حج کے بعد حج کو سنبھالنا!۔۔۔۔تحریر: ڈاکٹر خالد محمود

Dr. Khalid Mehmood
Print Friendly, PDF & Email

حجاج کرام کو حج کے مبارک سفر اور حج اکبرکی سعادت حاصل کرنے پر بہت بہت مبارک ہو ۔اللہ تعالیٰ آپ کا حج اپنی بارگاہ ا لہیٰ میں قبول و منظور فرمائے اور آپ کا حج ، حج مبرور کے درجہ میں قبول ہو آمین۔ حج اکبرکیاہے؟ ہرحج ، حج اکبراورہرعمرہ حج اصغرہوتاہے۔کیونکہ مسلمان جب اللہ پاک کے گھرکاحج کرتاہے اس کاحج اداکرنا ہی حج اکبرکہلاتاہے ۔لیکن عوام میں جویہ بات مشہورہے کہ اگروقوف عرفہ جمعۃ المبارک کے دن واقع ہوتووہ حج اکبرہوتاہے۔یہ کسی سے منقول نہیں بلکہ یہ عوام کی عرفی اصطلاح ہے ۔ جمعۃ المبارک کے دن وقوف عرفہ ہونا اورحج کی فضیلت ہفتہ کے باقی دنوں سے زیادہ افضل ہے۔جمعۃ المبارک کے روزوقوف عرفات کاواقع ہوناکسی اوردن کے وقوف عرفات سے ستر درجات زیادہ فضیلت اور ثواب کا حامل ہوتا ہے لہذاجمعۃ المبارک کے دن آنیوالاحج،حج اکبرنہیں بلکہ حج افضل ہوتاہے۔ حج کو فرض قرار دیکر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسا مرکز بہم پہنچادیا ہے کہ جو ہر سال دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک جگہ اکھٹا کر دیتا ہے اور جب سب مسلمان مل کر حاجی کا ترانہ لبیک اللھم لبیک پکارتے ہیں تو اس وقت ان میں حاکم و محکوم ،آقاو نوکر،ا میرو فقیر اور چھوٹے بڑے کی کوئی تفریق نہیں ہوتی۔ احرام کا لباس ایک قومی لباس اختیار کر لیتا ہے ۔ ان کے لباس اور صدا دونوں میں اسلامی قومیت جلوہ گر نظر آتی ہے اور جب حج کی عبادات اور مناسک شروع ہوتے ہیں توعرب و عجم کے سارے فرق مٹ جاتے ہیں۔بیت اللہ شریف کا طواف ایک ساتھ کرتے ہیں صفاومروہ کی پہاڑیوں کے درمیان ایک ساتھ دوڑتے ہیں۔منیٰ ساتھ سفر کرتے ہیں،عرفات ساتھ جاتے ہیں،ایک ساتھ متحرک ہوتے ہیں،ایک ساتھ ساکن ہوتے ہیں۔مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے ایک ساتھ شب بسری ، وادی منیٰ میں ایک سا تھ قیام کرتے ہیں پھر رمی جمرات،قربانی،حلق ،قصر یہ سارے کام ایک ساتھ سرانجام دیتے ہیں۔ حج بلا شبہ ایک کثیر المقاصد اور کثیر الفوائد اور بہت بڑی جامع عبادت ہے اور بہت سی عبادات کا مجموعہ بھی۔ حج کے اتنے زیادہ دینی اور دنیاوی فائدے ہیں کہ ہم انکا شمار اور اندازہ ہی نہیں کر سکتے۔ سفر حج ایک عظیم عبادتی سفر ہے۔ حج ایک روحانی، مالی،بدنی اور مشقت والی طویل عبادت ہے جس میں اپنا مال، اپنی جان اور اپنا وقت لگانا پڑتاہے۔ حج کے ایام میں یہ امیرو غریب ،شاہ وگدا تمام زبانوں ،رنگ و نسل اور ہر حثّیت کے لوگ ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ایک ہی طرح کی عبادت کرتے ہیں اور ایک ہی طرح کا لباس پہنتے ہیں۔ایک ہی طرح کے بستر یعنی زمین پر سوتے ہیں۔ اس میں سفر بھی ہے قیام بھی ہے ذکرودعا بھی اور رکوع و سجود بھی۔ لاکھوں کے مجمع میں وقوف عرفات بھی اور شب مزدلفہ کی خاموش عبادت بھی ۔ حج میں حج بدل بھی ہے آپ کسی کی جگہ حج کر سکتے ہیں لیکن زکواۃ میں زکواۃ بدل نہیں ہے آپ کسی کی جگہ زکواۃ نہیں دے سکتے اور اسی طرح نماز میں نماز بدل بھی نہیں ہے یعنی آپ کسی دوسرے کی نماز بھی نہیں پڑھ سکتے۔
حج پر جانے والے اللہ ٰ تعالیٰ کے خصوصی مہمان ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کے حج کے لیے میرے گھر آؤ پچھلے گنا ہوں کی توبہ اور معافی مانگو اور آئندہ زندگی اللہ اور اسکے رسولﷺ کی تعلیمات پر چلنے کا وعدہ کرو تو میں تم کو اسی وقت ایسے واپس بھیجوں گا جیسے بچہ با لکل معصوم اور گناہوں سے پاک پیدا ہو تا ہے ۔ لیکن ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں اس لیئے کہ ہمیں دعا ئیں مانگنے کا طریقہ آتا ہی نہیں ہماری دعاؤں میں اخلاص نہیں ہے ہمارا یقین،عقیدہ اور ایمان مضبوط نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری زندگی میں ہی ہمیں اپنے سابقہ گناہ معا ف کروانے کا موقع دے دیا ہے اور ہمیں اس کا بھرپور فائدہ اٹھا نا چاہیے ہمیں چاہیے کہ اپنی باقی ماندہ زندگی میں اللہ اور اسکے رسولﷺ کی تعلیمات پرعمل کریں اور انکی خوشنودی حاصل کریں اور اپنے حج کوحج مبرور بنائیں اور حج مبرور کا صلہ بلا شبہ جنت ہے۔اب آپکو یہ کیسے پتہ چلے گاکہ آپ کا حج قبول ہوا کہ نہیں؟یہ آپکو آپکا اپنا رویہ بتائے گاکہ آ پ کا حج قبول ہوا کہ نہیں۔ جب آپ حج کر کے واپس آئیں تو آپکو اپنے اندر اور دیکھنے والوں کو بھی آپکے اندر ایک واضح تبدیلی نظر آنی چاہیے کہ یہ اللہ کا بندہ حج کر کے آیا ہے تو یہ پہلے جیسا نہیں ہے اسکے قول و فعل میں کچھ تبدیلی نظر آرہی ہے اور یہی تبدیلی آپ نے یا دوسروں نے محسوس کرلی تو یہی آپکے حج کی قبولیت کی نشانی ہے لیکن اگر بندہ جس طرح گیا تھا ویسا ہی واپس آگیا جو کام پہلے کرتا تھا واپس آکر بھی وہی کام کر رہا ہے تو پھر ایسے حج کاکوئی فائدہ نہیں ۔حج کے شعائرجن کواللہ پاک نے شعائر اللہ قرار دے دیایہ شعائر کیا ہیں ان سب کے پیچھے ایک تاریخ ہے فلسفہ ہے۔ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے تعمیر کعبہ کے بعداللہ کے حکم سے اللہ کے بندوں کو پکارا تھا کہ آوٓ اللہ کے گھر پر حاضری دو اور اس پکار کے جواب میں لبیک، میں حاضر ہوں، یا اللہ میں حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں،تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بیشک تمام تعریفیں اور نعمتیں تیر ے لےٗ ہیں اور ملک بھی تیرا ہی ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں ۔ پھر ا حرام ،وقوف عرفات،شب مزدلفہ،رمی جمرات،قربانی،حلق ،قصر،طواف زیارت،صفا مروہ کی سعی،بی بی حاجرہ ؑ کی سنت اور سب سے بڑھ کر ہمارے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت ا سماعیل علیہ السلام اوربی بی حاجرہ ؑ اور نبی رحمتﷺ کا کردار ہمارے لئے مشعل را ہ بنا دیا گیا۔احرام کی دو سفید ان سلی چادریں امن کی علامت سفید رنگ جو فرشتوں کا لباس،کفن سے مشابہت اور شیطانوں کو کنکریاں مارنااصل میں اپنے اندر کے شیطان کو اپنے نفس کو کچلنا ہے نہ کہ شیطان کی علامت کو۔ اپنے نفس کو مارنا مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں۔ قربانی ہمیشہ اپنی سب سے محبوب اور پیاری چیز کی دی جاتی ہے۔حضرت ابرا ہیم علیہ السلام نے دنبے کی قربانی تو نہیں دی تھی انہوں نے تو اپنے لخت جگر کو قربانی کیلئے لٹایا تھا۔حلق ،قصرآخر میں اپنے سر کے بالوں کی بھی قربانی سر کے وہ بال جو انسان کی شان و شوکت کی نشانی ہوتے ہیں اور وہ بھی اللہ کی خوشنودی کیلئے کٹوا دیئے۔یہ ہے حج کا پیغام کہ اللہ نے کیوں بلایا،کس لئے بلایا۔آپ نے کونسا حج کیا؟تمتع کیا،قران کیا، افرادکیا یا حج بدل کیا۔حج کے ارکان پورے کئے حج کے فلسفہ پر عمل کیا۔حج کی روح کوسمجھا ۔ شعائر کے پیغام کو سمجھا۔ حج کے سفر میں اللہ کی حکمتیں اور معجزے دیکھے۔ آپ حج کی سعادت حاصل کر کے واپس آگئے۔آپ حج سے کیا لائے؟ اب آپ نے اپنے حج کو سنبھالنا ہے۔ کیسے سنبھالنا ہے اپنے رویہ سے اپنے قول و فعل سے۔مگر محترم حاجی صاحب کیا آپ نے حج کو اچھی طرح ادا کیا حج کی روح کو جانااور سمجھا بھی؟ کیا آپ صرف آ ب زمزم،کھجوریں ،تسبیح ،ٹوپیاں اور جاء نماز لے کر آ گئے۔ اپنے نام کے ساتھ حاجی یا الحاج لگا لیا۔اگر آپ حج کے بعداپنے عزیزواقارب اور دوست احباب کے لئے آب زمزم اور کھجوریں وغیرہ نہ لائے لیکن اپنی زندگی میں ایک دینی اور روحانی انقلاب کا اراداہ لیکر واپس آئے ہیں تو آپ نے حج کا مقصد اور صلہ پا لیا۔ دنیا بھر سے اور پاکستان سے ہر سال لاکھوں مسلمان حج کی سعادت حاصل کر تے ہیں لیکن ان کی واپسی پرمجموعی طورپر معاشرہ میں کوئی واضح مثبت تبدیلیاں نظر نہیں آتی ہیں جس کی مثال ، ملک میں لا قانونیت ، مہنگائی، کبھی آٹے کا بحران، کبھی چینی کا بحران، کبھی پٹرول کا بحران،کبھی پانی،بجلی اور گیس کا بحران ہر سال رمضان المبارک میں ناجائز ذخیرہ اندوزی ،بلا وجہ مہنگائی، دونمبر مال ،ملاوٹ اور سیل کے نام پردھوکہ دہی شامل ہے۔ اگر حکومت وقت ملک میں اسلامی نظام نافذ نہیں کرتی توحج سے واپس آنے والے اپنے اوپر ، اپنے اہل خانہ پر اسلامی اور شرعی احکام نافذ کرتے ہوئے اور ان پر عمل درآمد کرتے ہوئے اپنے قول و فعل سے اپنے آپ میں واضح تبدیلی ثابت بھی کریں۔نماز ، روزہ کی پابندی کریں، زکوٰۃ کی ادائیگی کو یقینی بنائیں۔اور اس تبدیلی کے اثرات ہمارے معاشرے پر بھی اثر انداز ہوتے نظر آنے چاہیءں کہ ہمارے ملک میں قانون کا احترام کیا جا ئے ۔انصاف کا بول بالا ہو۔امیر اور غریب سب کے لئے ایک قانون ہو۔ امن و امان اور بھائی چارے کی فضا قائم کی جائے۔حقوق العباد کا خیال کیا جا ئے ۔بیروزگاری غربت اور مہنگائی کو ختم کیا جائے اگر کسی بیروزگار کو روزگار دینے کی حثیّت میں ہیں تو اس کو روزگار مہیا کریں اور یہی حج ہمیں سبق دیتا ہے یہی حج کی اصل روح ہے اور یہی حج کا فلسفہ ہے۔اگر جو کام حج پر جانے سے پہلے کرتے تھے اور حج سے واپس آکر بھی وہی کام جاری رکھے تو ایسے حج کا کوئی فائدہ نہیں۔آپ نے اپنے حج کو قائم رکھنا ہے اپنے حج کو سنبھالنا ہے اپنے حج کو حج مبرور بنانا ہے اور حج مبرورکا صلہ جنت کے سوا کچھ نہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حج مبرور کس حج کو کہتے ہیں۔حج مبرور ہے کیا؟ا لفاظ حج مبرور طواف کعبۃ اللہ کے چوتھے چکر کی دعا کا حصہ ہے۔بعض کا قول ہے کہ حج مقبول کا نام حج مبرور ہے۔ حج مبرور یہ ہے کہ حاجی نے دوران ادائیگی مناسک حج نہ تو کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہو اور نہ ہی کوئی جنابت و ممنوعات احرام کا مرتکب ہوا ہو۔حج کرنے کے بعد دنیا سے بے رغبتی ہو جائے اور آخرت کی طرف راغب ہو جائے، یعنی حج سنت مطہرہ کے مطابق اور ہر قسم کے نقائص سے پاک ہو۔حج مقبول کی علامت یہ ہے کہ حج کے بعد حاجی نیکیوں کی طرف لوٹ آئے جس پر وہ حج سے پہلے نہیں تھا۔ (حیات۔عمدۃالفقہ) حج مبرور ، حج مقبول اور نیکیوں والے حج کو کہتے ہیں۔جب ایک شخص حج مکمل دل کی لگن،عاجزی اور انکساری سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی خشنودی کیلےٗ کرتا ہے اور اس کے مناسک کی ادائیگی میں کمی،سستی اور کو تاہی نہیں کرتا تو اس کا یہ حج،حج مبرور ہوگا۔لہذا حج مبرور کا شرف تب ہی حاصل ہوگا جب حج و عمرہ کے زادہ راہ میں حرام مال،چوری،سود،رشوت،کاروبار میں ناجائز منافع خوری وغیرہ کا پیسہ شامل نہ کیا گیا ہوبلکہ حج کے بعد سابقہ برائیوں سے اجتناب کرنا ہے،نیکیوں کی جانب راغب ہو جانا ہے۔پہلے کی نسبت پاک مطہرہ زندگی گزارنا ہے۔رزق حلا ل پر اکتفاکرنا ہے اور اہل وعیال کی حلال آمدنی سے پرورش کرنا ہے۔صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے نہ صرف یہ کہ خود اجتناب کرنا ہے بلکہ لوگوں کو بھی برے کاموں سے روکنا اور نیکی کی ترغیب دینا ہے اور اپنی اولاد کو نیک اور صالح بنا کر اپنی اور انکی عاقبت سنوارنے کی سعی کرنا ہے اور یہ ہے حج کے بعد حج کو سنبھالنا اپنے حج کو قائم رکھنا۔اللہ سبحان و تعالیٰ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

Short URL: http://tinyurl.com/jaq3bc4
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *