غذر ایکسپریس وے یا خونی سڑک
میری معلومات کے مطابق گلگت بلتستان میں 1800 سے پہلے سڑک کا کوئی تصور یا وجود نہیں تھا اور رسائی کے وسائل محدود تھے لوگ پگڈندیوں کے ذریعے بڑی مشکلوں سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتے یا راستے میں ہی کسی قدرتی آفت کا شکار ہو جاتے تھے ۔ 1800 کے بعد انگریزوں کی آمد اور ریاستی شکل بننے کے بعد سڑک نام سے لوگ واقف ہوئے اور جو پہلی سڑک بنی اسے کشمیر گلگت روڈ کا نام دیا گیا ۔جی جی کشمیر گلگت روڈ ۔ اگر کسی دانشور یا سیاسی بھائی کو یہ سچ نہیں لگتا ہے تو وہ بے شک اس سے پہلے کسی سڑک کی موجودگی کی نشاندہی کر سکتا ہے ۔کشمیر گلگت روڈ کو بعد میں گلگت سے ہنزہ اور پونیال اور بلتستان تک بڑھا دیا گیا اور 1892 سے ان خطوں کو ایک دوسرے کےقریب لانے کے لیئے ڈاک و تار کے نظام پر بھی عمل درآمد شروع ہوا ۔ اور 1932 سے ان سڑکوں پر آمد و رفت کا باقائدہ سلسلہ شروع ہوا ۔ یہ تمہید کسی سیاسی بنا پر یا نمبر سکورنگ کے لیئے نہیں بلکہ یہ بتانے کے لیئے درج کی گئی ہے کہ کسی بھی خطے یا علاقے کی ترقی اور خوشحالی میں سڑک کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے ۔ اگر کشمیر گلگت روڈ نہیں بنتا تو آج ہم جن علیگ اور پرتاپ کالج کے افراد کے نام لیتے ہیں شائد وہ بھی نہ ہوتے ۔ اگر میں اس پر ہی لکھنے بیٹھ جائوں تو خدشہ ہے کہ میں جس خدشہ کا اظہار کرنےے والا ہوں وہ بیان نہ کر پا سکوں ۔خدشے کے اظہار سے پہلے یہ بھی سن لیں کہ جب ان خطے کے رہنے والوں نے سڑکوں پر سفر کرنا شروع کیا تو ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہوئے معافیاں مانگتے اور مغفرت کی دعائوں کی ایک دوسرے سے درخوست کی جاتی تھی ۔اب آپ یہ پوچھ لینگے کیوں ؟ تو میرا جواب اس کا یہی ہوگا کہ اپ 1800 سے 1900 کے درمیان گلگت بلتستان روڈ گلگت پونیال روڈ اور گلگت چلاس روڈ میں جو حادثاتی اموات ہوئی ہیں ان کا تجزیہ کریں ۔انگریزی میں سڑک کے لیئے روڈ کا لفظ ہے اس کے بعد ہائی وے اور پھر ایکسپریس اور پھر سپر ایکسپریس وے ۔ ان کا مطلب بھی آپ ڈکشنری سے معلوم کر سکتے ہیں کہ یہ کن معنوں میں استعمال ہوتے ہیں ۔فی الحال میں دور جدید میں بننے والے غذر ایکسپریس وے کا تجزیہ کرتا ہوں جو میں نے پچھلے دو ہفتے میں گلگت ٹاون سے باہر غذر سائیڈ میں گزارے اور تعمیر ہونے والی اس سڑک کے مختلف حصوں پر سفر کیا ۔دوران سفر مجھے احساس ہوا کہ یہ ایکسپریس وے یہاں کے لوگوں کی خوشحالی اور ترقی کا نہیں بلکہ علاقے کی آبادی کم کرنے کا ایک منصوبہ لگتا ہے ۔ ٹیکنکلی طور پر ٹیکنکل ماہرین سے ہم کبھی جیت نہیں پائینگے کیونکہ وہ اس بارے ہزاروں تاویلین پیش کرینگے۔ لیکن اس پر سفر کرتے ہوئے اس کی ناقص سروے چیخ چیخ کر پکار رہی ہے کہ ہاں ہاں میں مستقبل کی خونی ایکسپریس ہوں جو سفر کرنے والوں کی خون پینے کے لیئے بے تاب،بے قرار اور بے چین ہوں کب یہ تیار ہو اور میں اپنی خونی پیاس بجھائوں علاوہ اس کے سڑک کا ناقص کام ہمیں نیچے سے اوپر تک سب کمیشن مافیا کی تجوریوں کا کھلا منہ بھی دکھا رہا ہے ۔اور ادھر میں خود سے سوال پوچھتا ہوں کہ میں یہ ساری باتیں لکھ کر کیا بتانا ، دکھانا چاہتا ہوں؟ یا کسے اور کیوں دکھانا چاہتا ہوں؟ ۔ایسی باتیں تو وہاں کارگر ثابت ہوتی ہیں جہاں کوئی حکومت ہو کوئی نطام ہو اور ہماری کسمپرسی تو دیکھو کہ اس خطے میں نہ حکومت نام کی کوئی شے ہے اور نہ ہی کوئی نطام نافذ ہے ۔نظام اور حکومت کی بحث کسی اور طرف رخ موڑ سکتی ہے اور طوالت کا خدشہ بھی بس اس خدشاتی سوال کے ساتھ اختتام کرنا مناسب سمجھتا ہوں ۔کیا کوئی ذی شعور افراد اس خطے میں موجود ہیں جو ان باتوں کی طرف اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے مستقبل کی اس خونی سڑک جسے غذر ایکسپریس وے کا نام دیا گیا ہے منصوبے کی از سر نو سروے کا مطالبہ اور اس کی ناقص تعمیر پر احتجاج کریں؟ ۔
Leave a Reply