عالمی یومِ اَمن اورقیامِ اَمن

Print Friendly, PDF & Email

۔21ستمبر عالمی یوم امن کے حوالے سے خصوصی تحریر


متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
امیر: عالمی اتحاد اہل السنت والجماعت


امن معاشرے کی ایک ایسی ضرورت ہے۔جو ہر مذہب اورہر قوم کی مشترکہ ضرورت ہے۔ کسی بھی معاشرے کی تعمیروترقی اور خوشحالی کے لیے امن کاقیام نہایت ضروری ہے۔ آج عالمی سطح پر اس کے خطوط وضع کرنے کے پروگرامز ہو رہے ہیں اور بدقسمتی سے ساری دنیا کی اقوام بدامنی کا ذمہ دار اسلام اور مسلمانوں کو ٹھہرا رہی ہے اور اسلام کوہی قیام امن میں رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ حالانکہ یہ سراسر غلط اور من گھڑت مفروضہ ہے جس کا حقیقت سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ ادیان عالم میں واحد مذہب اسلام ہی ہے جس کے نفاذ کی بنیاد قیامِ امن ہے۔تاریخ عالم کا مطالعہ کیجیے یہ حقیقت آپ پر روز روشن کی طرح آشکار ہوگی کہ قبل از اسلام امن کا فقدان تھا ، ظلم و جبر نے انسانیت کو بدامنی کی دلدل میں گردن تک دھنسا رکھا تھا۔ عرب قوم ظالمانہ اور وحشیانہ زندگی بسر کر رہی تھی ، درندگی کا یہ عالم تھا کہ معمولی معمولی باتوں پر دوقبیلوں کی آپسی جنگ صدیوں تک محیط رہتی، کئی نسلیں اس انتقام کی آگ میں جھلستی رہتیں۔ دولت و اقتدار والا غریب اور عوام کو انسان تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ظلم وزیادتی،قتل وغارتگری،چوری وبدکاری اور بداخلاقی و بدامنی کابازارگرم تھا۔ معاشرتی زندگی بری طرح تباہ ہو کر رہ گئی تھی ،امن و امان پوری طرح پامال ہو چکا تھا۔ انسان اپنے رب بلکہ خود اپنا مقصد تخلیق بھلاچکاتھااورسورج ، چاند ، ستارے ، درخت ، پانی ، آگ اور خودتراشیدہ مورتیوں کواپنا معبود بنا رکھا تھا۔
امن کے سب سے بڑے علمبردار پیغمبر اسلام نے ظلم کے سمندر سیانسانیت کی ڈوبتی ناؤ کو امن کے ساحل پر لگایا۔ انسانیت کو’’ انسانیت‘‘ کا درس دیا۔ پیار ، انس ، مودت ومحبت ، اخوت و بھائی چارگی، حسن سلوک اور رواداری کو فروغ دینے کے لیے خدائی دستور قرآن کریم دیا۔ قرآنی احکامات کی تشریح بھی خود فرمائی تاکہ حجت تام ہو جائے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر موقع پر امن و امان پر زور دیا۔ ظلم و جبر ، وحشت و سربریت اور خوف و ہراس کو دور کرنے کے لیے وحی الہٰی کے مطابق ایسامنصفانہ اور عادلانہ نظام دیا جس میں ظالم کو ظلم سے روک کر مظلوم کی داد رسی کی گئی ہے۔آپ کا دیا ہوا نظام ہر دور میں امن کا ضامن رہا ہے اور تا قیامت اسی نظام سے امن وابستہ ہے۔اسلام کو غیر جانبدارانہ عمیق نظروں سے دیکھنے والے غیر مسلم بھی اس بات کے کھلے دل سے معترف ہیں کہ اسلام اور امن دونوں باہم لازم ملزوم ہیں۔ اسلامی کی بنیادی روح ہی امن ہے۔
قیام امن کے لیے اسلام نے اتنا جامع قانون انسانیت کے حوالے کیا کہ جس کی بدولت تاقیامت بدامنی سے محفوظ رہا جا سکتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں ہے :’’جس نے کسی انسان کوخون کے بدلے یا زمین میں فسادپھیلانے کے سواکسی اوروجہ سے قتل کیا اس نے گویاتمام انسانوں کا قتل کردیا اورجس نے کسی کوزندگی بخشی اس نے گویاتمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔ ‘‘
خدا کے پسندیدہ مذہب اسلام ہی کو یہ ادیان عالم پر فوقیت ہے کہ اس کی نظر میں کسی شخص کا ناحق قتل گویا پوری انسانیت کا قتل ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر اسلام میں قتل تودرکنار یہاں کسی کی ایذاررسانی بھی ایسا جرم ہے جو اسے ایمان کے دائرہ کمال سے خارج کر دیتا ہے صحیح بخاری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان موجود ہے:بخدا وہ مومن نہیں بخداوہ مومن نہیں،بخداوہ مومن نہیں۔ دریافت کیا گیا، کون اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ جس کا پڑوسی اس کے ظلم وستم سے محفوظ نہ ہو۔
اسلام محبت و رواداری کا درس دیتا ہے اس کی تعلیمات نقطہ امن کے گرد اپنے دائرے کو مکمل کرتی ہیں۔ جس شخص سے خیر کی توقع نہ ہو اور لوگ اس کے شر سے محفوظ نہ ہوں تو اسلام ایسے شخص کوبدترین انسان قراردیتاہے۔چنانچہ جامع ترمذی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:’’تم میں بدترین شخص وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کونہ خیرکی امیدہو نہ اس کے شرسے لوگ محفوظ ہوں ‘‘
اسلام انسانی معاشرے میں مساوات کا نظام پیش کرتا ہے اس کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ اس دنیا میں کسی کو کسی پر حسب نسب ، قوم قبیلہ ، خاندان ،علاقائیت و لسانیت کی وجہ سے کوئی فضیلت اوربرتری نہیں ہے، ہرانسان آدم کی اولاد ہے،اور آدم کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیداکیا۔ مسند احمد میں حدیث مبارک موجود ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر ارشاد فرمایا :’’اے لوگو! بلاشبہ تمہارارب ایک ہے اورتمہارباپ بھی ایک ہی ہے،جان لوکہ کسی عربی کوکسی عجمی پراورنہ کسی عجمی کوکسی عربی پر،نہ کسی سرخ کوکسی سیاہ پر اورنہ کسی سیاہ کو کسی سرخ پرکوئی فضیلت اوربرتری حاصل ہے سوائے تقوی کے ‘‘یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ تقوی کا مطلب ہے خداکاخوف ہروقت پیش نظررکھنا اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا۔
پرامن معاشرے کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باہمی محبت ، رواداری ، بھائی چارہ ، حسن سلوک ، عفو و درگزر کو سنگ بنیاد کی حیثیت دی۔ جان ، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت سے امن جنم لیتا ہے اگر ان میں سے کسی کو گزند پہنچے تو امن مجروح ہوتا ہے ، اس کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کیموقع پر فقید المثال اجتماع سے تاریخ ساز خطبہ دیتے ہوئے ایک شق یہ بھی بیان فرمائی کہ ان تینوں کی حفاظت قیام امن کی ضامن ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے :’’یقیناًتمہارا خون،تمہارا مال اورتمہاری آبروآپس میں (تاقیامت)اسی طرح قابل احترام ہے جس طرح یہ دن،اس مہینہ میں اوراس شہرمیں قابل احترام ہے۔ ‘‘
انسانیت سے رحمدلی سے پیش آنے کی جگہ جگہ تاکید فرمائی چنانچہ جامع ترمذی میں حدیث مبارک ہے: رحم وکرم اوردوگذرکرنے والوں پرخدابھی رحم کرتاہے۔ لہذاتم زمین والوں پررحم کرو، آسمان والاتم پررحم کرے گا۔ دوسرے مقام پر اسی بات کو یوں بیان فرمایا کہ جولوگوں پررحم نہیں کرتاخدابھی اس پررحم نہیں کرتا ہے۔
پیغمبر اسلام کی یہ تعلیمات محض زبانی جمع خرچ نہیں ، بلکہ آپ کی عملی زندگی کی عکاس ہیں۔امن کی تعلیم دینے والے پیغمبر اور آپ کی مبارک جماعت حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس’’ جرم‘‘ کی پاداش میں طرح طرح کی انسانیت سوز تکالیف سہنی پڑیں ایسے حالات میں بھی محسن انسانیت نیحسن سلوک کامظاہرہ کیا اور دشمنوں کے ساتھ اچھے برتاؤ سے پیش آئے جان کے دشمنوں کو عام معافی دی۔ قیام امن کے لیے جو امور ضروری تھے ان کو اپنانے کی اسلام نے تاکید مزید کی ہے جبکہ اس میں روکاٹ بننے والے انفرادی و اجتماعی طور پراخلاقی جرائم ، معاشرتی جرائم نشاندہی کر دی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے آج اسلام کی وہ صحیح تصویر پیش کی جائے جس سے اسلام کی روح نظر آئے۔
اسلام پسندوں کو طعنہ دینے والوں کو چاہیے کہ غیر جانبدار ہو کر گہرائی سے اسلام کے نظام امن کا مطالعہ کریں تاکہ قیام امن کے فارمولے نئے سرے سے تشکیل دینے کی بجائے نبوی نافذ شدہ ، خدائی تصدیق شدہ اور قانوناً مرتب شدہ تیار شدہ فارمولہ کو اپنا کر عالمی یوم امن کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکے۔

Short URL: http://tinyurl.com/jfkhdtq
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *