گلگت بلتستان: انتظام و تاریخ، مختصر جائزہ

تحریر: ہدایت اللہ اختر
دنیا کے نقشے میں نہ آزاد کشمیر ہے تو نہ گلگت بلتستان البتہ دنیا کے نقشے میں کشمیر ہزاروں سال سے موجود تھا ۔ان ہزاروں سالوں میں اس ریاست نے بڑے اتار چڑائو دیکھے ۔1842 سے پہلے کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت بھی کشمیر بشمول استور لداخ بلتستان نظر آتے ہیں لیکن گلگت دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہی گلگت کا لاحقہ بلتستان کا نام نظر آتا ہے ۔1842 پہلی اینگلو سکھ جنگ اور 1860 کے بعد گلگت کے مختلف راجوڑے بھی 1846 میں بننے والی جدید ریاست جموں و کشمیر کے حصے بن گئے اور پوری ریاست ریاست جموں و کشمیر و اقصائے تبتہا کے نام سے جانے لگی ۔جس کے تین صوبے تھے ۔جموں ، تبتہا اور کشمیر ۔جموں صوبے کے اندر جموں ،بھمبھر، کوٹلی، میرپور، سدھنوتی، راولاکوٹ، حویلی اور باغ۔صوبہ تبتہا لداخ ،کارگل۔لیہ ، سکردو بلتستان اور گلگت پر مشتمل تھا جبکہ صوبہ کشمیر میں کشمیر وادی کے ساتھ جہلم اور نیلم شامل تھے ۔برصغیر کی تقسیم کے بعد اس ریاست کی جو درگت بنی یا بنائی گئی اسے بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ۔پاکستان اور ہندوستان دو ملکوں کے بیچ سینڈ وچ بننے وال اس سرزمین نے مختلف انتظامی اصلاحات دیکھی ہیں اس سے سبھی واقف ہیں ۔ہم سب باسی چاہئے وہ ہندوستای زیر انتظام کشمیر و جموں لداخ میں مقیم ہوں یا پاکستانی زیر انتظام آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں رہائیش رکھتے ہوںانتظامی لحاظ سے اپنے کو الگ ملک سمجھیں یا صوبہ یا پاکستان کا حصہ اس سے ریاست جموں و کشمیر و تبتہا کی حقیقت کبھی بدل نہیں سکتی ۔ خطہ، جنوب مغرب میں آزاد کشمیر ہو یا پاکستان کے شمال میں گلگت بلتستان یا ہندستان کے وادی کشمیر اور جموں لداخ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی طرف سے اس خطے کی جو گروپ بندی کی گئی ہے وہی ایک سچ اور حقیقت ہے باقی سب کی سب چورن بیچنے کے سوا کچھ نہیں ، ہم چاہئیں اپنے آپ کو پاکستانی کہیں ہندوستانی کہیں یا کچھ اور ہم اس بین القوامی گروپ بندی کے بعد پاکستانی زیر انتظام کشمیر اور ہندوستانی زیر انتظام کشمیر ہی ہیں اس کے سوا کچھ نہیں۔آئیں دیکھیں خالصہ سرکار کی حکوت سے لیکر اب تک کے واقعات کو ۔
(1)پہلی اینگلو سکھ کا آغاز 1845میں ہوا جس میں سکھوں کو شکست ہوئی اور انگریزوں کے قبضے میں حکمرانی آئی ۔اس جنگ میں انگریزوں نے جو تاوان مقرر کیا وہ رنجیت سنگھ ادا نہ کر سکا ۔
(2) 1846میں مہارجہ گلاب سنگھ جو جموں کا کرتا دھرتا تھا اس نے انگریزوں سے ایک معاہدے کے تحت کشمیر کا اقتدار حاصل کیا
(3) 1846 معاہدہ امرتسر ہی کے مطابق جموں کشمیر لداخ استور بلتستان اور گلگت جو خالصہ سرکار کی حدود میں شامل تھے ریاست جموں و کشمیر کے حصے بن گئے جبکہ گلگت کے پولیٹکل علاقہ جات چلاس، پونیال، ہنزہ نگر جسے انگریزوں کی مدد سے فتح کیا گیا معاہدے کی ایک اور شق کے تحت ریاست جموں کشمیر کی حدود میں شامل کئے گئے ۔
( 4) 1947 کشمیر کی پہلی جنگ پاکستان اور ہندوستان کے وجود میں آتے ہی شروع ہوئی جس کے باعث پاکستان میں پاکستانی آزاد کشمیر اور ہندوستان میں ہندوستانی آزاد کشمیر کا ظہور ہوا ۔پاکستان کے آزاد کشمیر میں مظفرآباد جہلم میرپور گلگت بلتستان جبکہ ہندوستانی آزاد کشمیر میں کشمیر وادی ، جموں لداخ شامل ہوئے
(5) کشمیر کی یہ جنگ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان حصول کشمیر کے لیئے تھی جس میں کشمیر کی آزادی تک جنگ جاری رکھنے کا عزم کیا گیا تھا مگر یہ جنگ 1949 میں رک گئی جس کے تحت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں لڑنے والے کشمیر انفنٹری کے جوان یا قبائل یا گلگت سکاوٹس ہی ہیش پیش ریے اور جو علاقے پاکستان کے حصے میں آئے وہاں کے باسیوں نے اسے اپنے تئیں اسے آزادی سمجھ کر اپنی عبوری کونسلوں کا بھی اعلان کیا لیکن کسی ملک یا پاکستان نے اسے تسلیم نہیں کیا پاکستانی سرکاری دستاویزات میں مظفر آباد بشمول گلگت بلتستان پاکستانی آزاد کشمیر ہی کہلایا جس کی باگ ڈور اس وقت کی صوبہ سرحد حکومت کے ہاتھوں میں رہی
(6) 1949 میں کراچی میں دو معاہدے ہوئے ایک معاہدے کے تحت ہندوستان اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں اقوام متحدہ کے مبصرین پر اتفاق کیا گیا جس کے تحت ہی گلگت بلتستان میں یو این او کے دفاتر قائم ہوئے
دوسرا معاہدہ پاکستان اور آزاد کشمیر حکومت کے درمیان ہوا جس کے تحت گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر سے الگ کرکے پاکستان نے براہ راست اپنے انتظام میں لایا۔ اور اس لے پالک بچے کا نام شمالی علاقہ جات رکھا ۔اس شمالی علاقہ جات میں گلگت اور بلتستان شامل تھے لیکن گلگت اور بلتستان ایک نہیں تھے ۔مگر اس پر بھی ہم نے مٹھایاں شیرنیاں بانٹی خوب تماشہ ہوا ناچ ناچ کر سب ہلکان ہوئے اور آج تک اسی ناچ میں مصروف ہیں یہاں سے کہانی میں ٹوسٹ پیدا ہوتا ہے اور ٹوسٹ کا نہ ختم ہونے والا یہ سلسلہ اب تک برقرار ہے ۔ایف سی آر ،ایل ایف او، سلف ایمپاورمنٹ، عبوری شبوری ،آئینی غیر آئینی کبھی آزاد و مختاری، کبھی آزاد کشمیر طرز کی حکمرانی تو کبھی الحاقی اور خوشامدی کی پالیسی پر منزل سے دور اندھیری راہوں میں چلے جارہے ہیں ۔اصلاحات پہ اصلاحات مگر روشنی کا دور دور تک پتہ نہیں ۔
(7) 1970 میں ایک اور ٹوسٹ ہوا پیر مرشد کو خیال گزرا کہ کیوں نہ اصلاحات کا فائدہ اٹھایا جائے تو اس دفعہ کی اصلاحات میں نام شمالی علاقہ جات کو برقرار رکھتے ہوئے گلگت اور بلتستان کو یکجا کیا گیا ۔
(8) 1993 میں ہوا کیا گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے ملک محمد مسکین مرحوم کی طرف سے آزاد کشمیر ہائی کورٹ میں دائر کی گئی پٹشن کی روشنی میں آزاد کشمیر حکومت کا سرکاری موقف کھل کر سامنے آیا ۔جس کے بعد ہائی کورٹ نے ان علاقوں کو دوبارہ آزاد کشمیر کے انتظام میں دینے کا حکم صادر کیا لیکن پیر مرشد نے کہا نہیں اس سے جی بی بچے پر جن بھوت کا سایہ ہونے کا خطرہ ہے اس لیئے بڑے پیر سے اس کا علاج کروا دیا جس کے بعد بڑے پیر کی تعویذ کام آئی اور آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے فیصلے کے اثرات زائل ہوگئے ۔ قارئین اس تعویذ کے مندجات کے لیئے آزاد کشمیر ہائی کورٹ اور آزاد کشمیر سپریم کورٹ فیصلے کی طرف رجوع کریں تو بہتر رہیگا۔
(9) ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ گلگت بلتستان اپنا آئینی کشمیر کا صوبہ 1947 سے پہلے والا مانگتے اور حاصل کرنے کے لیئے ملک مسکین مرحوم کی جہد و جہد کو ضائع کرنے کے بجائے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے باسی سپریم کورٹ آف آزاد کشمیر م کے فیصلے کے خلاف اپیل کرتے مگر ایسا نہیں ہوا ۔سیاسی و ذاتی مفادات کے لیئے ایک غیر آئینی آرڈر کو رنگ روغن اور چمکا کر گلگت بلتستان آرڈر اور سلف ایپاورمنٹ کے نام سے متعارف کرایا گیا اور ایک ناجائز اور لا وارث عبوری صوبائی حکومت کو منظر عام پر لایا گیا ۔ اس ناجائز صوبے کے بعد اس خطے کا نیا نام گلگت بلتستان تجویز ہوا یا رکھا گیا ۔ یہ نظام کتنا کارآمد ہے یا یہ نظام کس کو فائدہ پہنچا رہا ہے کیا اس حکومتی نظام سے غریب کا بھلا ہو رہا ہے یا ان کا استحصال 2009 اور آج 20022 اس دوران تین انتخابی مرحلے طے پا گئے ان انتخابات میں یہاں کی صوبائی ممبران کیسے منتخب ہوتے ہیں اور کیسے ان کو خریدا اور استعمال کیا جاتا ہے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔ میں جمہوریت کے خلاف نہیں لیکن یہ میری ایک رائے ہے ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ صوبائی اسمبلی سے ہٹ کر بھی یہاں کے باسیوں کی بہتری کے لیئے کچھ اصلاحات ہوں گلگت بلتستان کی جغرافیائی اور یہاں کی روایات اور اقدار کے لحاظ سے سیاسی پارٹیوں کی بنیاد پر یہ صوبائی نظام اس خطے کے عوام کے لیئے مجھے مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔ اس قسم کا سیٹ اپ یہاں پر تقسیم در تقسیم کے سوا کچھ نہیں ۔جب سب کچھ ہی پاکستان کی وفاقی حکومت نے ہی کرنا ہے تو بجائے اس قسم کے ناجائز اور لا وارث صوبائی حکومت کے جس پر اربوں روپے ضائع ہو رہے ہیں اور غریب رل رہے ہیں سیدھے سیدھے وفاقی نمائندے جیسا بھی نام اسے دیں چاہئے اسے گورنر ہی رہنے دیں کم خرچ پر یہاں بسنے والے غریبوں کی حالت میں سدھار لانے کی کوشش کیوں نہیں کرنی چاہئے ۔ آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ یہ کیسی عجیب بات کر رہا ہے یا اسے کچھ اور سمجھیں یا اسے آپ حماقت سمجھ لیں ۔ میں تو ایک بے کار سی اسمبلی کے بجائے ان تمام اسمبلیوں کی حمایت کرونگا جو عوامی مفاد میں ہوں ۔اور جو صحیح معنوں میں سلف ایمپارومنٹ کا مطلب پیش کرتی ہوں ۔کیا ہے بہتر ہوتا کہ وزیر ، ترنگفے، یرفے اور چھربو اور ضلعوں کی سطح پر اسمبلیاں ہر گائوں اور ہر ضلع میں موجود ہوں ۔اور ہر ضلع کی نمائندہ اسمبلی ہی گلگت بلتستان کی ترقی کی ضامن اور بہترین حل ہے ۔ نہیں تو یہ سیاسی پارٹیاں جہاں اس خطے کے امن کے لیئے خطرے کا سبب بنے گی وہاں کشمیر کاز کو نقصان پہنچانے کا باعث بھی ۔یہ میری ایک تجویز اور رائے ہے ورنہ یہاں کسی نے جو کچھ کرنا ہے وہ مجھے سے پوچھ کر تھوڑی کریگا
Leave a Reply