ایکٹ 1947اور آزاد کشمیر ۔۔۔۔ تحریر :سلمان رحمانی،کراچی

Salman Rehmani
Print Friendly, PDF & Email

آئین کسی بھی قوم کی رہنمائی،رہبری کے لئے ترتیب دیا جاتا ہے،ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اسے بلاشرکت غیرے ہر فرد،ادارے پر نفاذ کو یقینی بنائے،اداروں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسے اپنے سمیت تمام متعلقین پر نافذ عمل کریں،شہریوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کی قانون سازی کے لئے قابل۔دیانت دار افراد کو اس کے قانون ساز اداروں میں منتخب کرکے روانہ کریں،عوام کے ووٹوں کی طاقت سے معرض وجود میں آئی ہوئی قانون ساز اسمبلی،پارلیمنٹ اس کے ڈھانچے میں بدلتے حالات اور صورت حال کے مطابق تبدیلی کرسکتی ہے جس کے لئے دو تہائی سے زائد کی اکثریت کا متفق ہونا ضروری ہوتا ہے،یہ سیدھی سادی تشریح ہے آئین کی۔آزاد کشمیر کے عبوری آئین کا تجزیاتی جائزہ لیا جائے تو کئی طرح کے ابہام ملتے ہیں ایکٹ 1974 پر بات کرنا کوئی خلاف قانون بات نہیں،نہ ہی کوئی توہین کا قانون لاگو ہوتا ہے،ہر باشعور سماج میں بسنے والے شہریوں کا یہ بنیادی حق بنتا ہے کہ وہ قانون کے اندر موجود سقم یا خرابیوں کو کھل کر بیان کریں،اس کے حوالے سے تنقیدی عمل مربوط کریں اور ساتھ ساتھ اس کے متبادل تجاویز بھی دیں،یہ ایک المیہ ہوگا جب ہم سائنسی سوچ کو ایک طرف رکھ کر محض لگی لپٹی باتیں کرتے رہیں،قانون میں تبدیلی کے لئے ضروری ہے کہ ہم قانون کا مطالعہ کرتے ہوئے اس میں شامل ایسی دفعات کو مرکز موضوع بنائیں جنھیں ہم بنیادی شہری حقوق کے خلاف سمجھتے ہیں، اس نام نہاد ایکٹ کی ایک شق بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا موجب ہے، جس کے مطابق اگر آپ ریاست جموں کشمیر کی وحدت کی بحالی اور اس کے عوام کے حق سرداری کی بات کرتے ہوئے کشمیر کے پاکستان کے ساتھ مجوزہ الحاق کو نہیں مانتے تو آپ انتخابات میں حصہ لینا تو درکنار کاغذات نامزدگی تک نہیں داخل کرواسکتے ،ایسا نہ صرف عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے بلکہ بنیادی شہری حقوق کی پامالی کے زمرے میں آتا ہے اورعوام کی بنیادی سیاسی ضرورتوں پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف بھی ہے۔
انسانی ضمیر،سوچ اور شعور کسی کے باجگزار یا مزراعے نہیں کہ انھیں دبا کر شہری حقوق کا گلہ گھونٹ دیا جائے۔
جون2011 میں شائع ہونے والی رپورٹ اس حوالے سے بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے گو کہ اس رپورٹ کو مرتب کرنے والے صاحبان میں سابقہ حکومتوں میں شامل لوگ بھی ہیں مگر پھر بھی اس رپورٹ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایکٹ74میں بے شمار آئینی اور قانونی سقم ایسے ہیں جنھیں ساتھ رکھ کر ایک وسیع البنیاد،ہمہ جہتی یا قومی نصب العین ترتیب نہیں دیا جاسکتا۔
بہرکیف اس مختصر قلمی تسلسل کو یہاں پر نہیں رکنا چاہیے،لکھنے اور سوچنے کا عمل لامحدود اور وسیع ہے،میں ہمیشہ نئے امکانات اور زاویوں پر اپنی نظر رکھتا ہوں اور انھیں اپنی نوٹ بک میں محفوظ کرلیتا ہوں۔ہمارے سامنے بے شمار تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں،ہر دم نئے واقعات کا ظہور ہورہا ہے،نئے ہیرو اور ولن پیدا ہورہے ہیں، ہر روز یورو اور پانڈو کا معرکہ ہوتا ہے،مگر مجھے اس امر کا باخوبی علم ہے کہ دو بھینسوں کی لڑائی میں تباہی ہمیشہ جھاڑیوں کی ہوتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام اپنے شہری حقوق کے حوالے سے شعور میں اضافہ کریں۔
کشمیرمیں حکومتی تبدیلی پاکستان کی حکومتوں کی تبدیلی سے جڑی ہوئی ملتی ہے مگرحالیہ عشرے میں یہ پالیسی اسلام آباد کے بابووں نے تبدیل کردی ہے کیونکہ پالیسی سازوں کو مہرے دوسری مارکیٹوں میں ملنا شروع ہوگئے ہیں،اب جمہوریت کے نام پر ان ہاس یااندرون خانہ تبدیلی کا داؤ آزمایا گیا کیونکہ حکمت عملی کے لحاظ سے یہی بہتر تھا ،اس کی بدترین شکل ہم نے سردار عتیق احمد خان کے پچھلے دور میں دیکھی تھی جب ایک سال سے کم عرصے میں شاید چار وزر اء اعظم تبدیل ہوئے،یہی دا ؤراجہ فاروق حیدرخان صاحب کے دور میں آزمایا گیا،اس سوال کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم تاریخ کو دوبارہ مطالعہ کریں۔ اس کی جدید شاخیں 1974 کے ایکٹ کی طرف جا کر ملتی ہیں،برطانیہ،آزادکشمیر اور دیگر ممالک میں بسنے والے کشمیریوں کی ایک بڑی اکثریت نے آزاد کشمیر کے اس آئین کا نام تو ضرور سنا ہوگا مگر اس کا مطالعہ نہیں کیا ہوگا ، اس ایکٹ کی افادیت،نقصانات،عمل پزیری،اور قانونی حیثیت سے سنجیدہ بحث کی جائے تو یہ ایکٹ ایک دستاویز غلامی ہے یا پھر بنیادی جمہوریت کی طرف ایک قدم ، آزادکشمیر کے آئین یا جسے ایکٹ 1974 کہا جاتا ہے پر تبصرہ یا بحث کرنے سے ما قبل ضروری ہے کہ ہم ریاست اورمملکت کے دومیان فرق کو واضع کریں،ریاست اور مملکت دو مختلف چیزیں ہیں اور سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے اکثر نام نہاد سیاسی ساہوکار ریاست اور مملکت کے شہریت،قانونی اور عالمی فرق کو سمجھے بغیر دونوں چیزوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے پھرتے ہیں جس کا نتیجہ کسی بھی صورت میں قوم کی بھلائی کی شکل میں نہیں نکل سکتا، تاریخ میں بار بار ایسا ہوا ہے جب چند لیڈروں کی ناسمجھی ،سیاسی یا آئینی ناپختگی کی بدولت قوموں کا بڑا نقصان ہوا ہے۔
ہمارے نام نہاد آزادکشمیر میں سیاست کاری کرنے والے اس بات سے بالکل نابلد ہیں کہ ریاست اور مملکت میں کیا فرق ہوتا ہے؟ مثال کے طور آپ میرپور ،مظفرآباد ،راولاکوٹ یا کسی بھی ضلع میں انٹر نیشنل ائیررپورٹ مانگتے ہیں ؟ کوئی شک نہیں کہ یہ ہمارا بنیادی حق ہے کیونکہ پاکستان کی فضائی کمپنی آپ کے دم قدم سے چل رہی ہے،مگر کیا آپ اس نکتے کو سمجھتے ہیں کہ وہ ائیر رپورٹ جو آپ کا پیدائشی حق بنتا ہے آپ کو موجودہ ریاستی پوزیشن میں کبھی نہیں مل سکے گا؟ اور اگر ملا بھی تو اس کا سٹیٹس کس نوعیت کا ہوگا؟ اور کیااسے پرائیوٹ سیکٹر (بلاواسطہ )کی انوسٹمنٹ سے بنوایا جائے گا،ریاست اس میں اپنا پیسہ نہیں دے سکے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جسے آپ ریاست اور مملکت کے درمیان خط امتیاز کھینچ کر نہیں سمجھیں گے آپ جتنا مرضی اپنے آپ کو دانشور کہہ لیں ،اسے سمجھنا آپ کے لئے مشکل ہوگا۔دوسرا پوائنٹ یہ بھی ذہن میں رکھ لیں منگلاڈیم کی رائیلٹی،مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ کتنی رقم بنتی ہے؟ اور نہ میں اس کے سکہ نانک شاہی کی گنتی کرنا چاہتا ہوں مگر آپ 1966/67 سے منگلا کے پیداواری عمل کے آغاز سے ہی اس کا حساب لگا ئیں تو یہ رقم اربوں میں جاکر بنتی ہے،یہ ریاستی عوام کا پیسہ ہے،اس پر آپ باشندگان ریاست کا پہلاحق ہے مگر کیا آج تک آپ کو ایک پائی بھی وصول ہوئی ہے؟ آگے چلتے ہیں،آپ ریاستی اداروں پر قابض لینٹ آفیسروں کی اصطلاح سے شاید کسی حد تک واقفیت رکھتے ہوں جیسا کہ آپ کے نام نہاد آزاد کشمیر کا پولیس ڈی آئی جی۔چیف سیکرٹری،فنانس سیکرٹری،ہوم سیکرٹری،ہیلتھ سیکرٹری،اکاوٹنٹ جنرل اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور دوسرے عہدے لینٹ آفیسران کو دئیے جاتے ہیں اور یہ سبھی کے سبھی پاکستانی باشندے ہوتے ہیں کیا مجال ہے کہ کوئی ریاستی باشندہ اس طرف نظر مار کر دکھائے؟
ریاست جموں کشمیر کے باشندے بھی اس محکمے کے ساتھ کام کرتے ہیں ان میں کوئی ان کا کار ڈرائیور ہوگا،تو کوئی خانساماں،کوئی صفائی کرنے والا ہوگا تو کوئی چائے والا،یہ پوسٹیں آپ کشمیریوں کے لئے مختص ہیں۔میں چاہتا ہوں کہ آئینی اور قانونی موشگافیوں کا پنڈورا بکس کھولنے سے پہلے ان چند چیزوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرواسکوں تاکہ آپ میرے الفاظ کے پس منظر سے آگاہ ہوسکیں اور ریاست اور مملکت کے فرق،اس کی نوعیتوں،اس کے تعلقات کار کا جائزہ لے سکیں۔

Short URL: http://tinyurl.com/zek2lgo
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *