کبھی میت کو غسل دینے کیلئے پانی نہیں تو کبھی دفنانے کیلئے خشک زمین نہیں ہے

Waris Denari
Print Friendly, PDF & Email

Khushk Zamin Nahi Khushk Zamin Nahi Khushk Zamin Nahi Khushk Zamin Nahi Khushk Zamin Nahi Khushk Zamin Nahi Khushk Zamin Nahi Khushk Zamin Nahi

تحریر: وارث دیناری

چند درجن یا کچھ سو افراد کی لالچ،نا اہلی،غفلت اور ہٹ دھرمی کی سزا چار کروڑ افرادبھگتنے پر ابھی تک مجبور کیوں ہیں خدا کیلئے اب تو پانی کو راستہ دے کر سڑکیں بحال کریں بارشوں کو ہوئے ڈیڈ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن نصیرآباد ڈویژن سمیت سندھ کے کئی شہر اور دیہاتوں کے راستے بحال نہ ہو سکے لوگ ابھی تک یرغمال بنے ہوئے ہیں جہاں پرملیریا ڈینگی ہیضہ سمیت کئی بیماریوں نے تباہی مچائی ہوئی ہے لوگ روزانہ اپنے پیاروں کے ایک ساتھ دو جنازے اوٹھانے پر مجبور ہیں۔ساتھ ان کی تددفین میں بھی مشکلات پیش آرہیں۔ کیونکہ قبرستان تو پانی سے بھرے ہوئے ہیں کہاں پر دفنایا جائے۔ سیلاب متاثرہ علاقہ تحصیل گنداخہ کے ایک دوست سے فیس بک پر پوسٹ رکھی جس نے مجھ جیسے مضبوط دل انسان کے آنکھوں سے آنسوں نکل آئے وہ پوسٹ کچھ طرح جو سو فیصد حقیقت پر مبنی بھی ہے
(واہ ارے گنداخہ والے تمھاری قسمت کبھی تو میت کو غسل دینے کیلئے پانی نہیں اب دفنانے کیلئے خشک زمین نہیں
یہ حال ہے ہمارے بے بس لوگوں کا۔ کچھ شہر خوش قسمتی سے جوسیلاب کی تباہی سے تو بچ گئے لیکن راستوں کی بندش سے ان علاقوں میڈیسن اور اشیاء خوردونوش کی قلت پیدا ہوگئی ہے دس روپے والی چیز سو روپے میں لوگ سومیں خریدنے پر مجبور ہیں۔راستوں کی بندش کی وجہ سے بعض علاقوں میں مخیر افراد کی جانب سے بھیجی گئی امدادی سامان سیلاب متاثرین تک نہیں پہنچ پارہی ہے۔لہذا خدا کیلئے اب بس کریں فوری طور پر راستے بحال کریں۔ خریف کی فصلیں تو سیلاب کی نظر کردی گئی ہیں اب ربیع کی فصل کیلئے زمینوں سے پانی نکلا جائے تاکہ کاشتکار گندم کی فصل کاشت کرسکیں اور تمام راستے بحال کردئے جائیں۔ لالچ اور،لاپرواہی بہت ہوگیا ہے۔مذید ہم لوگ اس کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔اب ان بے بس بے سہارا لوگوں پر رحم کرکے ان کی داد رسی کئی جائے۔اور جن متاثرین کیلئے سامان آیا بلا کسی تاخیر کے ان کے حوالے کیا جائے لیکن ہر طرف سے یہی شکایات محصول ہورہے ہیں کہ حقیقی سیلاب متاثرین ابھی تک امداد سے محروم ہیں۔منتخب نمائدوں سمیت سیاسی اثرورسوخ والے بااثر افراد بیوروکریسی،ہی فل وقت اس امداد سے مستفید ہورہے ہیں۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نا صرف فوری طور پر سیلاب زدگان کی مدد کرے۔ساتھ ہی اب اس بات کا تعین بھی کرے کیونکہ ہر ایک زبان پر یہ بات ہے سیلاب آئی نہیں لائی گئی ہے جس کے نتیجے میں سولہ سوسے زیادہ قیمتی جانیں ضائع ہوگئی ہیں لاکھوں میویشی ہلاک لاکھوں ایکڑاراضی پر کھڑی فصلیں اور باغات تباہ تین کروڑسے زیادہ افراد متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ،اربوں ڈالرز کا نقصان بھی ہوا ہے۔خوشحال زندگی بسر کرنے والے دووقت کی روٹی کیلئے پریشان ہوکررہ گئے ہیں۔دوتہائی افراد کی حالت ایسے ہوگئی کہ اب کئی سالوں تک ان کا سنبھلنا مشکل ہے۔ان متاثرین کی سب سے بڑی داد رسی یہی ہے کہ سیلاب لانے والوں کو قانونی کاروائی کیلئے جوڈیشنل کمیٹی تشکیل دے کر ذمہ داروں کا تعین کرکے ان کو سخت سزا دی جائے پھر اس میں چاہئے جو بھی آتے ہوں بیورکریسی منتخب نمائدے با اثر جاگیردار سرمایہ دار کسی کو معاف نہیں کیا جائے اگر 2010میں سیلاب کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی جاتی تو آج 2022میں اس سے زیادہ ہمیں تباہی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔اگر ہم صرف یہ کرتے کہ گزشتہ سیلابوں میں پانی کس کس راستے سے علاقوں میں داخل ہوا اور کن راستوں سے نکلا تو بس اسی روٹ کو لے کر ہم صرف پلیں بناتے تو میں نہیں سمجھتا جو اس طرح تباہی بربادی کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا۔ابھی نہیں تو پھر کبھی نہیں اس بار بھی ذمہ دار سزا سے بچ گئے تو پھر ہر سال سیلاب سے تباہی مقدر بن جائے گئی کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی کا تو ایشو ہے ہی بس پھر دیکھتا جاکہ کس طرح کروڑوں لوگوں کی جان ومال سے کس طرح سے یہ چند سو افراد کھیلتے ہیں چار کروڑکے قریب افراد اس سال متاثر ہوئے ہیں جبکہ اگلے مذید کئی گنا زیادہ بارشوں کی ابھی سے پیشن گوئی کی جارہی ہے۔اگر چارکروڑ اس سال متاثر ہوئے تو خدانخواستہ اگلے سال شدید بارشوں سے چھ کروڑ افراد مذید متاثر ہوئے تو ملک میں کیا بچے گا۔دس بارہ کروڑ جو باقی آبادی رہ جائے گئی تو دس کروڑ متاثرین ان کو کھا جائیں گئے۔ہوش کے ناخن لیں سیلاب لانے والوں کو سخت سزایں دینے کے ساتھ آنے والے دنوں کیلئے ابھی سے منصوبہ بندی کی جائے وقت گزرنے میں دیر نہیں لگا ہے۔

Short URL: https://tinyurl.com/2ol9o6h9
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *