ملکی وسائل، سیاستدان اور بیوروکریسی

Safdar Ali Khan
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: صفدر علی خاں

کئی بار عرض کرچکا ہوں کہ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں،صرف بدنظمی ہے،موجودہ بحران پر قابو پانے کے لئے جونہی حکومت کوئی موثر حکمت عملی اختیار کرتی ہے تو اپوزیشن اور میڈیا بیپرکی اڑا کر افراتفری پھیلادیتے ہیں،قومی مفاد میں مل بیٹھ کر معاملات کو سلجھانے کی کوئی مثالی کاوش سردست نظر نہیں آئی،عالمی مالیاتی ادارے کی کڑی شرائط تسلیم کرلینے کے بعد اب حکومت کی جانب سے جب سخت فیصلوں کا اعلان ہوتا ہے تو میڈیا کی جانب سے مالیاتی بحران کے حوالے سے خوف و ہراس پیدا کرنیوالی خبریں ماحول پر مایوسی کے سائے پھیلادیتی ہیں بالکل ایسے گزشتہ دنوں انگریزی اخبار کی خبر پر فنانس ڈویژن کو وضاحت پیش کرنا پڑی،فنانس ڈویژن نے حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن روکنے کی رپورٹس کو سراسر غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے اس طرح کی کوئی ہدایات جاری نہیں کیں۔دوسری طرف اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان نے تصدیق کی ہے کہ تنخواہوں اور پنشن کے عمل کا آغاز کردیا گیا ہے اور اسے بروقت ادا کیا جائے گا،دیگر ادائیگیاں بھی اپنے معمول کے مطابق کی جارہی ہیں ”پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک ملک کے وسائل کے بارے میں غلط معلومات فراہم کی جاتی رہی ہیں،پاکستان پر مشکل ضرور آئی ہے مگر اس سے نکلنا اتنا محال بھی نہیں جتنا میڈیا میں panic پھیلاکر خوف وہراس پیدا کیا جارہا ہے،سیاستدانوں کے ساتھ 75برسوں سے یہ مسئلہ رہا ہے کہ انہیں اقتدار میں شارٹ کٹ طریقے سے انٹری کی خواہش چین سے کوئی کام بھی ڈھنگ سے کرنے نہیں دیتی،اب اپوزیشن اس خواہش کی اسیر نظر آتی ہے اور ملک کے بنیادی بڑے اہم مسائل پر حکومت کی پیشکش کے باوجود مل بیٹھ کر کام کرنے کی بجائے صرف الیکشن کرانے کا راگ الاپ رہی ہے،الیکشن تو ویسے بھی قریب آرہے ہیں،اور کچھ ہی دنوں بعد صورتحال بھی کلیئر ہوسکتی ہے مگر اسکے لئے سیاستدانوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ بھی تو کرنا ہے،ملک کے مسائل گھمبیر بنانے کا عمل ترک کرنے میں پہل کرکے سیاسی جماعتوں کے سربراہ اچھی مثال بھی تو قائم کرسکتے ہیں اور الیکشن کا انعقاد بھی تو سردست سیاستدانوں کے اپنے ہاتھ میں ہے،پاکستان کو اپنا وطن سمجھ کر چلیں تو پھر مسئلہ ہی باقی نہیں رہتا،مذاکرات کے دروازے کھول کر الیکشن سمیت تمام تنازعات نمٹانے کا عمل خود ہی شروع کرلیں تو سیاستدانوں پر کسی نے کوئی پابندی تو لگائی نہیں،اپنی جھوٹی اناؤں کے بت پاش پاش کرنے میں تاخیر سے یہ خود اپنا ہی نقصان کررہے ہیں،سیاستدان معیشت کی بحالی کے لیے سب کچھ کرنے کی صلاحیت رکھنے کے جب دعوے کررہے ہیں تو پھر یہ ایک صفحے پر آکر اس کام کواحسن طریقے سے انجام کیوں نہیں دیتے؟,کون ان کے بازو مروڑ رہا ہے؟۔اس وقت سے ڈریں جب اس طرح کی آزادی نہیں رہے گی تو پھر مل کر بحالی جمہوریت کی تحریک چلانے کی روایت زندہ کرنے کا بھی کیا فائدہ؟ اس وقت بیورو کریسی سمیت اداروں کو مل کر درست ٹریک پر لانے کی سنجیدہ کاوش کرنے میں کیا حرج ہے،اقتدار حاصل کرنے کی جلد بازی اور اقتدارکو طول دینے کے سبھی طور طریقے اب ترک کرنا ہونگے،ملکی وسائل کے ضیاع کے راستے بند کرنے کی خاطر سیاستدان خود کو مخلص حب الوطن ثابت کرنے کا موقع کیوں ضائع کررہے ہیں،ملکی وسائل ضائع کرنے والوں کے ”مائنڈ سیٹ”کو تبدیل کیئے بغیر مسائل حل نہیں ہونگے،ایسے” مائنڈ سیٹ ”کی نشاندہی تو شہرہ آفاق رائٹر سعادت حسن منٹو برسوں قبل کرچکے،”سعادت حسن? منٹو لکھتے ہیں کہ میں شدید گرمی کے مہینے میں ھیرا منڈی چلا گیا۔جس گھر میں گیا تھا وھاں کی نائیکہ 2 عدد ونڈو ائیر کنڈیشنرز چلا کر اپنے اوپر رضائی اوڑھ کر سردی سے کپکپا رھی تھی۔میں نے کہا کہ میڈم دو A/C چل رھے ھیں آپ کو سردی بھی لگ رھی ھے آپ ایک بند کر دیں تا کہ آپ کا بل بھی کم آئے?گا تو وہ مسکرا کر بولی کہ، ”اساں کیہڑا اے بل اپنی جیب وچوں دینا اے”۔ منٹو کہتے کہ کافی سال گزر گئے اور مجھے گوجرانوالہ اسسٹنٹ کمشنر کے پاس کسی کام کے لیے جانا پڑ گیا شدید گرمی کا موسم تھا، صاحب جی شدید گرمی میں بھی پینٹ کوٹ پہنے بیٹھے ھوئے تھے اور 2 ونڈو ائیر کنڈیشنرز?فل آب و تاب کے ساتھ چل رھے تھے اور صاحب کو سردی بھی محسوس ھو رھی تھی۔میں نے کہا کہ جناب ایک A/C بند کر دیں تاکہ بل کم آئے گا تو صاحب بہادر بولے، ‘اساں کیہڑا اے بل اپنی جیب وچوں دینا اے”.منٹو کہتا کہ میرا ذھن فوراً اسں محلہ کی نائیکہ کی طرف چلا گیا کہ دونوں کے مکالمے اور سوچ?ایک ہی جیسی تھی، تب میں پورا معاملہ سمجھ گیا۔یعنی اس ملک کے ادارے ایسی ہی نائیکہ جیسی سوچ رکھنے والے افراد کے ہاتھوں میں ہیں۔”ان حالات میں اگر سیاستدان آج بھی اقتدار کی رسہ کشی کی خاطر تصادم کا راستہ چھوڑ کر ملکی مفاد میں یکجا نہیں ہونگے تو پھر ملکی وسائل کی لوٹ مار و پستی کا سلسلہ کیسے روکے گا؟

Short URL: https://tinyurl.com/2nowa2gn
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *