ماتحت عدلیہ میں انصاف تاخیر سے ملنے کی وجوہات؟

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

  اِس موضوع  پر جب  میں نے قلم  اُٹھانے کی کوشش کی تو میرے دل و دماغ  یہ  بات واہمہ کی طرح بس گئی کہ  قانون کے  شعبہ کے   ساتھ وابستہ میری  برادری  کہیں برا  نہ منا جائے  لیکن جب کالم چھپا اورر میرے  استاد محترم جناب ڈاکٹر دل محمد صاحب سابق پرنسپل یونیورسٹی لاء کالج کا مجھے وائس میسج آیا فرمانے لگے عاصمی صاحب آپ نے درست فرمایا ہے بلکہ حالات اِس سے بھی زیادہ بُرئے ہیں اور فوجداری جوڈیشل سسٹم کا تو بیڑہ ہی غرق ہوچکا ہے اُستاد محترم کی اِس بات نے مجھے بہت حوصلہ دیا کہ میں نے یہ آرٹیکل لکھ پر اپنا فرض ادا کیا ہے پاکستان کا بالعموم اور پنجاب کا بالخصوص سول جوڈیشل سسٹم جس طرح کی ناکامی سے دوچار ہے اِس کے لیے سائیلین، ججز اور وکلاء کے درمیان نئے سوشل کنٹرکٹ ہونے کی ازحد ضرورت ہے۔ یہ کام بار ایسوسی ایشن اور ہائی کورٹ ہی کرواسکتی ہیں۔پنجاب بھر میں سول عدالتوں میں کیسوں ں کی  بھر مار لیکن ججز کی تعداد انتہائی کم۔سول کورٹس میں عملہ یعنی سٹینو  ریڈرز، اہلمد وں کی تعداد ضرویات کے مقابلے میں انتہائی کم۔خواتین ججز کے ساتھ عملے کا تعاون  بہتر نہ ہے۔ کیسوں کی بھر مار ہونے کی وجہ سے ججز کو کام کرنے میں انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔اکثر سول ججز عدالت میں بیٹھتے ہی نہیں بلکہ وہ  یا تو دوسرئے ججز کے ساتھ گپ شپ کے لیے نکل جاتے ہیں یا پھر اپنے چیمبر میں بیٹھے رہتے ہیں۔ کیسوں کی تعداد بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے ججز روٹین کے کام کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔ سول عدالتوں کا ماتحت عملہ سار ادن سائلین سے پیسے بٹورنے میں لگا رہتا ہے۔ اہلمد، ریڈرز، سٹینو سائلین کا خون چوستے ہیں اور ہزاروں روپے خرچے کے نام پر سائلین سے لیتے ہیں اور مزے کرتے ہیں۔وکلاء کی بار ایسوسی  ایشنز وکلاء کی بھلائی کی بجائے عدالتوں میں اپنے کیسوں میں سفارش کرکے ریلیف لے لیتے ہیں اور عام وکیل منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔یوں سول کورٹس میں عوام الناس روزانہ کی بنیاد پر لٹنے کے لیے آتے ہیں اور مایوسی کے عالم میں چلے جاتے ہیں۔جس جج کے پاس دو سو کیس روزانہ لگے ہوں اُس سے جو فیصلے ہونا چاہیے وہ بھی نہیں ہو پاتے۔ یوں عام سائل کا کیس کھڈئے لائن لگا رہتا ہے ور اُسے تاریخ پہ تاریخ ملتی رہتی ہے۔ججز عدالت  میں ا یک دفعہ حاضر ی لگا کر کسی ایک جج کے چیمبر میں بیتھ جاتے ہیں اور گپ شپ لگاتے  رہتے ہیں اور جب اُن سے پوچھا جائے تو ریڈر کہتا ہے کہ جج صاحب کو سینئر صاحب نے میٹنگ کے لیے بلایا ہے۔ یوں جو کام بیوروکریسی کرتی ہے کہ صا حب میٹنگ میں ہیں وہی کام سول کورٹ کے ججوں نے اپنا لیا ہے۔ ہائی کورٹ اپنے  صوبے کی عدالتوں کی انچارج ہوتی ہے۔ ہائی کورٹ کی جانب سے انسپکیشن کا نظام  صرف زبانی جمع تفریق تک ہے۔ درحقیقت کہیں بھی نظر نہیں آتا کہ سول ججز کے کام کی نگرانی کا کوئی سسٹم ہے۔ وکلاء کی بار ایسوسی ایشن کی جانب سے آئے روز ہڑتالوں کی وجہ سے رہی کسر نکل گئی ہے۔اگر سائلین ہائی کورٹ کے ایم آئی ٹی کے شعبے مں موجود ڈی جی سول جوڈیشری کو درخواست دیں کہ اُس کا کیس التواء کا شکار ہے تو جب اِس شکایت کی بابت متعلقہ سول جج سے پوچھا جاتا ہے تو متعلقہ سول جج بجائے اِس کے کہ کیس کو جلدی نبٹائے وہ اُس کیس کا ستیاناس کر دیتا ہے کہ اُس کی شکایت کیوں کی گئی۔ ہونا اب کیا چاہیے۔سول ججز کے لیے لازم ہو کہ وہ کورٹ ٹائم کے وقت میں عدالت میں اپنے کرسی سے مت اُٹھیں۔سول ججز روزانہ کی بنیاد پر کام کو نبٹائیں اور ہر سول جج کے پاس دو سٹینو ہونے چاہیے تاکہ فیصلہ جات کو لکھنے میں آسانی ہو۔سول ججز بشمول مجسٹریٹ اور ایڈیشنل سیشن ججز کے عملے، ریڈر، اہلمد، سٹینو کی نگرانی کے لیے ا  نٹیلجنس کا نظام وضع کیا جائے تاکہ  کام چور اور رشوت خور عملہ راہ راست پر آ سکے۔ ماتحت عدلیہ کے ماتحت عملے کے اثاثہ جات اور رہین سہن کے متعلق  رپورٹس تیار کروائی جائیں آبادی  میں اضافے  اور کیسوں کی تعداد میں اضافے کی شرح سے سول  ججز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔قائد اعظم  ؒ عظیم رہنماء تھے اور اُنھوں نے ہمیشہ قانون کی بالادستی کے لیے خود کو وقف کیے رکھا۔ خود وہ وکیل تھے اور پاکستان کو جس طرح اُنھوں نے حاصل کیا اُن کی شب و روز کی تگ وتاز کا اگر جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ وہ گفتار کے غازی ہی نہیں بلکہ کردار کے غازی تھے۔ اُن کی ڈکشنری میں بس یہی لکھا تھا کہ کام کام اور بس کام۔ جنوبی ایشاء کے مسلمانوں کی قیادت کرنے والے عظیم رہنماء حضرتِ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے ہمیشہ سچائی کی پاسداری کی۔ اپنے کلائنٹ سے وہ صرف کام کرنے کی فیس لیتے اگر کام نہ کرنا ہوتا تو وہ انکار فرما دیتے حتیٰ کہ وہ لی ہوئی فیس بھی واپس کر دیتے۔حضرت قائد اعظمؒ کو بخوبی علم تھا کہ بر صغیر پاک و ہند کے باسیوں کی عادات کیسی ہیں اور اُن کو کس طرح لیڈ کرنا ہے۔ اِس لیے حضرت قائد اعظمؒ نے ہمیشہ سچائی کا سہارا لیا اور اپنی قوم کو سچائی کا سبق دیا اور واضع فرمادیا کہ ہمارا دستور قران ہے اور ہمیں کسی نئے دستور کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں تو چودہ سو سال پہلے نبی پاکﷺ نے دستور عطا فرمادیا تھا۔وکالت اتنا مقدس پیشہ ہے کہ اِس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔ یہاں قانون کی بالادستی کو حکمران اشرافیہ نے خود ہی اپنے پاؤں تلے روند ڈالا ہے اور عوام الناس اور اشرافیہ کے لیے انصاف کے تقاضے مختلف ہیں۔ جن حکمرانوں نے ملک میں قانون کی بالادستی کو قائم رکھنا ہے اُن حکمرانوں کی طرف سے دن رات اپنے خلاف ہونے والے فیصلوں کی بناء پر عدالتِ عظمیٰ کے ججوں پر نکتہ چینی کی جارہی ہے۔ یوں حکمران جنہوں نے قوم کے باپ کا فرض ادا کرنا ہوتا ہے وہی حکمران اپنی قوم کو چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز ظالم ہیں۔ یوں جنہوں نے راہبری کا حق ادا کرنا تھا وہ قوم کو راہزنی کا سبق سیکھا رہے ہیں اور ایسا سب کچھ دھڑلے کے ساتھ ہورہا ہے اور کسی قسم کی کوئی شرم محسوس نہیں کی جارہی۔ بلکہ حکمران اشرافیہ نے باقاعدہ سوشل میڈیا فورس بنا دی ہے جو سوشل میڈیا پر دن رات عدالت عظمی و عدالت عالیہ کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں اور چیف جسٹس صاحب کو ایسے مخاطب کر تے ہیں جیسے وہ چیف جسٹس نہ ہو بلکہ دُشمن ملک کا کوئی فوجی ہو۔فوج کے خلاف خوب سوشل میڈیا پر  اشرافیہ نے اپنے معصوم کارکنوں کے ذریعہ سے شور مچایا۔ بات قائد اعظم سے شروع ہوئی تھی اور قانون کی بالادستی کے تصور سے ہوتی ہوئی سابق  سیاستدانوں کے رویے تک آپہنچی ہے۔ اصل میں راقم اپنی وکلاء برادری سے یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ قانون کی بالادستی کا جھنڈا ہمیشہ وکلاء نے ہی بلند رکھا ہے قانون کی بالادستی کسی ملازم کے بس کی بات نہیں۔خواہ وہ جج ہو خواہ وہ وزیر، مشیر اور یا وہ کوئی جرنیل ہو۔ قانون کی بالادستی کا کام صرف وکلاء برادری کا ہی فریضہ ہے اور اِس مقصد کے لیے وکلاء نے ہر دور کے آمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے۔ مشرف جیسے آمر کو تگنی کا ناچ نچوایا اور مشرف نے انتقام کے طور پر وکلاء کو زندہ جلادیا۔ ماتحت عدلیہ میں عام لوگ انصاف کے لیے آتے ہیں۔ سوائے طلاق اور وراثتی سرٹیفکیٹ کے اجراء کے کونسا ایسا کیس ہے جس کا فیصلہ عدلیہ کر رہی ہے۔ سالوں تک کیس چلتے ہیں اور یوں عوام عدالتوں میں ذلیل و خوار ہوتی رہتی ہے۔ غریب  لوگ ہی عدالتوں میں آتے ہیں با اثر افراد تو کسی کو اپنا حق مارنے ہی نہیں دیتے اِس لیے وہ تو انصاف عدالتوں کے باہر ہی حاصل کر لیتے ہیں لیکن عام آدمی جو کہ طاقت کے زور پر انصاف حاصل نہیں کر پاتا وہ ماتحت عدلیہ کا رخ کرتا ہے یوں دہائیوں تک کیس چلتا ہے۔ وکلاء کی بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے کسی بھی ایشو پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا بہت اہم ہے کیونکہ وکلاء قانون کی بالادستی کا ہر اول دستہ ہیں اِس لیے اِن کیجانب سے ہر معاملے پر آواز اُٹھانا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ یوں کسی بھی معاملے کو ہائی لائٹ کرنے کے لیے ہڑتال کا سہارا لیا جاتا ہے۔ حالانکہ عدالتوں میں کام جاری رکھتے ہوئے بازووں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اور احتجاجی اجلاس منعقد کرکے زیادہ موثر انداز میں احتجاج ریکارڈ کر وایا جا سکتا ہے۔ جب ہڑتا ل ہوجاتی ہے تو ہزاروں کیس التواء میں چلے جاتے ہیں۔ اور سائلین بے چارئے مزید شکست خوردگی کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں اور پھر ایک دن آتا ہے کہ اُن کا موجودہ نظامِ انصاف سے یقین اُٹھ جاتا ہے۔ اِس لیے وکلاء برادری کو اہم معاملات میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے مکمل چُھٹی کرنے کی بجائے احتجاجی اجلاس اور سیاہ پٹیاں بازووں پر باندھ کر اپنے عدالتی امور انجام دینے کا کام کرتے رہنا چاہیے تاکہ عام لوگ بے چارئے اِس سے متاثر نہ ہوں۔                                                                                                                       

Short URL: https://tinyurl.com/2hwk9mbj
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *