سانحہ پشاور ایک داستانِ رنج و الم

marwa-malik
Print Friendly, PDF & Email

تحریر :مروا ملک


تمام عالم کیلئے رحمت بن کر آنے والے رہبرِ کامل محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات رہتی دنیا تک تمام انسانوں کیلئے کامل نمونہ ہے۔آپ ﷺ نے جہاں بڑوں کا احترام سکھایا وہیں بچوں پر رحم کرنے کی بھی تلقین فرمائی۔ہر ایک موقع پر صلح رحمی کی تلقین فرمائی۔آپ ﷺ نے ہر مسلمان مرد و عورت پر تعلیم حاصل کرنا فرض قرار دیا۔گود سے گور تک علم حاصل کرنے کا درس دیا،جبکہ ایک اور جگہ فرمایا کہ علم حغاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔مگر افسوس کہ اس دنیا میں بسنے والے کچھ نام نہاد انسانوں نے نہ صرف اسلام بلکہ انسانیت کا چہرہ بھی مسخ کر ڈالا ہے۔جس محمدِ عربی ﷺ کے دین کو ڈھال بنا کر مکروہ کام کرنے میں مصروفِ عمل ہیں اس کا اسلام سے دور دور تک کوئی گٹھ جوڑ نظر نہیں آتا ہے۔دسمبر کے آتے ہی ایک رنجیدہ سا سوز دل کے نہاں خانوں سے اٹھتا محسوس ہوتا ہے اور کرتے کرتے بالآخر اشکوں کی صورت آنکھوں سے امڈ آتا ہے۔سانحہ پشاور کوئی چھوٹا سانحہ نہیں تھا۔اس سانحے میں شہید ہونے والے بچے ہمارا مستقبل تھے۔انھوں نے جان جانِ آفریں پر قربان کر دی مگر اس قوم کو مزید دلیر اور بہادر کر گئے ہیں۔سانحہ پشاور کو دو سال مکمل ہو گئے اور ہر چند کوشش کے باوجود غم ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔آنکھ کی نمی دل کی کیفیت کی عکاس ہوتی ہے اور جب جب شہداء پشاور کا ذکر ہوتا ہے دل خون کے آنسو روتا ہے۔
دنیا میں شب و روز ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جنھوں نے دل دہلا کر رکھ دیے مگر اس سانحہ نے پوری دنیا کی روحوں تک کو جھنجوڑ ڈالا۔اس طرح کی سفاکی نہ پہلے کبھی دیکھی اور خدا نہ کرے کبھی دیکھنے میں آئے۔اے پی ایس کے بچے ایسا غم دے کر گئے ہیں جو آتی صدیوں تک بھی بھولے سے نہ بھول پائے گا۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ظلم کی تاریخیں رقم کرنے والے نیست و نابود ہوگئے اور ان کا تذکرہ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔فلسطین، عراق، برما، ہیروشیما ، ناگاساکی پر ڈھائے گئے مظالم کسی کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہیں، انسانیت کا دھجیاں اڑانیت والے انسان کیا جانور کہلانے کے بھی قابل نہیں ہیں۔سانحہ پشاور کی مد میں دشمن نے ایسا گہرا گھاؤ ہے کہ اس کا زخم شاید کبھی مندمل نہ ہو پائے۔
کہتے ہیں محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔مگر جنگ بھی اپنے لیول پر لڑی جاتی ہے۔کمزور نہتے بچوں کو بنا قصور کے مارنا اور انکو خون کرنا کہاں کی جرات و بہادری ہے؟جنگ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں جس میں بچوں، عورتوں، بوڑھوں حتیٰ کہ جانور پودے کھیت کھلیان سب کی خلاصی ہوتی ہے۔ ان تمام کو کسی بھی قسم کی جنگ میں شامل نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کا نقصان پہنچایا جاتا ہے۔مگر افسوس کہ دینِ اسلام کے نام پر اپنی کھوکھلی شہرت حاصل کرنے والے مردور ان سب باتوں سے شاید لاعلم ہیں۔اللہ کا عزاب عنقریب ان کو لقمہ اجل نصیب کرے گا اور یہ کتے کی موت مر مٹ جائیں گے۔نام رہے گا تو صرف حق کا ، بول بالا ہوگا تو انصاف کا اور نعرہ ہو گا تو اسلام زندہ باد پاکستان پائندہ باد کا۔
بچوں کا من سچائی کی روشن سے منور ہوتا ہے اور معصومیت میں فرشتہ صفت ہوتے ہیں۔ان کا نہ تو کسی سے جھگڑا ہوتا ہے، نہ ہی کینہ و بغض شیوا۔معصومیت اور مسکراہٹ ان کا پیرہن ہوتا ہے۔مگر افسوس در افسوس ان کی معصومیت اور مسکراہٹوں کو 16دسمبر 2014کو موت کی گھاٹ اتار دیا گیا۔نشانوں پر رکھ کر علم کے نور سے منور سینوں کو چھلنی کیا گیا۔ان کی چیخ و پکار سے عرشِ معلی کے پائے تک لرز اٹھے ہوں گے مگر جن کے دل نہ لرزے وہ خود کو طالبان کہتے ہیں ۔ وہ دہشت گرد ہونا اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے ہیں۔درندہ صفات یہ لوگ دنیا والوں پر ظلم کے پہاڑ تور کر خود کو جنت اور اس کی حوروں کا حقدار جانتے ہیں۔ تف ہے ایسوں کی سوچ اور عمل پر جو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہونے کے سبق کو بھول بیٹھے ہیں۔ ماؤوں کے لختِ جگر چھین کر ان کی گودیں اجاڑ کر خود کو طاقتور سمجھنے والے آپ اپنی ذات میں کس قدر چھوٹے اور کم ظرف تھے۔اے پی ایس کے بچے ہمارے درمیان صرف اپنی یایں چھوڑ گئے ہیں۔یونیفارم پہن کر جانے والے بچوں کو جب کفن پہنا کر سپردِ لحد کیا گیا ہوگا تو ان کے والدین پر کیا قیامت گزری ہوگی۔شاید اس درد و کرب کا اندازہ یہ مادر پدر آزاد لوگ کبھی نہ کر سکیں۔سچ تو یہ ہے کہ دکھ اور درد کا تعلق انسانیت سے ہے اور جن لوگوں میں انسانیت کا جذبہ نہ ہو وہ اسی طرح کے مکروہ و گھناؤنے کرداروں میں نظر آتے ہیں۔جانوروں سے بدتر حالت میں زندہ رہنے والے ایسے لوگ مرتے بھی کتے کی موت ہیں۔
پشاور سانحے میں شہید ہونے والے بچوں کی تعداد 132اور سکول عملے کے 146افراد شہید ہوئے تھے۔اتنا گھناؤنا عمل کرنے والے کتے کی موت مر گئے۔نہ ان کی شناخت تھی نہ انھیں کوئی یاد کرنا چاہتاہے۔وہ صرف قابلِ نفرت ہیں۔سانحہ پشاورکے زخم آج بھی تروتازہ ہیں۔اس سانحے نے جہاں ایک دفعہ پھر قوم کو متحد کیا وہیں اس خواہش کا راگ الاپنے والے بھی خاموش ہو گئے جو اس مسئلے کا حل صرف مذاکرات میں دیکھتے تھے۔ہمیں آج بھی یاد ہے کہ سیاسی پشت پناہی اور مفاد پرستی نے صرف اور صرف ان معصوم بچوں کی جان لے لی۔ ہر معاملے میں صرف کرسی کو عزیز رکھا گیا اور ٹال مٹول سے یہ دن دیکھنا پڑا۔ہر سیاستدان نے خوب سیاست چمکائی چاہے طالبانائزیشن کو پروموٹ کر کے یا اس کے خلاف بول کر۔سب اندرونی طور پر ایک ہیں۔ کیونکہ انھی دہشت گردوں کو سیاسی میدان میں اپنے مفادات کی لیے ماضی میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔چلیں اس بات سے عوام دوبارہ متحدتو ہوئی اور ہمارے سیاست دان بھی ایک میز پر اکٹھے ہوگئے تھے۔حالانکہ جن جن کو یہ سب ناگوار گزر رہا تھا وہ بارہا دبے لفظوں میں بیانات بھی دیتے رہے۔مزے کی بات کہ ان بیانات کابلاواسطہ تعلق ایسا نظر آتا تھا جیسے وہ طالبانوں کو حوصلہ دے رہے ہوں کہ ہماری پوزیشن سمجھنے کی کوشش کرو ہم اندرونی طور پر تمہارے ساتھ ہیں۔فوجی عدالتوں کا قیام اور سات سال بعد سزائے موت پر پابندی ہٹائی گئی ۔یہ ایک خوش آئند بات تھی کیونکہ مارنے والوں کو پتہ چلنا چاہیے کہ یہ ملک لاوارثوں کا نہیں ہے کہ جس طرح کے ظلم چاہیں گے وہ کریں گے اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں گے۔جب ایک ایک مجرم کو تختہ دار پر لٹکایا جائے کا تبھی سبق پکڑیں گے اور آئندہ قومی سلامتی کو چیلنج کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔میں یہاں طالبان کا لفظ استعمال کر رہی ہوں اور یہ بہت سے لوگوں کو سیخ پا بھی کر دے گا کیونکہ اس ملک کی ریت بن چکی ہے کہ سچ کو پسِ پشت ڈال دیا جائے۔میں صرف ایک بات جانتی ہوں شدت پسند ہوں چاہے دہشت گرد ، ان کی اصل صرف اور صرف طالبان ہے اور یہ لوگ ذہنی طور پر بیمار ہیں۔ان کے حامی بھی انھی کے صف کے لوگ ہیں۔انھی چاہئے کہ اپنی سوچ کے زاویے بدلیں اور مملکتِ پاکستان کے حق میں بھی کچھ اچھا کرنے کی کوشش کریں۔اس مٹی کا قرض ابھی چکانا ہے،اگر ہم اپنے فرائض وقت سے پہلے سمجھ لیتے تو اتنا بڑا سانحہ کبھی پیش نہ آتا۔ ہم بحثیتِ قوم ایک ہیں۔ہم اس قومی سانحے کو کبھی فراموش نہیں کر پائیں گے اور اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ مٹی اور تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ہمارا منصفوں میں نہیں بلکہ ظالموں کے ساتھ لکھا جائے گا۔ایک بے حس قوم میں ہمارا شمار ہوگا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ آج دو سال گزرنے کے بعد بھی شہداء کے لواحقین کو انصاف نہیں مل سکا۔

Short URL: http://tinyurl.com/zdhfs57
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *