صدقہ فطر

Hafiz Kareem Ullah Chishti
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: حافظ کریم اللہ چشتی، پائی خیل
رحمتوں اوربرکتوں سے بھراہوارمضان المبارک کامقدس مہینہ ہم سے کوچ کاارادہ کیے ہوئے ہے ۔چنددن رہ گئے ہیں ماہِ رمضان المبارک کامہینہ ختم ہوجائے گا۔پتہ نہیں کہ اگلے سال یہ مقدس مہینہ ہمارے مقدرمیں ہے یاکہ نہیں ۔کیونکہ زندگی کاکوئی پتانہیںکب تک وفاکرتی ہے۔جس خوش نصیب کے ساتھ جب تک زندگی نے وفاکی وہ تواس عظمتوں والے مہینے کوپاتارہے گااس ماہ مقدس میں اللہ پاک کی رحمتیں اپنے دامن میں سمیٹتا رہے گا۔جس کے ساتھ زندگی نے وفانہیں کی تووہ قیامت تک اس ماہِ مقدس کی رحمتوں سے محروم رہ جائے گا۔یہ وہ مقدس مہینہ ہے جس میںنفل عبادت کاثواب فرض کے برابراورفرض کاثواب سترسے سات سوگناتک بڑھادیاجاتاہے۔جوشخص رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میںایمان اورحصولِ ثواب کی نیت سے صوم(روزہ رکھنا) اورقیام کرتاہے اسکے تمام سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔قرآن مجیداوراحادیث مبارکہ میں جہاں جہاں یہ لکھاہے کہ نیک کام سے گناہ مٹ جاتے ہیں وہاں گناہ سے مرادگناہ صغیرہ ہیں کیونکہ کبیرہ گناہ اس وقت معاف ہوتاہے جب بندہ بارگاہ الٰہی میں اخلاص کے ساتھ توبہ کرلے ۔ اب کوئی شخص بھی ایمان کے تقاضوں کی تکمیل میں اوربارگاہ الٰہی میں ایمان وثواب کی نیت سے ماہ رمضان کے ر وزے رکھتاہے اوراس کی راتوں میں قیام کرتا ہے تواپنے سابقہ تمام گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے ۔کیونکہ روزہ داراللہ کے حکم کی تعمیل کرنے کے لئے دن بھرمیں کچھ نہیں کھاتاپیتا،رات کوقیام کرتاہے ۔سارادن اورساری رات اپنی تمام نفسانی خواہشات سے پرہیزکرتاہے تواللہ پاک بھی راضی ہوتاہے اورساراماہ اس پربابِ کرم کھول دیتاہے۔روزوں کے اختتام پرجوصدقہ دیاجاتاہے اسے صدقہ فطرکہتے ہیں ۔ صدقہ فطرنبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے غلاموں پرلازم قراردیاہے اسکے لازم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اگرہم نے روزہ کی حالت میں کسی کی غیبت کی، جھوٹ بولا،نظرکوغلط استعمال کیا،کسی کے بارے میں بدگمانی اوربُرااخیال کیااس قسم کی کوئی بھی حرکت جوروزہ کے تقدس کے خلاف تھی تواب روزہ ختم ہونے پرہم کچھ صدقہ کردیں کیونکہ صدقہ برائیوںکومٹاتاہے ہماراروزہ بھی اس سے صاف وستھراہوجائے گا۔
دوسری وجہ اسکی یہ بھی ہے کہ عیدکے دن ہم اورہمارے اہل وعیال خوشیاں مناتے ہیںنئے کپڑے پہنتے ہیں ایک دوسرے کوتحائف دیتے ہیں ۔جوغریب لوگ ہوتے ہیں وہ خوشی منانے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔جب ہم صدقہ فطرسے غریبوں کی مددکریں گے تووہ بھی عیدکی خوشی منائیں گے اس سے اللہ پاک اوراسکے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات خوش ہوگی ۔
صدقہ فطرایک مالی انفاق ہے جسکاحکم حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے زکوٰة سے پہلے اس سال دیاجس سال رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے ۔صدقہ فطرغریبوں اورمسکینوں کودیاجاتاہے اس کوفطرانہ بھی کہتے ہیں اس کااداکرناہرمالدارشخص کے لئے ضروری ہے تاکہ غریب اورمسکین لوگ بھی عیدکی خوشیوں میں شریک ہوسکیں اسکے علاوہ صدقہ فطرروزے دارکوفضو ل اورفحش حرکات سے پاک رکھنے کاذریعہ ہے ۔
حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ سے مروی ہے کہ سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صدقہ فطرمقررفرمایاتا کہ یہ روزہ دارکے بیہودہ کاموں اورفحش باتوں کی پاکی اورمساکین کے لئے کھانے کاباعث بنتاہے ۔(ابوداﺅد،مشکوٰة شریف)
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم نورمجسم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کھجوروں اورجَوکاایک صاع صدقہ فطرمسلمانوں کے ہرغلام ،آزادمرد، عورت ، چھوٹے اوربڑوں پرمقررکیااورحکم دیاکہ نمازعیدپڑھنے سے پہلے پہلے اداکردیاجائے ۔(مسلم شریف)
حضرت عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک شخص کوبھیجاکہ مکہ کی گلی کوچوں میں اعلان کردے کہ صدقہ فطر واجب ہے ہرمسلمان مردوعورت ،آزاد،غلام،چھوٹے اوربڑے پردومُدّ گندم یاایک صاع کھانا۔(ترمذی)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ماہ رمضان کے آخرمیں لوگوں سے فرمایااپنے روزے کاصدقہ اداکرورسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلمنے یہ صدقہ فطرواجب قراردیا ہے ایک صاع کھجوریاجَویاآدھاصاع گندم ہرآزاد،غلام ،مردوعورت اورچھوٹے بڑے پر(ابوداﺅد،نسائی)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلمنے ارشادفرمایابندے کاروزہ زمین وآسمان کے درمیان معلق رہتاہے یعنی قبول نہیں ہوتاجب تک اس کے ذمہ صدقہ فطرواجب ہے اورعمربھراس کے اداکرنے کاوقت ہے ۔(ابن عساکر،ویلمی)
حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے “رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غلام اورآزاد،مرداورعورت،چھوٹے اوربڑے سب مسلمانوں پرصدقہ فطرکھجوریاجوکا ایک صاع فرض کیاہے”حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلمکافرمان مبارک ہے کہ نمازکی طرف جانے سے پہلے زکوٰة فطراداکرلی جائے۔لیکن اگرکوئی شخص صدقہ فطرکسی مجبوری کیوجہ سے عیدکے روزادانہ کرسکااوربعدمیں اداکیاتواسکاشمارقضامیں نہیں ہوگا۔صدقہ فطرکسی بھی وقت اداکیا جائے تووہ اداہی ہوگا۔ہم کوبھی چاہیے کہ صدقہ فطراداکرنے میں سستی نہ کریں بلکہ عیدکاوقت آنے سے پہلے اداکردیں ۔تاکہ غریب لوگ بھی عیدکی خوشی میں شامل ہوسکیں ۔حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت ہے “کہ صحابہ کرام علہیم الرضوان صدقہ فطرعیدسے ایک دودن پہلے اداکردیا کرتے تھے”صدقہ فطرہرشخص پرواجب ہے اس کے لئے روزہ رکھناشرط نہیں مثلاََسفر،مرض،بڑھاپے کی وجہ سے یامعاذاللہ بلاعذربھی روزہ نہ رکھاتب بھی صدقہ فطرواجب ہے ۔عیدکے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقہ فطرواجب ہوجاتاہے لہذاجوشخص صبح صادق سے پہلے مرگیایاغنی تھافقیرہوگیاصبح طلوع ہونے کے بعدکافرمسلمان ہوایابچہ پیداہوایافقیرغنی ہوگیاتوواجب نہ ہوااوراگرصبح صادق طلوع ہونے کے بعدمرایاصبح طلوع ہونے سے پہلے کافرمسلمان ہوایابچہ پیداہوایافقیرتھاغنی ہوگیاتوواجب ہے ۔(فتاویٰ عالمگیری)
صدقہ فطرہرمسلمان آزادمالک نصاب پرجس کی نصاب حاجت اصلیہ سے فارغ ہوواجب ہے اس میں عاقل بالغ اورمال نامی ہونے کی شرط نہیں ۔مالک نصاب ہونے سے مرادیہ ہے کہ اس شخص کے پاس ساڑھے سات تولے سونایاساڑھے باون تولے چاندی یااتنی مالیت کی رقم یااتنی مالیت کامالِ تجارت یااتنی مالیت کاحاجت اصلیہ یعنی ضروریات زندگی سے زائدسامان ہو۔(بہارشریعت )حاجت اصلیہ یعنی ضروریات زندگی سے مرادوہ چیزیں ہیں جن کی عموماًانسان کوضرورت ہوتی ہے اوران کے بغیرگزراوقات میں شدیدتنگی و دشواری محسوس ہوتی ہے ۔جیسے رہنے کاگھر،پہننے کے کپڑے، سواری ،علم دین سے متعلق کتابیں اورپیشے سے متعلق اوزاروغیرہ۔(الھدایہ)صدقہ فطراداکرنے کے لئے مال کاباقی رہنابھی شرط نہیں مال ہلاک ہونے کے بعدبھی صدقہ واجب رہے گاساقط نہ ہوگابخلاف زکوٰة عشرکے یہ دونوں مال کے ہلاک ہوجانے سے ساقط ہوجاتے ہیں ۔(درمختار)ایک شخص کافطرہ ایک مسکین کودینابہترہے اورچندمساکین کودے دیاتب بھی جائزہے یونہی ایک مسکین کوچنداشخاص کافطرہ دینابھی بلاخلاف جائزہے اگرچہ سب فطرے ملے ہوئے ہوں۔(درمختار،ردالمختار)بھائی ،بہن ،چچا، ماموں،خالہ وغیرہ کوصدقہ فطردیناجائزہے لیکن اپنی اولادکویاماں باپ،نانا،نانی،دادا،دادی کوزکوٰة اورصدقہ فطرنہیں دے سکتے ۔صدقہ فطر/فطرانہ کے مصارف وہی ہیں جوزکوٰة کے ہیں یعنی جنکوزکوٰة دے سکتے ہیں انہیں صدقہ فطردے سکتے ہیں ۔زکوٰة کے مصارف سات ہیں ۔فقیر،مسکین ،عامل،رقاب،غارم،فی سبیل اللہ ،ابن السبیل۔اسکے علاوہ شوہربیوی کویابیوی ،شوہرکوبھی صدقہ فطرنہیں دے سکتی۔شوہرنے عورت کواپنافطرہ اداکرنے کاحکم دیااس نے شوہرکے فطرہ کے گیہوں اپنے فطرہ کے گیہوں میں ملاکرفقیرکودے دیے اورشوہرنے ملانے کاحکم نہ دیاتھاتوعورت کافطرہ اداہوگیاشوہرکانہیں مگرجب کہ ملادینے پرعرف جاری ہوتوشوہرکابھی اداہوجائے گا۔عورت نے شوہرکواپنافطرہ اداکرنے کااذن دیااس نے عورت کے گیہوں اپنے گیہوں میں ملاکرسب کی نیت سے فقیرکودے دیے جائزہے
صدقہ فطرکی مقدار
صدقہ فطر کی مقداریہ ہے گیہوں یااس کاآٹایاستونصف صاع کھجوریامنقیٰ یاجَویااس کاآٹایاستوایک صاع ۔(درمختار،عالمگیری)گیہوں جَو،کھجوریں ،منقیٰ دیئے جائیں توان کی قیمت کااعتبارنہیں مثلاًنصف صاع عمدہ جَوجن کی قیمت ایک صاع جَوکے برابرہے یاچہارم کھرے گیہوں جوقیمت میں آدھے صاع گیہوں کے برابرہیں یانصف صاع کھجوریں دیں جوایک صاع جَویانصف صاع گیہوں کی قیمت کے ہوں یہ سب ناجائزہے جتنادیااتناہی اداہواباقی اس کے ذمہ واجب ہے اداکرے ۔(عالمگیری وغیرہ)نصف صاع جَواورچہارم صاع گیہوں دیئے یانصف صاع جَواورنصف صاع کھجورتوبھی جائزہے ۔گیہوں اورجَوملے ہوئے ہوں اورگیہوں زیادہ ہیں تونصف صاع دے ورنہ ایک صاع گیہوں اورجَوکے دینے سے ان کاآٹادیناافضل ہے اوراس سے افضل یہ کہ قیمت دیدے خواہ گیہوں کی قیمت دے یاجَوکی کھجورکی مگرگرانی میں خودان کادیناقیمت دینے سے افضل ہے اوراگرخراب گیہوں یاجَوکی قیمت دی تواچھے کی قیمت سے جوکمی پڑے پوری کرے ۔ان چارچیزوں کے علاوہ اگرکسی دوسری چیزسے فطرہ اداکرناچاہے ۔مثلاًچاول،جوار، باجرہ یاکوئی اورغلہ یاکوئی اورچیزدیناچاہے توقیمت کالحاظ کرناہوگایعنی وہ چیزآدھے صاع گیہوں یاایک صاع جَوکی قیمت کی ہویہاں تک کہ روٹی دیں تواس میں بھی قیمت کالحاظ کیاجائے گااگرچہ گیہوں یاجَوکی ہو۔(درمختار) صدقہ فطرگیہوں یاگیہوں کاآٹاآدھاصاع اورجَویاجَوکاآٹایاکھجورایک صاع دیں ۔موجودہ وزن میں ایک صاع کاوزن چارکلواورتقریباََ چورانوے گرام ہے اورآدھاصاع دوکلواورتقریباََ50 گرام کابنتاہے ۔اللہ پاک ہماری تمام عبادات کواپنی بارگاہ لم یزل میں قبول فرمائے۔ ملک پاکستان کوخوشحالی عطافرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ والہ وسلم

Short URL: http://tinyurl.com/y4cpe2hv
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *