برصغیر میں ترویج حدیث اور چند ایمان افروز مناظر

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: مولانامحمدجہان یعقوب 
قرآن مجید اجمال اور حدیث و سنت اس کی شرح ہے اور محمد اسد مرحوم ؒ نے سچ فرمایا ہے:”سنت نبوی ہی وہ آئینی ڈھانچا ہے جس پر اسلام کی عمارت کھڑی ہے، اگر آپ کسی عمارت کا ڈھانچا ہٹا دیں تو کیا آپ کو اس پر تعجب ہوگا کہ عمارت اس طرح ٹوٹ جائے جس طرح کاغذ کا گھر وند(اسلام دوراہے پر)
حدیث و سنت کی اسی اہمیت کے پیش نظر دور نبوی علیٰ صاحبہا الصلو والسلام سے ہی تدوین حدیث کا مرحلہ شروع ہوا اور تبع تابعین کے دور تک سنداً و متناً تمام جانچ پڑتال اور دیانت کے ساتھ تمام احادیث طیبہ کو نہ صرف سینے میں بلکہ سفینے میں بھی ممتاز کر لیا گیا اور امت، قرآن مجید اور حدیث و سنت کی روشنی میں جاد �ۂ مستقیم پر گام زن اور غالب و منصور رہی۔قرونِ اولی ٰسے جوں جوں دوری بڑھتی گئی، امت کی علم حدیث سے دل چسپی میں بھی رفتہ رفتہ کمی آنے لگی اور جب حدیث و سنت کی واضح روشنی، جہاں ہر شے روز روشن کی طرح عیاں تھی، ہاتھوں سے چھوٹنے لگی، تو شرک و بدعات، رسوم و رواج اور دور جاہلیت کی رسومات نے جسدِ مسلم میں اس طرح سرایت کرنا شروع کر دیا کہ امت اپنے حقیقی مرکز سے ہٹتی محسوس ہوئی۔
ان حالات میں ہندوستان میں امام ربانی حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ (متوفیٰ 1034ھ)اور شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ (متوفی 1052ھ)نے مصلح امت کا فریضہ انجام دیا اور اپنا تن من دھن حدیث کی تشریح و تدریس اور ترویج واشاعت پر صرف کر دیا۔ پھر حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ (متوفی 1176ھ)اور ان کے قابل فخر خانوادے نے اس سلسلے کو مزید آگے بڑھایا اور ہندوستان کو حدیث کی خوشبوؤں سے ایسا معطر کر دیا کہ عرب ممالک سے طالبینِ حدیث اپنی پیاس بجھانے کے لیے یہاں کا رخ کرنے لگے۔ علمائے ربانیین نے حدیث و سنت کے سائے میں شرک و بدعات کی وہ بیخ کنی کی کہ دورِ صحابہؓ کی یاد تازہ ہوئی۔ 
یہ انہی کوششوں، کاوشوں اور مخلصانہ جدوجہد کا ثمرہ تھا کہ ہندوستان میں جب ملا نظام الدین سہالوی ؒ (1161ھ۔ 1088ھ)نے درسِ نظامی کا نصاب مرتب کیا تو صحاحِ ستہ سمیت تمام کتبِ حدیث کو کلیدی حیثیت دی۔ اس سلسلے میں اس کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتام،جو ہندوستان میں علمائے فرنگی محل نے مولانا محمد عبدالحئی فرنگی محلیؒ (متوفی 1304ھ)کی قیادت میں ادا کیا۔
ذیل میں ہم اس سال دورۂ حدیث شریف کی تکمیل کرکے دستارِ فضیلت حاصل کرنے والے طلبہ اور فراغت پانے والی طالبات کی خدمت میں کتبِ حدیث کے مصنفین کی مبارک زندگیوں کے چند واقعات اس غرض سے رکھ رہے ہیں کہ ان روشن کرنوں سے اپنے تابناک مستقبل کی تعمیر میں مددلینے کے لیے آج سے عزم کرلیں۔
پہلامنظر۔ محدث اپنی حدیث کی سندبیان کرتے ہوئے کہتاہے:’’یہ حدیث سفیانؒ نے ابو زبیرؒ سے، انھوں نے ابراہیم ؒ سے سنی‘‘
’’استاد محترم! ابو زبیرؒ ، ابراہیم ؒ سے حدیث روایت نہیں کرتے۔‘‘درس میں شریک ایک گیارہ سالہ بچے نے استاد کی توجہ دلانے کی کوشش کی۔ استاد نے بچے کو جھڑک دیا، مگر بچہ اپنی بات پر مصر رہا اور گزارش کی: ’’استاد محترم! اپنی کتاب میں دیکھ لیجئے،‘‘استاد نے اصل کتاب دیکھی اور واپس آ کر بچے سے پوچھا:’’ اصل سند کیا ہے؟‘‘
بچے نے اصل سند بیان کرنا شروع کردی:’’یہ حدیث سفیانؒ نے ابو زبیرؒ سے نہیں بلکہ زبیر ؒ سے اور انھوں نے ابراہیم ؒ سے روایت کی۔‘‘ استاد نے فوراً قلم اٹھایا اور سند کی تصحیح کر لی۔معلوم ہے یہ بچہ کون تھا؟یہ بچہ محمد ؒ بن اسماعیل بن ابراہیم تھا، جو آگے چل کر شیخ الاسلام امیرالمؤمنین فی الحدیث امام بخاری ؒ کے نام سے مشہور ہوا۔
’’بھائی!جب درس میں شرکت کرنی ہی ہے تو کچھ لکھا بھی کرو، وقت تو ضائع نہ کرو‘‘۔ ہم عصر ساتھیوں نے بخاری ؒ سے کہا، وہ ان کی بات سنتے رہے، یہاں تک کہ 16 دن اسی طرح گزر گئے۔ ملامت کا سلسلہ جاری تھا، چنانچہ تنگ آ کر ساتھیوں سے کہا:’’اچھا،لاؤ،دکھاؤ، تم نے کیا لکھا ہے؟‘‘ ساتھیوں نے اپنے تحریری نسخے آگے کر دیے، جن میں پندرہ ہزار احادیث لکھی ہوئی تھیں۔ بخاری نے کہا: ’’لو، سنو‘‘اور تمام حدیثیں زبانی اس طرح سنا دیں کہ انہیں سن کر ساتھیوں نے اپنے نسخوں کی اصلاح کی۔ (تاریخ خطیب جلد دوم)
اب دوسرامنظر ملاحظہ فرمائیے:
’’کاش! تم ایک ایسی کتاب لکھتے جس میں صرف اور صرف صحیح احادیث ہوتیں۔‘‘امام اسحق ؒ بن راہویہ نے اپنے قابل فخر شاگرد بخاری ؒ سے کہا۔ شاگرد اتنی بڑی خدمت کا خود کو اہل نہ پاتا تھا، سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے؟ خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور خود کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا پنکھا جھلتا اور مکھیوں کو دور کرتا دیکھا۔ تعبیر واضح تھی کہ اللہ تعالیٰ ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں جو جھوٹ اور بہتان کی غلاظتیں شامل کی گئی تھیں، ان کو دور کرنے کا کام لینا چاہتا تھا، چنانچہ انتہائی کڑی شرائط پر ’’صحیح بخاری ‘‘کی تالیف کا آغاز فرمایا۔ ہر حدیث کو لکھنے سے پہلے غسل کیا، دوگانہ ادا کیا اور پھر حدیث درج کی۔ اس طرح 16 سال کے طویل عرصے میں یہ گلدستہ تیار ہوا ،جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ قرار پایا۔(ایضاً)
ایک اور منظر آنکھوں کے سامنے تازہ کیجیے:’’امام صاحب!میں چاہتا ہوں کہ آپ بنفنسِ نفیس تشریف لا کر میری مجلس میں اپنی تصانیف صحیح بخاری ؒ اور تاریخ کبیر سنائیں۔‘‘امیر بخارا خالد بن احمد نے پیغام بھیجا۔’’میں ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔ یہ علم کی بے توقیری ہے‘‘امام نے کہلا بھیجا۔’’اگر ایسا ممکن نہیں تو میرے بیٹوں کے لیے ان کتابوں کے درس کا علیحدہ وقت مقرر کر لیں، جس میں ان کے ساتھ کوئی شریک نہ ہو۔‘‘امیرخالد بن احمد نے آخری درجے میں یہ شرط رکھی۔’’میں ایسا بھی نہیں کر سکتا۔‘‘ امام بخاری نے دوٹوک جواب دیا، چنانچہ اسی خود داری کے جرم میں امام بخاریؒ جلا وطن کر دئیے گئے۔
لیجیے!یہ چوتھامنظر ہے:’’یا رسول اللہﷺ!کس کا انتظار ہے؟‘‘ایک اللہ والے نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ کسی کے انتظار میں پا کر دریافت کیا۔’’محمد بن اسماعیل بخاری آ رہے ہیں، ان کے انتظار میں ہوں۔‘‘حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔چند روز بعد جب ان اللہ والے کو معلوم ہوا کہ امام بخاریؒ وفات پا چکے ہیں تو حساب لگانے سے وہی دن اوروقت وہی وقت نکلا، جب انھوں نے خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو امام بخاریؒ کا انتظار فرماتے ہوئے دیکھا تھا۔
اب دوسرے جلیل القدر محدث کی بارگاہ میں چلتے ہیں:’’جو شخص محمد بن اسماعیل کے مسلک پر ہو، وہ کل سے میرے درس میں نہ آئے۔‘‘امام محمد بن یحییٰ الذہلی ؒ نے اعلان کیا، شرکائے درس میں حجۃ الاسلام امام مسلم بن حجاج رحمہ اللہ بھی بیٹھے ہوئے تھے ،جو امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ کو’’ سید المحدثین‘‘ اور’’ طبیب الحدیث فی عللہ‘‘ کہتے اور اپنا مقتدا مانتے تھے۔ امتحان سخت تھا،نہ تو محمد بن یحییٰ کا درس ایسا تھا کہ اسے خیرباد کہہ دیا جاسکے، اورنہ ہی امام بخاری ؒ کی حمایت ترک کی جا سکتی تھی۔ امام مسلمؒ نے عقل و دل کے معرکے میں دل کا فیصلہ قبول کیا، اسی وقت عمامہ سر پر رکھا، نسخے اٹھائے اور چل پڑے۔ بعد میں امام ذہلی ؒ سے جتنی احادیث نقل کی تھیں، وہ بھی واپس کر دیں کہ جو شخص امام بخاری ؒ سے بغض و عداوت رکھتا ہو، خواہ وہ کتنا ہی بڑا محدث ہو، اس قابل نہیں کہ اسے استاد کا درجہ دیا جائے۔ (تذکر الحفاظ)
’’دوست!کس حال میں ہو؟‘‘امام ابو حاتم رازی ؒ نے امام مسلم ؒ کو وفات کے بعد خواب میں دیکھ کر پوچھا۔فرمایا: ’’اللہ تعالی نے میرے لیے جنت کو مباح قرار دیا ہے، جب اور جس وقت جہاں جانا چاہوں جا سکتا ہوں۔‘‘(ابن خلکان جلددوم)
لیجیے!یہ ہیں امام ابوعیسیٰ ترمذی:’’ حضرت!میں نے کسی سے سن کر آپ سے کچھ روایتیں نقل کی ہیں۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو ان کی قراء ت فرما دیں۔‘‘ امام ابو عیسیٰ ترمذی نے مکہ مکرمہ میں بر سبیل ملاقات ایک محدث سے درخواست کی۔’’ٹھیک ہے تم لکھا ہوا دیکھتے رہو، میں قراء ت کرتا ہوں۔‘‘ محدث نے درخواست قبول کی۔
امام ترمذیؒ نے اپنے سامان میں اس نسخے کو تلاش کیا، جس میں یہ روایتیں تھیں، مگر وہ ملنا تھا نہ ملا۔ خفت مٹانے کیلئے انہوں نے ایک سادہ کاغذ ہاتھ میں لیا اور یوں غور سے اسے دیکھنے لگے، جیسے واقعی تقابل کر رہے ہیں۔ اچانک محدث کی نظر خالی کاغذ پر پڑی۔’’تم میرے ساتھ مذاق کر رہے ہو۔‘‘ محدث طیش میں آ گئے۔ترمذی ؒ نے تمام بات عرض کی اور کہا :’’حضرت! مجھے یہ روایتیں اسی طرح یاد ہیں جس طرح لکھی تھیں لفظ بہ لفظ‘‘۔۔۔’’اچھا! ذرا پڑھ کر سناؤ۔‘‘ محدث نے اتنا بڑا دعویٰ سنا تو تصدیق کے لیے حکم صادر فرمایا۔ امام ترمذی ؒ نے تمام حدیثیں سنا دیں۔شیخ کو ان کے محیر العقول حافظہ پر یقین نہ آیا، چنانچہ امتحان لینے کے لیے40 روایتیں بیان کیں، جو امام ترمذی ؒ نے اس سے قبل کہیں نہیں سنی تھیں۔ امام ترمذی ؒ نے ایک ہی مرتبہ سن کر وہ اس طرح لفظ بہ لفظ سنائیں، کہ غلطی تو درکنار اٹکن بھی نہ آئی۔
اب چلیے ایک اور محدث کی جانب:’’حضرت!آپ قمیص کی ایک آستین کشادہ اور دوسری تنگ کیوں رکھتے ہیں؟‘‘کسی عقیدت مند نے امام ابو دؤاد سبحستانیؒ سے پوچھا، فرمانے لگے:’’ایک آستین تو اس لیے کشادہ رکھتا ہوں تاکہ اس میں اپنی تحریر کے اجزا رکھ لوں، جہاں تک دوسری آستین کا تعلق ہے تو اس کا ایسا کوئی سبب نہیں، اس لیے اسراف سے بچنے کیلئے اسے تنگ رکھتا ہوں۔‘‘(بستان المحدثین)
یہ حدیث کی کتابیں مرتب کرکے یہ مقدس امانت ہم تک پہنچانے والے جلیل القدر ائمہ محدثین حضرات کے کردار و عمل اور حفظ و اتفان کی چند نا مکمل تصویریں ہیں، جن سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ حضرات عظمت کردار عنداللہ مقبولیت کے کس اعلی ٰمقام پر فائز تھے۔ 
کاش کہ اپنے خبث باطن کے کریہہ آئینے میں ان نفوس قدسیہ کو دیکھ کر احادیث پر زبان طعن دراز کرنے والے پرویزی، مودودی و غامدی وغیرہ کے پیروکار نام نہاد اسکالرز حقائق کی روشنی میں ان ہستیوں کے حزم و احتیاط کا ادراک کرتے۔۔۔ لیکن اگر کورہ چشم، سورج کی تابناکیوں میں بھی کچھ نہ دیکھ سکے تو قصور سورج کا نہیں اس کا اپنا ہے۔
فضلائے کرام ! آپ کی نسبت انبیائے کرام علیہم السلام، صحابہ کرامؓ اور عظیم محدثین کرام سے ہے، ہر لمحہ اس نسبت کا پاس رکھ کر ہی آپ اس موج عصیاں اور نئی روشنیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔یادرکھیے!
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جا گے
خاک ہو جا گے افسانوں میں کھو جا گے

Short URL: http://tinyurl.com/y3dftdkk
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *