انسانی اعضاء کی فروخت اور جسم فروشی کا کاروبار۔۔۔ اداروں کی کارکردگی؟

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
خاکسار نے بطور چیئرمین ہیومن رائٹس فرنٹ انٹرنیشنل نے وزیر اعظم پاکستان نام ایک کھلے خط میں ویر اعظم پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر چینی باشندوں کی جانب سے پاکستانیوں لڑکیوں سے شادی رچانے اور بعد ازاں اُن سے مکروہ دھندہ کروائے جانے اور اُن کو فروخت کیے جانے کے پیچھے تمام تر کرداروں کو بے نقاب کیا جائے اور ذمہ داروں کوکیفر کردار تک پہنچایا جائے۔خاکسار نے اپنے خط میں وزیر اعظم پاکستان سے کہا ہے کہ انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کی بدولت برصغیر پر قابض ہو گئے تھے۔ چین ہمارا عظیم دوست ہے لیکن اپنے ملک کی ثقافتی، معاشرتی ، نفسیاتی، اخلاقی اور مذہبی روایا ت کا ہر صورت پاس رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔حکومت کسی بھی غیر ملکی کے ہاتھوں پاکستانی زمین فروخت کیے جانے پر پابندی لگائے۔اشرف عاصمی نے مزید کہا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کا سورج غروب تب ہو ا جب انگریز تاجروں کی حثیت سے برصغیر کے وسائل پر قابض ہوگئے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ 1857ءکی جنگ میں ہندووں نے انگریزوں کا ساتھ دیا یوں انگریز ہندوستان پر اپنی معاشی قوت کے بل بوتے قابض ہوگئے۔ مسلمانوں نے نوئے سال کی سخت محنت کے بعد پاکستان حاصل کیا اِس نوئے سال کے غلامی کے دور میں جہاں مسلمانوں کو بدترین مذہبی غلامی کا سامنا کرنا پڑا وہاں مسلمان معاشی طور پر پس کر رہ گئے۔ہندو مذہب کی بنیاد ہی چھوت چھات پر ہے۔ یوں بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ ہندووں کے سلوک نے مسلمانوں کو نشان عبرت بنا دیا۔ سرزمین ہندوستان میں مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک حکومت کی اور مسلم آبادی صرف دس فی صد تھی یوں ہندووں اور دیگر مذاہب کے ساتھ امن آشتی کو فروغ دیا گیا۔ لیکن جب انگریزوں نے ہندوستان میں آکر قدم جمائے تو ہندو اُن کے آگے بچھ گئے۔ مسلمان بدترین غربت کا شکار ہوئے لیکن مشاہیر آزادی کے قربانیوں اور محنت شاقہ سے پاکستان جیسی عظیم نعمت مسلمانوں کو میسر آئی۔ خط میںخاکسارکا مزید کہنا تھا کہ ہم معاشی ترقی کرنے کے زعم میں پھر سے اپنے آپ کو کہیں غلامی کی زنجیروں کے حوالے نہ کر بیٹھیں۔جب سے سی پیک منصوبہ شروع ہوا ہے اور چینی حکومت نے ون بیلٹ ون روڈ بنانے کے عظیم پروگرام کا اعلان کیا ہے تو اِس سے یہ بات تو طے ہوچکی ہے کہ پاکستان کے دفاع کی ذمہ داری ہمارئے ساتھ ساتھ اب چینی حکومت کی بھی ذمہ داری بن چکی ہے۔ لیکن پاکستان معاشرئے کے نفوس پذیری کے حامل افراد کو اِس بات کی طرف توجہ دینا ہوگا کہ کیا اتنے بڑئے ملک کے ساتھ اتنی بڑی معاشی شراکت کہیں پھر سے ہمیں غلامی میں نہ دھکیل دے۔آئےے چند میڈیا رپورٹس دیکھتے ہیں۔اکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی جانب سے ملک کے مختلف حصوں خصوصاً صوبہ پنجاب میں ایسے چینی باشندوں کے خلاف کارروائی جاری ہے جن پر پاکستانی لڑکیوں کو شادی کے نام پر چین لے جا کر ان سے جسم فروشی کروانے کے الزامات ہیں۔فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی یعنی ایف آئی اے کے مطابق لاہور، فیصل آباد اور دیگر علاقوں سے ایسے منظم گروہوں سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں دس سے زائد چینی باشندے شامل ہیں۔اس حوالے سے بڑی کارروائی لاہور میں عمل میں آئی جہاں حال ہی میں ایف آئی اے نے ایک خاتون سمیت آٹھ چینی باشندوں اور ان کے چار پاکستانی سہولت کاروں کو گرفتار کیا۔ایف آئی اے پنجاب کے فیصل آباد ریجن کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے بتایا کہ گرفتار کیے جانے والے افراد ‘ایک منظم گروہ کا حصہ تھے۔ یہ پاکستانی لڑکیوں کو بہتر مستقبل کا جھانسہ دے کر ان کی چینی لڑکوں سے شادی کرواتے تھے اور اس طرح انھیں چین لے جاتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ’چین لے جا کر ان پاکستانی لڑکیوں کو جسم فروشی کے کاروبار میں دھکیل دیا جاتا تھا۔’اُن کا کہنا تھا کہ انھیں موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ‘جو لڑکیاں جسم فروشی کے کاروبار کے لیے موزوں نہیں رہتی تھیں، انھیں انسانی اعضا کی تجارت میں استعمال کیا جاتا تھا۔ ان کے جسم سے یوٹرس یعنی بچہ دانی نکال کر اعضا کی بین الاقوامی بلیک مارکیٹ میں بیچ دی جاتی تھی۔ ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کے مطابق ‘گرفتار کیے گئے ان افراد سے تفتیش کی روشنی میں دیگر مقامات پر کارروائیاں عمل میں لائی گئیں۔جسم فروشی کے لیے انسانی سمگلنگ میں ملوث ان چینی گروہوں کا شکار بننے والی لڑکیوں کی صحیح تعداد کتنی ہو سکتی ہے، اس حوالے سے ایف آئی اے کے پاس مکمل اعداد و شمار تاحال میسر نہیں۔تاہم ان کو موصول ہونے والی شکایات لانے والوں میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جو چین سے واپس پاکستان آنے میں کامیاب ہو گئیں تھیں۔ ایف آئی اے نے تحقیقات کے دوران کم از کم ایک ایسی لڑکی سے پوچھ گچھ کی جو از خود سامنے نہیں آنا چاہتی تھیں۔پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر جی سیون میں مقیم مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی 20 سالہ خاتون براہِ راست میڈیا سے بات نہیں کرنا چاہتی تھیں اور نہ ہی سامنے آنا چاہتی ہیں۔ان کے والد نے مختصراً بات کی تاہم وہ بھی نہ تو اپنی شناخت ظاہر کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی ‘اس حوالے سے زیادہ بات کرنا چاہتے تھے گذشتہ برس ان کی بیٹی کی شادی ایک چینی لڑکے سے کروائی گئی تھی۔ اس کے عوض لڑکی کے بھائی کو چین میں ایک کمپنی میں نوکری بھی دی گئی تھی۔تاہم چار ماہ قبل ان کی بیٹی پاکستان واپس آ گئی تھیں۔ وہ تقریباً تین ماہ تک چین میں رہیں لیکن وہاں ‘اس کے ساتھ بہت برا ہوا۔لڑکی کے والد کے مطابق واپس آنے کے بعد لڑکی کا بھائی بھی نوکری چھوڑ کر واپس آ گیا۔ ان کا کہنا تھا ان کا خاندان یا ان کی بیٹی اس حوالے سے بات نہیں کرنا چاہتے، تاہم واپس آنے کے بعد تحقیقاتی اداروں نے ان کی بیٹی سے بات کی تھی۔ایف آئی اے کے مطابق پاکستانی لڑکیوں کی چین سمگلنگ میں ملوث گروہ پنجاب کے علاقے لاہور، قصور، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور فیصل آباد میں متحرک تھے۔چین میں شادی میں مشکلاات پیش آتی ہیں اور کثر چینی مردوں کے لیے یہ بھی تقریباً ضروری ہوتا ہے کہ جب وہ رشتہ لے کر آئیں تو ان کے پاس اپنی زمین بھی ہونی چاہیے۔ایف آئی اے کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا تاہم متاثرہ خواتین میں مسلمان لڑکیاں بھی شامل تھیں۔اگر لڑکی مسیحی ہوتی تھی تو یہ (گروہ) چینی لڑکے کو مسیحی اور اگر مسلمان ہوتی تھی تو اسے مسلمان ظاہر کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاندان ‘زیادہ تر اس حوالے سے تصدیق نہیں کرتے تھے۔ایف آئی اے کے افسر کے مطابق یہ گروہ باضابطہ طور پر لڑکیوں کی سمگلنگ کا کام کرتا تھا اور چینی باشندوں کے ساتھ ان کے پاکستانی سہولت کاروں میں ایک وکیل کے علاوہ ایک پادری، ایک مترجم بھی شامل تھا۔اس گروہ کے افراد نے ڈیوائن گارڈن لاہور کے علاقہ میں تین گھر کرائے پر لے رکھے تھے۔ شادی سے قبل ان کا وکیل سہولت کار انڈیپینڈنٹ کنسِنٹ سرٹیفیکیٹ یعنی آزادانہ اور اپنی مرضی سے شادی کرنے کا سرٹیفیکیٹ تیار کر کے لڑکیوں سے اس پر دستخط کرواتا تھا۔گروہ میں شامل لاہور سے گرفتار ہونے والی چینی خاتون کینڈس سنہ 2017 سے پاکستان میں مقیم تھی۔ وہ لڑکیوں کی نشاندہی وغیرہ میں بھی شامل تھی۔سرٹیفیکیٹ پر دستخط کروانے کے بعد پادری کی مدد سے لڑکی کی چینی لڑکے سے شادی کروائی جاتی تھی جس کے حوالے سے تقریب بھی منعقد کی جاتی تھی۔ اس کے بعد ایک ماہ کے لیے لڑکی کو ڈیوائن گارڈن کے علاقے میں واقع گھر میں رکھا جاتا تھا۔اس دوران اس کے شناختی کارڈ پر نام کی تبدیلی اور سفری دستاویز کی تیاری کی جاتی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ لڑکی کو چینی زبان بولنا سکھایا جاتا تھا۔ ایک ماہ بعد لڑکی کو لڑکے کے ساتھ چین بھیج دیا جاتا تھا۔ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کے مطابق چین میں ان لڑکیوں کو جبری جسم فروشی کے کاروبار میں ڈال دیا جاتا تھا۔ چین میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ جو خواتین جسم فروشی کے لیے موزوں نہیں رہتی تھیں انھیں اعضا کی تجارت میں استعمال کیا جاتا تھا۔تاہم پاکستان میں چین کے سفارتخانے نے رواں برس ایک بیان جاری کیا تھا جس میں انھوں نے ‘اعضا کی تجارت کا کاروبار’ چین میں ہونے کی سختی سے تردید کی تھی۔ تاہم انھوں نے لڑکیوں کو شادی کر کے چین سمگل کرنے والے گروہوں کے متحرک ہونے کے حوالے سے خبردار کیا تھا۔فیصل آباد اور لاہور سے گرفتار ہونے والے چینی باشندوں کو ابتدائی تفتیش کے بعد جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کے مطابق چینی باشندوں نے دورانِ تفتیش جرم قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس چینی باشندوں کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلانے کے لیے’موزوں شواہد اور گواہان موجود ہیں۔تاہم ان تحقیقات کے حوالے سے کئی سوالات تاحال جواب طلب ہیں جن میں زیادہ تر ایسے ہیں جن کے جوابات جاننے کے لیے تحقیات کا دائرہ کار چین تک بڑھائے بغیر ثبوت اکٹھے کرنا مشکل ہو گا۔ پاکستان میں غربت، ہوس، دین سے دوری قناعت کا ختم ہوجانا، حکمرانوں کی جانب سے عوام کو بنیادی سہولیات نہ پہنچانا، معاشرے کی بے حسی کی وجہ سے پاکستانی کرسچین و غیر مسلم لڑکیوں کا سمگل ہونا یا شادی کے نام پر فروخت ہونا۔ یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے ۔ اداروں کو چاہےے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔
چینی باشندے جو پاکستان میں آرہے ہیں وہ قانون کے پابند رہیں۔ ایسا اِس لیے بھی ہے کہ چینی باشندوں کی جان کی حفاظت کی جاسکے۔ پاکستان میں مختلف منصوبوں کیلئے آنے والے چینی باشندوں کو ویزوں کے اجراءکے عمل کا جائزہ لینے اور ملک کے مختلف علاقوں میں موجود چینی شہریوں کے ڈیٹا بینک کے قیام کی ضرورت ہے، یہ ڈیٹا بینک نادرا قائم کرے گا اور اس کے بارے میں تمام سیکورٹی ایجنسیوں کو مطلع کیا جائے گا۔ ویزوں میں توسیع دینے کے عمل کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس سہولت کے غلط استعمال کو روکنے کو یقینی بنایا جا سکے۔ معاشی ترقی کے ساتھ پاکستان کے اپنے وجود کی حفاظت بھی کرنا ضروری ہے ورنہ پاکستان چین کے زیر اثر اسِ حد تک نہ چلا جائے کہ پاکستان کہیں خدا نخواستہ نظر ہی نہ آئے۔ پاکستان کو اپنی شناخت قائم رکھنے کے لیے چینی باشندوں کی آمدو رفت کو اپنے حالات کے مطابق ڈھالناہوگا ۔بقول شاعر اپنی متی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاﺅ گے۔

Short URL: http://tinyurl.com/yxwurbmf
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *