قران مجید اور دہشت گردی۔۔۔۔ تحریر: حافظ شمس الرحمن، اوریاخیل
قران جس عہد اور جس سماج میں نازل ہوا،اس کا سب سے تکلیف دہ پہلو لا قانونیت،بد امنی اور غارتگری تھا۔ لا قانونیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جزیرۃالعرب میں باظابطہ کسی حکومت کا وجود نہیں تھا، عرب کے گرد وپیش جو حکومتیں قائم تھیں، وہ نسلی برتری پر یقین رکھتی تھیں اور جو انسانی سماج پیدائشی عظمت اور تحقیر کے تصور پر قائم ہو ظاہر ہے کہ وہاں عدل و انصاف کا قائم ہونا ممکن نہیں ایسے ماحول میں اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید کے نزول کا آغاز ہوا،اس کتاب میں جو سب سے پہلے آیت نازل ہوئی اس میں علم اور قلم کی اہمیت کو بتایا گیا کہ تمام انساوں کا مادہ تخلیق ایک ہی ہے، اس میں انسانی وحدت کی طرف اشارہ تھا،علم انسان کو قانون کا پابند بناتاہے اور انسانی مساوات کے تصور سے عدل کاجذبہ ابھرتا ہے اور تکریم انسانیت کا عقیدہ پروان چڑھاتا ہے، اسی لئے ایک ایسا ملک جو امن وامان سے یکسر محروم تھا اور جہاں ظلم اور دہشت گردی نے قانون کا درجہ حاصل کر لیا تھا، اسلام نے اس کو امن و سلامتی سے ہمنکار کیا، انسانی اخوت کا سبق پڑھایا اور رسولﷺ کی وہ پیشن گوئی پوری ہوئی کہ ایک خاتون تنہا اونٹنی پر سوار ہو کر صنعاء یمن سے شام تک کا سفر کرے گی۔
اس نے اپنے متنعین کے لئے دو ایسی تعبیرات اختیار کیں جن کے معنی ہی (امن وامان) اور (صلح وسلامتی) کے ہیں یعنی (مومن اور مسلم) مومن کے معنی امن دینے والے کے ہے اور مسلم کے معنی صلح اور دسروں کی سلامتی کا لحاظ رکھنے والے کے ہے ، اس کتاب کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوئی جس میں اللہ تعالی کی رحمت عامہ ،اور آپﷺ کے مہربان ہونے کا ذکر ہے اورپہلی سورت کی پہلی آیت میں ہی خدا کو تمام کا رب قرار دیا اور تمام عالم کا رب کہہ کر پوری انسانیت کو رشتہ اخوت میں باندھ دیا گیا، غرض کہ قران مجید امن وامان،انسانی اخوت اور آفاقیت کا علمبردار ہے!لیکن بدقسمتی سے سورج پر تھوکنے کی کوشش کی جارہی ہے اور بعض تنگ نظر حضرات یہ کہنے کی جسارت کررہے ہے کہ قرآن مجید میں کچھ نقض ہے جس کی وجہ سے اس کتاب کے پڑھنے والوں میں دہشتگردی کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔یہ ایسی بہتان تراشی ہے کہ کوئی ایسا شخص جس نے سرسری طور پر بھی قرآن مجید کا مطالعہ کیا ہوگا وہ ہر گز اس سے متاثر نہیں ہوسکتا،کہ یہ دن کو رات اور برف کو آگ کہنے کے مترادف ہے!
قران کے احکام جہاد سے یہ غلط فہمی پیدا کی جاتی ہے کہ وہ بے قصور،کسی بھی غیر مسلم پر حملہ کردینے کی اجازت دیتا ہے ۔حالانکہ اسلام نے اس کو قطعاً غیر اصولی اور غیر انسانی حرکت قراردیاہے،قرآن نے قاعدہ مقرر کیا ہے کہ ایک شخص کی غلطی کا بوجھ اور اس کی ذمہ داری دوسرے پر نہیں ڈالی جاسکتی۔اسی طرح قرآن نے ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قراردیا ہے، اس سے اگر اگے جاکر دیکھا جاے تو قرآن نے ان اسباب کو بھی روکنے کی کوشش کی ہے جو دہشتگردی کا موجب بنتے ہیں،زیادہ تر دہشتگردی کا سبب یہ بات ہوتی ہے کہ لوگ دوسروں کو جبراً اپنے مذہب وعقیدہ کامتبع بنانا چاہتے ہیں،قران مجید نے صاف اعلان کردیا کہ دین کے معاملہ میں جبر و اکراہ کوئی گنجائش نہیں ہے۔
لھذا کسی معاشرہ میں دہشتگردی کے پہیلنے کا اصل سبب ظلم و نا انصافی ہے ،جو گروہ مظلوم ہوتا ہے،اگر وہ ظالم کا مقابلہ نہیں کر پاتا ہے اور انصاف کے حصول سے محروم رہتا ہے،تو اس میں منتقمانہ جذبات پرورش پاتے ہیں، اور جب وہ دیکھتا ہے کہ قانونی راستے بند ہیں،تو غیر قانونی راستہ اختیار کر لیتا ہے،اس لیئے دہشت گردی کو روکنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ معاشرہ میں ظلم وجبر کا دروازہ بند کیا جائے ،اور عدل و انصاف کو پوری غیرجانبداری کے ساتھ نافذ کیا جاے تا کہ دہشت گردی پر ابھارنے والے عوامل باقی نہ رہیں،اسی لیے قرآ ن نے جگہ جگہ عدل کا حکم دیا ہے اور اسکی بڑی تاکید کی ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عالم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نہایت شدت کے ساتھ دہشتگرد ہونے کا پروپیگنڈہ کیاجارہا ہے ،حالانکہ خود مسلمان ملکی اور علمی دہشتگردی کا نْشانہ بنے ہوئے ہیں،مسلمان اگر اپنے ملک میں بھی خود اپنی خواہش اور مرضی سے اسلامی نظام حیات کو نافذ کرنا چاہتے ہیں تو ان کو تہذیبی تصادم اور شدت پسندی کا نام دے کر مداخلت کی راہ ہۂوار کی جاتی ہے ۔یہاں تک کہ قرآن جیسی عظیم کتاب کو بھی نشانہ تنفید بنایاجارہاہے،اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ مسلمان ہمت ہار جائیں، وہ مغرب کی ریشہ دوانیون کی سامنے سرنگوں ہو جائیں اور اسلام کے بارے میں احساس کمتری میں مبتلا ہوکر رہ جائیں،پس ان حالات میں مسلمانوں کو اپنا حوصلہ بلند رکھنا اور صبر واستقامت کی راہ اختیار کرنا ضروری ہے۔
Leave a Reply