سائبر کرائمز / الیکٹرنک کرائمز ایکٹ کی عملی صورتحال

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: صاحبزادہ مےاں محمد اشرف عاصمی
سائبر کرائم بل کیا ہے؟انسداد الیکٹرانک کرائم بل میں کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کے ذریعے کیے جانے والے جرائم کی روک تھام پرسزا¶ں کا تعین کیا گیا، جس کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سیکیورٹی اور دفاع کے خلاف مواد بند کرنے کی پابند ہوگی۔سائبر کرائم کی ایک عام تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہر ایسی سرگرمی جس میں کمپیوٹرز یا نیٹ ورکس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کسی کو ہدف بنایا جائے یا مجرمانہ سرگرمیاں کی جائیں یا انہیں مخصوص فریقین کی جانب سے خلاف قانون سمجھا جائے۔عام فہم انداز میں بات کی جائے تو مختلف سطحوں پر سائبر کرائمز میں لوگوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی، ہیکنگ، سوشل نیٹ ورکس میں استحصال، معلومات انفراسٹرکچر پر سائبر حملے، سائبر دہشتگردی، مجرمانہ رسائی، فحش پیغامات، ای میلز، دھمکی آمیز پیغامات و ای میلز، ڈیٹا تک غیرقانونی رسائی وغیرہ شامل ہیں۔پاکستان میں سائبر کرائمز کی روک تھام کے حوالے سے الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈنینس 2002 اور پاکستانی ٹیلی کمیونیکشن ری آرگنائزیشن ایکٹ 1996 جیسے قوانین نافذ ہیں، جبکہ 2009 میں پریوینٹیشن آف الیکٹرونک کرائمز آرڈنینس بھی سامنا آیا مگر یہ ابھی تک فعال نہیں ہو سکے ہیں۔ان قوانین کے تحت ہیکنگ، غیر قانونی رسائی (کسی ای میل اکاونٹ کی ہیکنگ)، مداخلت، پرائیویسی کی خلاف ورزی، الیکٹرونک و ٹیلی کام انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانے اور گرے ٹریفک سمیت دیگر کو اہم جرائم قرار دیا گیا ہے، تاہم ان میں کئی اہم سائبر کرائمز کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔بل کے متن کے مطابق سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے ہائیکورٹ کی مشاورت سے عدالت قائم کی جائے گی۔عدالت کی اجازت کے بغیر سائبر کرائم کی تحقیقات نہیں ہوسکیں گی۔سائبر دہشت گردی پر 14سال قید اور 5 کروڑ روپے جرمانہ ہوگا۔نفرت انگیز تقریر، فرقہ واریت پھیلانے اور مذہبی منافرت پر 7 سال سزا ہوگی۔دھوکہ دہی پر 3سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر شائع کرنے یا اپ لوڈ کرنے پر 7 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔انٹرنیٹ کے ذریعے دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے پر 7 سال سزا ہوگی۔انٹرنیٹ ڈیٹا کے غلط استعمال پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔موبائل فون کی ٹیمپرنگ پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔موبائل فون سموں کی غیر قانونی فروخت پر 5 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔انٹرنیٹ مہیا کرنے والوں کا ڈیٹا عدالتی حکم کے بغیر شیئر نہیں کیا جائے گا۔سائبرکرائم قانون کا اطلاق پاکستان سے باہر کسی بھی دوسرے ملک میں بیٹھ کر خلاف ورزی کے مرتکب افراد پر بھی ہوگا۔پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے لائسنس ہولڈر کے خلاف کاروائی پی ٹی اے قانون کے مطابق ہوگی۔عالمی سطح پرمعلومات کے تبادلے کے لیے عدالت سے اجازت لی جائی گی اور دوسرے ممالک سے تعاون بھی طلب کیا جاسکے گا۔سائبر کرائم قانون کا اطلاق پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا پر نہیں ہوگا۔سینیٹ کمیٹی سے منظور ہونے والے مذکورہ بل کو اب سینیٹ میں پیش کیا جائے گا، جہاں سے منظوری کے بعد یہ باقاعدہ قانون کی شکل میں نافذ العمل ہوجائے گا۔یاد رہے کہ رواں برس 14 اپریل کو قومی اسمبلی نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کا بل 2015 منظور کیا تھا، تاہم بل کو قانونی شکل دینے کے لیے سینیٹ سے اس کی منظوری ضروری تھی۔خیال رہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) انڈسٹری اور سول سوسائٹی کی مخالفت اور اس پر تحفظات کو دور کیے بغیر بل کی منظوری دی گئی تھی۔بل کے مخالفین کا کہنا تھا کہ مذکورہ قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بے جا اختیارات دینے کے مترادف ہے۔مذکورہ بل کا مسودہ آئی ٹی کی وزارت نے جون 2015 میں قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔تاہم اپوزیشن اراکین کی مخالفت اور آئی ٹی انڈسٹری کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے اسے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کو بھیج دیا گیا تھا۔آئی ٹی انڈسٹری کے نمائندوں نے زور دیا تھا کہ مذکورہ بل ان کی تجارت کے لیے نقصان کا باعث ہے بل میں کہا گیا ہے سکیورٹی ایجنسیز کی مداخلت کی روک تھام کے حوالے سے بھی اقدامات کیے جائیں گے ¾بل میں 21 جرائم کی وضاحت کی گئی ہے، جن پر پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی 30 دفعات لاگو ہوسکیں گی۔ بل کے مطابق متعلقہ حکام اس بل پر عملدرآمد کے حوالے سے سال میں 2 مرتبہ پارلیمنٹ میں رپورٹ پیش کریں گے۔ اِس بل کے سےکشن تےن کے مطابق کوئی بھی شخص اگر بدنےتی کی بناءپر کسی اےس انفارمےشن ےا ڈےٹا کو حاصل کرتا ہے جسے حاصل کےے جانے کو اُسے اختےار نہ ہو تو اُسے تےن ماہ قےد ےا پچاس ہزار روپے تک جرمانہ ےا دونوں سزائےں دی جاسکتی ہےں۔قانون کی طالب علم ہونے کے ناطے ےہ بات بہت اچھی ہے کہ کسی کو تنگ کرنے کا سلسلہ تھم سکے گا۔ لےکن بات پھر وہی ہے کہ مسجد تو بنادی شب بھر مےں اےماں کی حرارت والوں نے من اپنا پُرانا پاپی ہے برسوں مےں نمازی بن نہ سکا۔ مطلب ےہ ہے کہ قانون تو پہلے بھی بہت سے ہےں اصل معاملہ تو عمل درآمد کروانے کا ہے۔ تحقےقات کے لےے عدالت کی اجازت کو ضروری قرار دے دےا گےا ہے۔ عدالتوں کے اندر جو کےسوں کی بھر مار ہے اور جس طرح سے پراسےکےوشن کا عمل انتہائی سست ہے اِس سے کےا وہ مقاصد حاصل ہو سکےں گے جن کے لےے ےہ قانون بناےا گےا ہے۔پھر تحقےقاتی اےجنسی کی جانب سے جو رکاوٹےں ہےںوہ کون دور کرئے گا۔ رشوت اور سفارش کا کلچر ہمارئے ہاں عام ہے اِن حالات مےں کےا مثبت نتائج حاصل ہو سکےں گے۔ےہ بات درست ہے کہ کسی کی پگڑی اچھالنے والی حرکتوں کا تدارک کےا گےا ہے اور اسِ کے ساتھ ساتھ مذہبی معاملات مےں مداخلت کے حوالے سے بھی ےہ بات خوش آئند ہے کہ ملک مےں اِس طرح کے معاملات مےں دخل اندازی کرنے والوں کو گرفت مےں لاےا جائے گا۔ ملک دُشمن عناصر اور نبی پاکﷺ کی تو ہےن اور اسلامی شعائر کا مذاق اُڑانے والے بھی اب بچ نہےں سکےں گے۔اِس قانون کو کامےاب بنانے کے لےے افسر شاہی کے رواےتی ہھتکنڈوںسے بچنا ہو گا اور اِس حوالے سے پہلے سے بدنام اداروںسے اِن جرائم کی تفتےش کروانے کی بجائے کوئی نئی فعال اور تازہ دم اور تربےت ےافتہ اےجنسی کا انتظام کرنا ہوگا۔فےس بُک ، ٹےوٹر وغےر پر بےٹھ کر جو اےک دوسرئے کو گالےاں دےنے کا سلسلہ ہے وہ ےقےنی طور پر رُکے گا۔عدم برداشت کے عمل مےں بھی کچھ کمی آئے گی۔

Short URL: http://tinyurl.com/yy86n6ja
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *