راکاپوشی پہاڑ ۔ جمال خدا

Hadayat Ullah Akhtar
Print Friendly, PDF & Email

کیا  کبھی ہم نے خزاں اور موسم سرما کی خوبصورتی سے لطف اٹھانے کے ساتھ اللہ کو اپنے قریب پایا  ہے؟ کیا اس کے وجود ،اس کی بڑائی ،اس کی حکمت ،اس کی مصوری یا اس کی واحدانیت قل ہو اللہ احد اور ولم یکن لہ کفواحد  کو  سمجھنے  کی  سعی کی ہے؟ ۔خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اللہ کو روز دیکھتے ہیں اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے چلتے پھرتے اور پھر اس کی دی ہوئی نعمتوں سے خود بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس سے دوسروں کو بھی نفع پہنچاتے ہیں ۔اللہ نے انسانوں کے لیئے جو ہدایت دینی تھی  وہ اس کے کلام میں درج ہے  جسے انہوں نے اپنے نبی اور رسول کے ذریعے دنیا کے تمام انسانوں  کے لیئے  پہنچا دیا ہے  ۔اب  یہ انسانوں پہ منحصر ہے کہ وہ  ان ابواب  کے کتنے اسباق سے اپنا سبق یاد کرکے  اپنی دنیا اور آنے والی زندگی   کو سنوارنے  میں کتنا  فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ کسی کو سمجھانا  اور   اپنے  کو کُل  جاننا   خاکسار   گہنگار کی کیا مجال  ایک  عام انسان   ہونے کے ناطے   اپنی کم مائیگی  کا احساس  ہمیشہ  رہتا ہے  ۔ لیکن   اللہ کا یہ خاص کرم ہے  کہ کچھ سبق  اکثر موقعوں پر  یاد آجاتے ہیں ۔ راکا پوشی ویو پوئنٹ سے راکا پوشی پہاڑ   کے  سرمائی  نظارے نے مجھے اللہ کے اور قریب کر دیا۔گرمیوں کے موسم میں جہاں تل دھرنے کو  جگہ نہیں  ملتی  ہے  وہاں اس کڑاکے کی سردی میں  ہوٹل ویران  اور راکا پوشی    برف کی چادرر   اوڑھے ہی جا رہا ہے ۔ایسے موسم میں  کسی کی بھی نظر اس پر  پڑے تو  دل سے اللہ  کی حمد  بیان  کرنے  کے سوا   اور  کیا  باقی بچتا ہے  واہ رے اللہ تیری قدرت  تیری حکمت  تو مردہ کرتا ہے اور تو زندہ کرتا ہے ۔بدیع السموات والارض ۔  نرالی  شان اور  تیری بڑائی ۔اسی آواز کے ساتھ  ہی انسان کا دل پُر سکون ہوجاتا ہے بلکل اسی طرح  جس طرح   راکا پوشی  اپنے اوپر    ملین اور  ٹرلئن برف    رکھنے کے باوجود   مزید    برف    ہنسی خوشی   قبول کر رہا ہے

 حالات اور  زمانے کے ستم   بھی  انسان کو   کبھی اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار  کر دیتے ہیں ۔ایسے میں نا امیدی  انسان کو   اندھیرے گڑھوں کی طرف  دھکیل دیتی ہے ۔ایسا کیوں  ہو جاتا ہے؟  وجوہا ت  کوئی  بڑی نہیں ہیں   چھوٹی سی وجہ    ہے جس کا  ہمیں  معلوم  نہیں ۔اور انسان  کتنا  بے بس اور مجبور  کہ معمولی سی  وجہ  بھی اسے آج تک  معلوم    نہ ہو سکی ۔  یہ معمولی  وجہ کیا ہے ؟  جس باعث  ہم ٹوٹ پھوٹ اور پریشانی میں  چلے جاتے ہیں  ۔ بات اتنی سی ہے کہ ہم اب تک صرف یہ جان  سکے ہیں کہ     اللہ   ہمیں  دیکھ رہا ہے  اور جس دن  ہم اللہ کو دیکھنا شروع کر دینگے   اورجب   بدیع السموات والارض  ہمارے دلوں میں  گھر  کرلے گا  اس دن کے بعد   سے ہماری ساری پریشانیاں  ختم  ہونگی ۔بقول مرزہ غالب

بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

یہ ایک حقیقت اور سچ ہے کہ  دنیا میں کوئی کام  بھی آسان نہیں  اور آدمی بھی یکساں نہیں ہوتے اور نہ ہر آدمی انسان ہوتا ہے  جیسے ہر کام آسان نہیں  آدمی کا انسان بننا بھی  مشکل ہے۔آدمی  سے انسان  بننے  کے لیئے ضروری  ہے کہ  اس کے اندرسوچ ،غور و فکر  اور تدبر  کی صلاحیت  موجود ہو ۔جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اور اس کائینات  کی  بنی ہوئی چیزوں کے تخلیق کار  کی حکمت  کو جانا   گویا اس نے  رب کو ڈھونڈا  اور اپنے  کو انسان کے روپ میں پایا۔آج میرے  الفاظ کے ساتھ  غالب بھی غالب آگئے ہیں اور غالب  ہی کا کہنا ہے کہ 

نہ تھا کچھ تو خدا تھا ۔کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

  نہ زمانہ تھا  نہ کائینات تھی  کوئی مقام نہیں تھا  نہ سورج نہ چاند  نہ زمین  نہ آسمان  نہ پہاڑ  نہ سمند ر    اس وقت بھی  یہی ایک البدیع  موجود تھا ۔جس نے جوڑا ۔ کس کو؟    جی انسان کو  ۔کیوں جوڑا  کس لیئے جوڑا  ؟ جی اس کی چاہت۔بس انسان کا ذہن  اس کے تخیل کے ساتھ ہو تو آدمی سے انسان بننا  کوئی مشکل  بھی  نہیں  مگر اس میں محنت  درکار ہے  اور غور اور تدبر   ہی سے   انسانوں  کے اندر  یہ محنت  سرائیت کر جائیگی  اور کسی چیز سے نہیں ۔یہ کفیت جب آدمی کے اوپر  طاری ہو جاتی  ہے تو ایسے میں اس کی یکتائی اور  اس کی  یا حی یا قیوم اور  اس کا ہم عصر نہ ہونا  کی بات   پر یقین اور عزم   سب سے بڑی عبادت  کہلاتی ہے ۔جب  انسان اللہ کی اس وسیع کائینات  کی تخلیق  ، موسموں  کے اتار  چڑھائو  اور   بدلتے رتوں  خزاں کے بعد  بہار  کے عمل  کو جان جاتا ہے تو انسان نا امیدی  سے نکل آتا ہے   اس کی ایک  نئی زندگی شروع  ہو جاتی ہے۔یہی بات جاننے  والی  ہے  کہ یہ ٹوٹ پھوٹ یہ بننا بگڑنا  عروج و زوال سب اسی کے ہی  حکمتیں ہیں  جو “البدیع “ہے۔جب   کچھ نہ تھا  تب بھی اسی  نے  بغیر کسی ماڈل  اور نقشے  سے کائینات  اور انسان  بنایا   ۔اور  اس کائینات  کو رواں دواں     رکھنے  کے لیئے  اپنا ایک نظام مقرر کیا ہے ۔ جس میں رد و بدل     صرف  اسی  کے حکم   سے ہی  ممکن ہے   جو کُن فیکون  ہے   اور جب  اللہ چاہتا ہے   تو کون ہے جو    اسے    اپنے    نقشے  میں  کسی رد و بدل سے  روک  سکے   یا  اس کے نطام  میں خلل پیدا کر  سکے ۔ ۔دنیا کی  یہ ویرانیاں یہ ٹوٹ پھوٹ  سب عارضی ہیں یہ نظام قدرت ہے  اور اللہ  اپنے نظام سے کبھی غافل نہیں  نہ اسے اونگھ آتی ہے  اور نہ ہی  وہ کسی سے جنا ہے اور نہ  اس سے کوئی جنا ہے  اس کا کوئی ہم عصر نہیں ۔جہاں وہ  البدیع  ہے وہاں وہ  دو جہانوں  کل عالم کا سب سے بڑا مصور بھی  اور اس  کے بنائے ہوئے   نقشوں میں رد و بدل  کا اختیار  نہ کسی کو پہلے تھا اور نہ ہے  اور نہ  رہیگا ۔کورونا  جیسے   وبائی امراض ہوں  یا   سرما   میں راکا پوشی   کی  ویرانیاں  یہ سب  عارضی ہیں اسی طرح   جیسے  پہلے  کورونا  سے  زیادہ  مہلک    وبائی  امراض     پھیلے      پھر  ختم  یا کم ہوئے  ۔اسی طرح راکا پوشی  کی یہ سرمائی   ویرانیاں     ہوٹلوں   کی بھی  موسم  بہار کے آتے ہی لوٹ آئے گی  ۔ ہمارے دلی کیفیات کا بھی یہی حال ہے  دنیاوی ٹوٹ پھوٹ  کا  شکار  تو ہم ضرور ہونگے  اور  یہ ٹوٹ پھوٹ  ہماری بہتری  کے لیئے ہی  ہے  ۔  آج اگر ہمارے حالات  اچھے نہیں اور ہم ٹوٹ پھوٹ اور نا امیدی کا شکار ہیں   تو کیا معلوم  کل  ہمیں کوئی  نیا  روپ ملنے  والا  ہو   جو  آج کے روپ سے  مختلف اور اچھا ہو ۔ اللہ  کو  صحیح معنوں میں  پہچاننےکے ساتھ  انسانی تخلیق   کے مقصد کو جاننے   کی  ضرورت ہی  ہمیں  ہر قسم کے ٹوٹ پھوٹ  سے  بچا سکتی ہے   ۔اور اس ٹوٹ  پھوٹ  میں دودھ کی ملاوٹ سے لیکر  بڑے بڑے جرائم   سب شامل ہیں ۔ جن کا خاتمہ      صرف اور صرف   اس وقت ہی ممکن  ہے کہ   ہم سب کو  اس علم کے  معلوم  ہونے کے بعد کہ ” اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے”   کے   علاو ہ     اس  بات کا بھی ادراک  ہونا چاہئے   کہ جہاں ہمیں اللہ دیکھ رہا ہے  وہاں   انسان یا آدمی کو بھی اللہ کو دیکھنے  کی کوشش اور سعی کرنی چاہئے ۔نہیں تو  اللہ   ہمیں دیکھ بھی رہا ہے اور  وہ اپنے کام میں مصروف  بھی ہے ۔اپنے نظام  کے خلل کو   وہ کسی صورت   تلپٹ    ہونے نہیں دیتا      اور  جب کبھی حضرت  انسان     خود خدا بننے کی کوشش کرتا ہے  تو   وہ    بدیع السموات والارض  اپنی بے آواز لاٹھی گھمانے سے  پرہیز نہیں  کرتا۔

دنیا میں  رونما  ہونے والے  واقعات چاہئیں وہ چھوٹے ہو ں  یا     بڑے      سب  اپنے اندر  انسانوں کے لیئے  ایک پیغام سموئے ہوئے ہوتے ہیں    ۔کورونا    کی  وبا  ہو  یا   راکا پوشی ہوٹلوں  کی  موسم  سرما  کی  ویرانی  ۔اس کے باوجود           جب   میں   اپنے  سامنے  سب سے بڑے مصور  کا   شہکار    “راکا پوشی “دیکھ رہا تھا    تو  میں  نے  کیا دیکھا    ؟  میری  کفیت کیا تھی؟  انہیں  الفاظ  پہنانے سے قاصر ہوں۔یوں  سمجھیں       میں نے  اپنے  خدا    بدیع السموات  والارض کو    دیکھا     ا س کے  جمال کو  دیکھا  اس کی قدرت کو  دیکھا     اس کی  کاریگری کو دیکھا    ۔اس حُسن  کو دیکھنے کے بعد   کیا پھر  کسی اور حُسن کی ضرورت باقی رہتی ہے  ۔اور جب میں  وہاں سے مُڑا    تو  میرے  اندر  ایک نیا عزم ، ایک نئی  روح  ایک نیا جذبہ  عود کر آیا تھا ۔ جسے لیکر  میں  قراقرم ہائی وے  جسے آج کل سی پیک  کہا جاتا ہے  واپسی گھر کی طرف گامزن تھا

Short URL: https://tinyurl.com/y7acerpp
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *