دردستان

Hadayat Ullah Akhtar
Print Friendly, PDF & Email

کونسا دردستان یہی کہہ رہے ہیں ہیں نا آپ؟۔ارے آپ دردستان سے آشنا نہیں   تعجب ہے،تو پھر کیسا دعویٰ ہے  آپ کا شندور کی آراضی پر؟۔۔ جی ہاں   جہاں میں اور آپ اس وقت رہ رہے ہیں  یہی تو دردستان ہے   جس کو ہم اور آپ  گلگت پکارتے ہیں۔۔ان میں کون کونسے علاقے تھے؟۔ وہ بھی یاد نہیں ۔۔چلو   بتا ہی دیتے ہیں ۔ دردستان(گلگت)  میں چترال،کافرستان،ورشیگھوم،کوہ غذر،پونیال،نگر،ہنزہ، ملحقہ علاقہ جات اور استور ،چلاس،داریل تانگیر اور سندھ کوہستان بشام تک کے علاقے ۔۔اور یہاں جو اقوام  آباد  ہے  انہیں دارد کہا جاتا تھا۔۔اور دارد قبائل میں شین یشکن ڈوم کمین سب شامل ہیں۔اس بات سے بھی آپ بے خبر ہیں ۔نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جبکہ     چینی سیاحوں اور  مشہور  یونانی مورخین نے بہت پہلے ہی  اپنی کتابوں میں دردستان  کا تذکرہ کیا ہے۔او ہو ماضی ۔ماضی کو کون سوچتا ہے ۔کیا سچ مچ یہ سارے علاقے دردستان کے تھے؟۔تو پھر یہ کیسے الگ ہوئے؟ ۔نہیں معلوم ۔ ہم نہیں سوچتے۔   ماضی سے ہمیں کیا لینا دینا  ۔ٹھیک کہا نا میں نے۔چلیں کوئی بات نہیں۔سوتے ہی رہو جاگنا منع ہے۔ جاگو گے تو اور بھی بہت کچھ   یاد   آنے کااندیشہ ہے اور ایسے ہی  اندیشوں کو نظر انداز کرنا ہی ہمارا کام ہے۔۔بس ہم نہیں مانتے دردستان کو دردستان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ۔ نہیں مانتے ہم  کشمیر مسلے کو ۔کشمیر مسلے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔۔نہیں مانتے ہم  سینو پاک معاہدے کو۔اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ہم جی بی کو تقسیم ہونے نہیں دینگے ہم تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرینگے۔  کیوں ہماری الگ شناخت ہے ہماری الگ پہچان ہے۔ہم تو۔  جی بیئنز  ہیں۔۔۔دردستان میں  دردستانی اپنے آپ کو نہ بنا سکے چترال کو ہم نے کھو دیا، بلور ستان سے لوگ آئے   مذہب اور قومیت  کی بنیاد پر دردستان میں اسے پروان چڑھانا چاہا    ۔نہ دردستان بچا اور نہ ہی بلورستان نہ ادھر کے رہے نہ ادھر   کے دردستان،بلورستان  کو  تقسیم در تقسیم کرنے  میں  کوئی کسر نہ چھوڑی۔گورنر کوہ غذر(گوپس) کا حکمران چترال تک جس کی عمل داری تھی راجہ  گلگت جس کی کوھستان تک عملداری تھی۔اپنی ہی انفرادی مفاداتی بادشاہت کے لئے  بلی چڑھا دی۔پھر کیا ہوا، چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا دردستان بٹ گیا۔۔پاکستان بننے سے پہلے انیس سو پانچ میں چترال کو دردستان سے الگ کیا گیا۔۔اس پہ بس نہیں ہوا    پاکستان بننے کے بعد انیس سو پچاس میں کوھستان کو  دردستان(گلگت) سے الگ کیا گیا۔ اور پھر انیس سو باسٹھ میں سینو پاک معاہدے کے تحت  کچھ حصہ چین کو عطا ہوا کہ اس شرط کے ساتھ کہ کشمیر مسلہ ہونے کے بعد دوبارہ اس معاہدے پر نظر ثانی ہوگی۔دردستان اور بلورستان کا کچھ ہی عرصہ ساتھ رہا۔ دردستان مہارجہ کشمیر کی عملداری میں آنے سے پہلے   بلورستان  جو سارا کا سارا کشمیر  ہی تھابرصغیر کی تقسیم کے بعد اس کے کچھ حصے کارگل لداخ ہندوستان کے حصے بن گئے۔اور پھر۔ بس اب ہم تو  جی بئنز ہیں۔ بس جی ۔جی  بیئنز۔ ہماری الگ پہچان ہماری الگ شناخت۔۔وہ بھی اقوام متحدہ کے پاس گروی  اگر اس نے ہمیں جی بیئنز مان لیا  توٹھیک  ورنہ تو موجودہ صورت حال میں   جغرافیائی لحاظ سے ہم کشمیر   ہی کہلاتے ہیں  یعنی ریاست جموں کشمیر۔۔ نہیں مانتے ہیں اس کو بھی۔ چلیں جی کوئی بات نہیں نہ مانیں۔۔  ماضی میں ہمارے نہ ماننے سے کیا ہوا تو اب ہوگا۔۔کس نے پوچھا تھا ہم سے جب  گلگت سے چترال کو الگ کیا گیا تھا۔کس نے پوچھا تھا ہم سے جب کوھستان کو گلگت سے الگ کیا گیا تھا ۔۔کس نے پوچھا تھا ہم سے جب  اس ریاست میں میجر برون نے جھنڈا لہرایا تھا۔۔کس نے پوچھا تھا ہم سے جب چائینا اور پاک کا معاہدہ ہوا تھا۔۔۔کچھ کیا تھا ہم نے۔۔ذرا بتائیں تو سہی۔۔کچھ کیا تھا۔جی ہاں کیا تھا۔۔ہم نے یہی کیا تھا  ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی تھی۔۔ایک دوسرے کو مروانے کے لئے غیروں سے امداد طلب کی تھی۔ قومیت  مذہب کے نام پر  قتل و غارت گری کی تھی ۔اور بھی بہت ساری چیزیں  جن کو  میں گننا نہیں چاہتا۔۔صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ  ہم حقیقت سے فرار چاہتے ہیں  اور سوتے میں خواب دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔۔ اور اسی خوُ کے باعث دور جدید کی حقیقت مسلہ کشمیر اور گلگت بلتستان سے اس کا تعلق اور  اس کی افادیت سے انکار کر رہے ہیں ۔۔۔ماضی کا دردستان بلورستاں اب  ریاست جموں و کشمیر تنازعے  کا حصہ۔مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے کہ میں  اب شندور پر اپنا حق کیسے جتائوں۔شندور  جو ماضی قریب تک گلگت انتظامیہ کے زیر نگراں تھا۔۔جہاں انیس سو پینتیس میں گلگت کے برٹش پولیٹیکل ایجنٹ ای ایچ کاب صاحب نے چاندنی رات میں پولو کھیلنے کے لئے نیت قبول کاکا خیل جو غذر میں پیدا ہوئے تھے اور یہی کے باشندے تھے اس سے  پولو گرونڈ بنوایا اور اسی میں چاند کی روشنی میں پولو کھیلا۔ جی ہاں مس جنالی نام تھا اس پولو گرونڈ کا۔مس جنالی  کے علاوہ بھی  پولو گرونڈ بنے ۔ اسی جگہ  پولیٹکل ایجنٹ  گلگت ای ایچ کاب نے  چترال کی ٹیم کو بلایا اور پہلی بار یہاں گلگت اور چترال کی ٹیموں میں مقابلہ ہوا۔۔۔اس کے بعد یہاں کوہ غذر کے گورنر جس کی حکمرانی چترال تک پھیلی ہوئی تھی  پولو کے  علاقائی مقابلے منعقد کروائے۔۔۔کیا یہ تاریخی شواہد کافی نہیں   ۔آگے چلتے ہیں اسی گرونڈ میں  گلگت سکاوٹس نے پہلی بار  انیس سو چھیاسٹھ سے باقائدہ جشن شندور کا آغاز کروایا اور شندور میں اپنی چوکیاں قائم رکھی تھی۔مگر ہوا کیا  ،اس کو جی بی سکاوٹس کی ناہلی  کہیں یا ہماری غفلت  یا   رسائی    نہ ہونے کے باعث  اس قطعہ اراضی  جو کوہ  غذر کی چراگاہ تھی    او ر  شندور  زمین کی افادیت کو دیکھ کر  خیبر پختونخواہ (کے پی کے) صوبائی حکومت  نے زبردستی  شندور پر قبضہ کیا   اور اسے ہتھیا  لیا ۔اور اس پہ ستم  یہ کہ جی بی سکاوٹس کو دھکیلتے ہوئےاسے   لنگر کے مقام تک محدود کر دیا۔۔۔کچھ احتجاج ہوا ۔۔۔نہیں۔۔۔۔کیوں   ہماری اپنی ایک شناخت ہے ہماری اپنی ایک الگ پہچان ہے،   جی ہاں  ہم تو جی بینئنز ہیں۔۔ وہ بھی اقوام متحدہ کے پاس گروی۔۔اور قرضے پر پاکستان  کے پاس ۔اور قرض چکائے بغیر جان خلاصی مشکل ۔کہو یہ بھی جھوٹ ہے۔۔جھوٹ ہے نا۔۔۔تو میرے بھائیو کہنا یہ ہے جس کو ہم جھوٹ سمجھتے  آئےہیں ۔۔وہی تو  ایک سچ ہے

Short URL: http://tinyurl.com/gorkp7s
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *