تاریخِ معاشیات

Muhammad Sajawal Nawaz
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: محمد سجاول نواز
جب ہم معاشیات کا لفظ سنتے ہیں توعموماََ ہمارے ذہن میں یہ بات آتی ہے ،آیا کہ یہ گھریلو معاشی حالات کی بات چل رہی ہے یا کسی معاش کے حوالے سے کسی زرعی اجناس کی بات چل رہی ہے۔حقیقت اس کے بر عکس ہے لفظ معاشیات جسے انگریزی میں اکنامکس اور اس کا لاطینی لفظ Oiko nomos ہے۔ جس کے معنی گھریلو ضابطہ کے ہیں ۔بعدمیں اس لفظ کا اطلاق Polos یعنی ریاست پر کیا گیا۔اس لفظ کو پولٹیکل اکانومی کا نام بھی دیاگیاجسے بعد میں گزرتے وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق مختلف صورتوں میں ڈھال کر معاشیات یعنی Economicsکا نام دیا گیا۔چونکہ گزشتہ معیشت دانوں نے مختلف حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ادوار کے تقاضوں کے مطابق مثبت اور منفی سماجی نظریات کی بنیاد پرمعاشیات کی بہت سی تعریفیں بیان کیں۔معاشیات پربغور عمل اور غور وخوض تو پندرھویں صدی عیسوی سے شروع ہوگیا تھا۔ دراصل حقیقت میں کلاسیکی مکتب فکرکہ لوگ جنہوں نے1723میں معاشیات کو مختلف نظریات سے کتابی شکل میں ڈھالا جن میں ایڈم سمتھ کا نام سر فہرست ہے ۔1776میں پہلی معاشی کتاب دولت اقوام کے نام سے لکھی۔ایڈم سمتھ کے مطابق معاشیات پیدائش دولت،صرف دولت ،تقسیم دولت اور تبادلہ دولت پر بحث کا نام ہے۔اس کے نظریات پر مختلف معیشت دانوں پروفیسر سینئر ،جے ایس مل، مالتھس اور ریکارڈو نے متفقہ رائے دی۔یہ دور 1790میں ختم ہوتا ہے ۔ اس کے بعد نوکلاسیکی مکتب فکر1842کو شروع ہوتا ہے ،جس کے بانی الفریڈمارشل کہلائے جنہوں نے معاشیات کو مادی خوشحالی کا علم قرار دیتے ہوئے اصول معاشیات کے نام سے کتاب لکھی ۔جس میں معاشیات انسان کے ان تمام افعال کا مطالعہ ہے جو کہ وہ اپنے روزمرہ کہ تمام تر کاموں کو بروے کار لاکر جس میں اس کی روزی کمانے کے عمل سے لے کر سونے کے افعال کو ترتیب دیتا ہے، اور ایک انسان کس طریقے سے پیسے کماتا ہے اور اسے کس طرح اپنے روزمرہ کے اخراجات ،اپنے خاندان کے اخراجات پر خرچ کرتا ہے۔پس ایک طرف تو یہ دولت کا علم اور دوسری طرف انسانی پہلو کا بھی علم ہے۔مارشل کے پیروکار وں میں پیگوکینن،پریٹو ااور جے بی کلارک کے نام ہیں۔نوکلا سیکی مکتب فکرکادور 1924 کو اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اس کے بعدجدید معیشت نقطہ نظر شروع ہواجسے رابنز اور جدید ماہرین کا نقطہ نظر کہتے ہیں۔یہ دور 1932سے شروع ہوا جس میں رابنز نے ڈاکٹر مارشل کے نقطہ نظر کو رد کرتے ہوئے اپنی کتاب علم معاشیات کی نوعیت و اہمیت لکھی ۔اس کے بعدمزید بہتری ہوئی اور معاشیات کے نامور مفکر اور ماہر معاشیات لارڈکینز نے1936میں اپنی کتاب روزگار سود اور زر پر عام نظریہ نامی کتاب لکھی۔پھر مضمون کی وسعت بڑھتی گئی اور معاشیات علم اور فن بھی قرار پایا۔معاشی قوانین متعارف کروائے گئے۔ مزید وسعت پیدا ہوئی اور معاشیات کومختلف شاخوں میں بانٹا گیا،مختلف قسمیں مقررہوئیں۔نظریاتی،اطلاقی،ایثابی،ایجابی،فلاحی ،جزوی اور کلی معاشیات اقسام بیان کی گئیں۔دورہِ حاضر کی رو سے معاشیات کی جدید تعریف یوں ہے۔
انسانی خواہشات لامحدود ہیں جن میں انسان اپنے محدود ذرائع کو زیر استعمال میں لا کر کس طرح سے اپنے اخراجات اورزندگی بسر کرتا ہے۔
معاشیات کے متعلق ہمارے مشہور قومی شاعر حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے علم الاقتصاد نامی کتاب لکھی۔اقبالؒ شاعر تھے اور بہت بڑے نثر نگار بھی تھے۔آپ کانثر نگاری کا سلسہ 1902 سے شروع ہوا۔علامہ اقبالؒ کا علم الاقتصاد لکھنے کا بنیادی مقصد ہی یہی تھا ،کہ معاشیات کا اصل خاکہ معاشرے کے سامنے کھینچاجائے۔کیونکہ معاشیات نے بجٹ،بینک،زر(پیسہ)،اجار ہ داری،طلب،رسد، ،بارٹرسسٹم،اعانے،حصص،لگان ،اجرت، ٹیکس وغیرہ بہت سی اصطلاحات متعارف کروائیں۔جب زر(روپیہ ،پیسہ)موجود نہیں تھاتب بھی معاشیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک اصطلاح موجود تھی ۔جسے بارٹر سسٹم کا نام دیاگیا، جوکہ اشیا کے بدلے اشیا ٰکا تبادلہ کہلاتا ہے۔ جیسے کہ اگر کو ئی شخص دوسرے کو گندم دیتا تو اس کے عوض چاول لے لیتا۔لیکن اس میں بہت سی مشکلات سامنے آتی تھی جیسا کہ اگر کو ئی فر د دوسرے فرد کو چاول دیتا تو اسے گوشت کی ضرورت ہوتی اب دوسرا فرد اپنی گا ئے کا کچھ حصہ کاٹ کر تو نہیں دے سکتا تھا۔ پس ان تمام تر وجوہات کی بنا پر ہی زر کو اپنایاگیا۔ پہلے پہل زر کو بطور غلہ،موتی ،پتھر،سیپ ،غلام اور تیر وغیرہ سے استعمال کیا گیا لیکن ان میں اچھے زر کی خصوصیات موجود نہ تھیں۔ ابتداء میں زر (روپیہ، پیسہ) کو قیمتی دھاتوں مثلاََ سونے اور چاندی کے ٹکڑوں کوکاٹ کر استعمال کیا جاتا رہا۔لوگوں میں مقبول بھی ہوئے یہ دیگر اشیا ء کی نسبت زیاد ہ پائیدار اور قابل قبول تھے۔لیکن سونے چاندی جیسی قیمتی اورنایاب دھاتوں کو بطور زر استعمال کرنا مناسب نہ سمجھا گیا ، کیونکہ ان میں کھرے کھوٹے کی پہچان مشکل ہوتی گئی۔مختلف حکومتیں اسے صحیح معانوں میں تسلیم کر چکی تھی،چونکہ بہت سے سکوں کی ایک ساتھ نقل مکانی بھی خاصہ مشکل کام تھا۔لٰہذا وسیع سطح پر لین دین کے مقاصد کو بہتر بنانے کے لیے زر(پیسہ) کاغذی کی طرف بھی غور وخوض کیا گیا۔قیمتی دھاتوں کی کم مقدار میں فراہمی ،منتقلی میں دقت اور دیگر مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے زر کاغذی کا جراء ہوا۔اس طرح دھا تی سکوں کے ساتھ ساتھ کاغذی زر بھی استعمال ہونے لگے۔کرنسی نوٹ کسی ملک کا مرکزی بنک جاری کرتا ہے۔جیسا کہ پاکستان میں دس روپے کی مالیت سے لیکر پانچ ہزار روپے کی مالیت کے کرنسی نوٹ موجود ہیں۔ جوکہ بطور زر گردش کرتے ہیں۔جو کہ ملک کا مرکزی بنک جاری کرتا ہے۔کاغذی زر بہت جلد قابلِ قبول اور پائیدار ثا بت ہوئے کیونکہ کاغذی زر کی منتقلی سہل ،لین دین، گنتی کرنا اور نوٹ کی پہچان کرنا آسان ہے۔اب جو کہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق زر اعتبار یعنی کریڈیٹ منی بہت مقبول ہو چکی ہے ۔جس سے ملکی اور غیر ملکی تمام تر مالی کام با آسانی حل ہوجاتے ہیں۔اعتبار کے لحاظ سے بھی بہت قابلِ قبول ثابت ہو ئی ہے۔روایتی زر اعتبار کے لحاظ سے کتابی حساب،پرونوٹ،چیک،ڈرافٹ اور ٹریولرز چیک وغیرہ استعمال ہوتے ہیں۔تر سیل کے جدید طریقوں میں میل ٹرانسفر، ٹیلیگرافک ٹرانسفر،آن لائن بینکنگ،اے ٹی ایم کارڈ اور کریڈیٹ کارڈ شامل ہیں۔جو کہ آجکل زر کی منتقلی کا آسان ترین ذریعہ ہیں۔زر کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے۔ کہ ایسی چیز جسے کسی ملک کسی قوم میں ایک خاص حیثیت،ذخیرہ ہونے کی حیثیت اور قبولیت عامہ حاصل ہو،وہ زر ہے۔ معاشیات پر کارل مارکس، لینین ،فیشر، پروفیسر کراؤتھر نے بھی بہت سے نظریات پیش کیے۔

Short URL: http://tinyurl.com/y3hfqpwr
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *