کچھ نہ دینے سے کچھ دینا بہتر ہے ۔۔۔۔ تحریر:نائلہ وحید اکبر

Naila Waheed Akbar
Print Friendly, PDF & Email

پاکستان میں غربت بے شمار ہے ،میں روز سفر پر جاتی ہوں ،اور روز بہت سے فقیروں کو دیکھتی ہوں ،بہت سے پیارے پیارے معصوم سے بچے جو دیکھنے میں تو ظاہراً بہت گندے لگتے ہیں ،مگر ان کی آنکھوں میں بہت سے خواب ہوتے ہیں ،میری ذات مجھ سے بے پناہ سوال کرتی ہے ،جب میں ان بے بس بچوں کع دیکھتی ہوں ،کہ ہم تو زندگی بہت بہتر گزار رہے ہیں ،مگر وہ اپنی زندگی کیسے گزارتے ہوں گے ۔۔۔؟ ایک پشیمانی سی ہوتی ہے ،کہ میں کیوں ان کے لئے کچھ نہیں کر سکتی،میں روزانہ کی طرح اس دن بھی سفرمیں تھی،اور روزانہ کی طرح ایک سٹاپ پر گاڑی رکی،میں وہاں کچھ دنوں سے ایک بھکاری بچی کو دیکھ رہی تھی،اور وہ گاڑی کے پاس آئی،اور سب مسفروں سے باری باری مانگنے لگی،جب وہ بھکاری بچی میرے پاس آئی تو بولی’’دے نااللہ کے نام پر‘‘۔
میں نے اس کی بات سن کر اپنے بستے میں جھانک کر دیکھا ،تو میرے پاس واپسی کے کرائے کے علاوہ ایک پیسہ بھی نہ تھا میں بہت شرمندگی سے بولی ’’بیٹی میرے پاس نہیں ہے ‘‘اور وہ یہ سن کر ااگے مسافروں کی طرف بڑھی،اور میں نے سوچا ،چاہے میرے پاس اسکو دینے کو کچھ نہیں ،مگر میں اسے عزت ،پیاراور ایک دوستی کا رشتہ دے ہی سکتی ہوں نا ۔۔۔؟میں نے اسے آواز دی وہ میرے پاس آئی ،اور میں نے کہا ’’کیا مجھ سے دوستی کرو گی۔۔۔۔۔؟‘‘۔
اوروہ میری یہ بات سن کر اس قدر حیران تھی کہ جس طرح اس کی زندگی میں ایسا کوئی رشتہ ہی نہ ہو ،اور ایسا سوال جیسے اس سے کسی نے پہلی بار کیا ہو ،میں نے کہا ، کیا ہوا ۔۔۔۔؟بتاؤ نا کہ دوستی کرو گی مجھ سے ۔۔۔۔۔؟وہ بہت ہی مسکرا کے بولی ’’میں باجی تیری سہیلی،تیری سہیلی،ہاں ٹھیک ہے ‘‘میں نے پوچھا ،اچھا بتاؤ کیا کبھی تمہارا اسکول پڑھنے کو دل نہیں کیا ۔۔۔۔؟ اور اس کی آنکھیں میری بات سن کر بھر آئیں،مگر اتنی مضبوط تھی کہ اپنی آنکھ سے ایک بھی آنسوں نہیں گرنے دیا ،بات کرتے ہوئے اس کی آواز لرز رہی تھی ، اس نے کہا وہاں دیکھو ۔۔۔۔۔ایک جانب اس نے اشارہ کر کے کہا ،میرے بہن بھائی ہیں ،میں ان سے پڑھ لیتی ہوں ،میں اس سے کہا کیا مطلب ۔۔۔۔؟۔
اس نے کہا ’’باجی وہ میری بہن اور بھائی ہے ،وہاسکول جاتے ہیں ، جب وہ واپس آتے ہیں تو جو انہوں نے پڑھا ہوتا ہے وہ میں اس سے پڑھ لیتی ہوں ،میں نے کہا ’’اچھا۔۔۔۔۔‘‘وقت تھوڑا سا تھا اور اتنی دیر میں مسافر بھی آکر بیٹھ گئے تھے ،میں نے کہا ’’اچھا یہ بتاؤ کہ جب تمہارے بہن ،بھائی پڑھنے جاتے ہیں تو تم کیوں نہیں جاتی ہو ۔۔۔۔؟اس نے کہا ۔۔۔’’باجی ہم سب مانگنے آتے ہیں ،اماں ،ابا،دادا،دادی یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں بھر آئی تھیں ،اور اس وقت اسکا صبر تھا جو اس کو مضبوط رکھے ہوئے تھا ،میں ااج بھی اس بچی کی ہمت کو سلام کرتی ہوں ،جو اتنا درد دل میں رکھے ہوئے تھی ،میں نے کہا اچھا ’’بھوک لگی ہے آپ کو ۔۔۔۔؟‘‘اس نے کہا ’’باجی بہت بھوک لگی ہے دیکھ اتنی بھوک لگی ہے کہ میرے پیٹ سے آوازیں آرہی ہیں ‘‘۔میں ہنسنے لگی ،میرے پاس ایک چاکلیٹ تھی ،میں نے وہ اس بچی کو دے دی،اس کی بے پناہ بھوک دیکھ کر میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے ، میں نے کہا اچھا چلو اب جاؤ ،گاڑی چلنے واالی ہے ،وہ بولی اچھا۔۔۔۔۔۔اور دو قدم آگے بڑھی ،مگرپھر دو قدم واپس آئی،اور بولی باجی یہ سچی بات ہے کہ تو میری سہیلی ہے ۔۔۔۔۔۔؟
میں بولی ۔۔۔۔۔ہاں سچی بات ہے ۔۔۔۔۔کہ تو میری سہیلی ہے ، میرے آنسو صاف کئے اور بوسہ لیا پھر چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔گاڑی تو چل پڑی تھی مگر میں اس جگہ پر رک ہی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ وقت تھم سا گیا ہے ،اور اس بچی کی باتیں ۔۔۔۔۔۔ اس بچی کی آنکھیں ۔۔۔۔اس بچی کا پیار۔۔۔۔۔باربار میری آنکھوں کے سامنے آرہا تھا ،اس بچی کی ہمت اس کی عمر سے کہیں زیادہ تھی ۔۔۔۔میں سلام کرتی ہوں اس بچی کی ہمت کو ۔۔۔۔۔۔مین ںے اس بچی سے بہت سیکھا ،غربت اور کچھ نہ دے پائے مگرحوصلہ اور ہمت دے دیتی ہے ،غربت انسان کو حالات سے لڑنا سکھا دیتی ہے ۔۔۔۔
اہم بات !
کسی کو اور کچھ نہیں دے سکتے تو دو لمحے کی خوشی دے دو،کیونکہ کچھ نہ دینے سے کچھ دینا بہتر ہے ۔

Short URL: http://tinyurl.com/zy7ltct
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *