی کم ہونگے ۔غربت، مہنگائی،لوڈشیڈنگ اوربھوک کا خاتمہ ایسے بڑے بڑے آبی ذخائر بنانے سے ہی ہوگا۔1929جیسا سیلاب بھی اگرآجائے تو کالا باغ ڈیم کی موجودگی میں ایسا تمام پانی اس میں سٹور کیا جا سکتا اور پورے ملک کو سیلابی آفت سے بچانا ممکن ہے۔ ٹیکنیکی وجوہات واعتراضات کو درست کرکے خیبر پختونخواہ اور سندھ کے اعتراضات کو دور کیا جا سکتا ہے جبکہ سیاسی وجوہات یا اعتراضات کی ایسے منصوبوں میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ کالاباغ ڈیم جیسے آبی ذخیرہ کی مخالفت کرنے والوں کی پرواہ کی جائے اورنہ انہیں اہمیت دی جائے اور اس کی تعمیر فوری طور پر شروع کر دی جائے۔اگر اس کے نام پر کسی کو ا عتراض ہوتو اس کا نام ،قائد اعظم ڈیم، خیبر ڈیم، پاکستان ڈیم، سندھ ڈیم، باچا خان ڈیم، بھٹو ڈیم یا ولی خان ڈیم رکھ دیا جائے لیکن اس کی تعمیر بہرصورت کر دی جائے بصورت دیگرملک وقوم کیلئے اس کے نتائج انتہائی بھیانک ہونگے۔چاروں صوبوں کی زمینیں ریگستان، ملک میں اندھیرا اور عوام ایتھوپیا کے لوگوں کی طرح بھو ک اور پیاس سے مر رہی ہوگی۔

Short URL: http://tinyurl.com/jnfmroj
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *