کرۂ ارض پر موجود 40 فیصد حشرات کے معدوم ہونے کا خطرہ

Print Friendly, PDF & Email

حشرات الارض کی تعداد پر ہونے والی ایک سائنسی تحقیقی کے مطابق دنیا بھر میں ان کی 40 فیصد انواع کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔

اس تحقیق نے خبردار کیا ہے کہ پرندوں، رینگنے والے اور ممالیہ جانوروں کی نسبت مکھیاں، چیونٹیاں اور بھونرے آٹھ فیصد زیادہ تیزی سے معدوم ہو رہے ہیں۔

تاہم محققین کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کے کچھ انواع جیسا کہ گھروں میں پائے جانے والی مکھیوں اور لال بیگوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔

بہت زیادہ کاشت کاری، کیڑے مار زرعی ادویات کا استعمال اور موسمیاتی تبدیلیاں حشرات الارض کی تعداد میں کمی کی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔

حشرات کرۂ ارض پر پائے جانے والی مخلوقات کا ایک بڑا حصہ ہیں اور انسانوں سمیت دوسری مخلوقات کو بہت سے اہم فائدے دیتے ہیں۔

یہ پرندوں، چمگادڑوں اور چھوٹے ممالیہ جانوروں کے لیے خوراک کا کام دیتے ہیں، دنیا میں 75 فیصد فصلوں کی تخم کاری کا باعث بنتے ہیں، مٹی کو زرخیز بناتے ہیں اور اس میں موجود ضرررساں کیڑوں کی تعداد کنٹرول میں رکھتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں ہونے والی مختلف تحقیقات یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ خاص کر ترقی یافتہ ممالک میں حشرات کی کچھ انفرادی اقسام جیسا کہ مکھیاں اس معدومی کا زیادہ شکار ہیں۔

تاہم زیر بحث مقالہ اس معاملے پر زیادہ روشنی ڈالتا ہے۔

‘بائیولوجیکل کنزرویشن’ نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں گزشتہ 13 برسوں کے دوران پوری دنیا میں اس حوالے سے کیے گئے 73 تحقیقی مقالوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

محققین کو معلوم ہوا ہے کہ حشرات الارض کمی کا عمل اسی طرح سے جاری رہا تو آئندہ چند دہائیوں میں 40 فیصد معدوم ہو جائیں گے۔ ان کے مطابق دنیا میں پائے جانے والے ایک تہائی حشرات ‘خطرے’ میں ہیں۔

محققین کی ٹیم کے سربراہ اور یونیورسٹی آف سڈنی کے ڈاکٹر فرانسیسکو سانچیز بیشیو نے بی بی سی کو بتایا ‘اس کی سب سے بڑی وجہ (حشرات کے) قیام اور افزائش کے ٹھکانوں کا خاتمہ ہے اور اس کی وجہ زراعت کے موجودہ طریقہ کار، جنگلوں کی کٹائی اور شہروں میں بڑھتی ہوئی آباد کاری ہے۔’

‘دوسرا زراعت میں کیمیکل سے بھرپور کیڑے مار ادویات اور مصنوعی کھادوں کا بڑھتا ہوا استعمال، تیسرا چند حیاتیاتی عناصر جیسا کہ بیماری پھیلانے والے حملہ آور جراثیم اور چوتھا موسمیاتی تبدیلیاں خاص کر منطقہ حارہ (ٹراپیکل) میں جہاں ان کا واضح اثر ہے۔کچھ دیگر ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ تحقیق ‘سنجیدگی سے غور کرنے کی متقاضی’ ہے۔

برطانیہ میں بگ لائف کیمپین کے ماٹ شارڈلو کہتے ہیں ‘یہ صرف مکھیوں، تخم کاری یا ہماری خوراک سے متعلق نہیں ہے۔ گوبر میں پائے جانے والے حشرات جو کہ اس کی ری سائیکلنگ کا کام کرتے ہیں یا بڑی مکھیاں جو دریاؤں اور تالابوں میں اپنی زندگی شروع کرتی ہیں وہ بھی معدومیت کا شکار ہو رہی ہیں۔’

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ واضح ہے کہ کرۂ ارض کی حیاتیاتی زندگی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور ان نقصان دہ افعال کو روکنے کے لیے پر زور اور عالمگیر سطح پر کوششوں کی ضرورت ہے۔ حشرات کی آہستہ آہستہ معدومیت کو جاری رہنے دینا کوئی عقلی انتخاب نہ ہو گا۔’

نقصان دہ حشرات میں اضافہ
یہ مقالہ بتاتا ہے کہ اگرچہ حشرات کی بہت سی اقسام تنزلی کا شکار ہیں تاہم ان کی کچھ اقسام اس قابل ہیں کہ وہ تبدیل ہوتی صورتحال کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیں۔

یونیورسٹی آف سسیکس کے پروفیسر ڈیو گولسن کہتے ہیں ‘گرم مرطوب آب و ہوا کی وجہ سے تیزی سے پھلنے پھولنے والے ضرر رساں حشرات بڑھیں گے کیوں کہ ان کے قدرتی دشمن کیڑے ختم ہو جائیں گے۔

(بشکریہ بی بی سی اُردو)

Short URL: http://tinyurl.com/y523gm2f
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *