عقیقہ۔۔۔! اولاد سے تکلیفیں دور کرنے کا نبویؐ طریقہ

M. Tariq Nouman Garrangi
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو لاتعداد نعمتیں عطا کی ہیں اور ان نعمتوں پر انہیں اظہار تشکر کا حکم دیا ہے اگر نعمت مل جانے کے بعد بندہ باری تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے تو وہ پھر ان نعمتوں میں اضافہ فرماتا ہے اگر شکرانِ نعمت کے بجائے کفرانِ نعمت کرتاہے تو پھر قانونِ خداوندی ہے کہ اِ ن عذابی لشد ید۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت بچہ یا بچی کی پیدائش بھی ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر ان لوگوں سے پوچھیں جو اولاد سے محروم ہو۔اکثر لوگ بچی کی پیدائش پہ مرجھا جاتے ہیں جبکہ بچی کی پیدائش اور اس کی صحیح تربیت حصول جنت کا سبب ہے۔یہی وجہ ہے کہ نہ صرف بچے کا عقیقہ کرنے کا حکم ہوا بلکہ بچی کی پیدائش کی خوشی میں بھی عقیقہ کرنا چاہئے۔
عقیقہ کی حکمت و اہمیت
عقیقہ کے لغوی معنی کاٹنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں نومولود بچہ / بچی کی جانب سے اس کی پیدائش کے ساتویں دن جو خون بہایا جاتاہے اسے عقیقہ کہتے ہیں۔ عقیقہ کرنا سنت ہے۔ رسول اللہ اور صحابہ کرام سے صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی اور رہن رکھا ہوا ہے “(ترمذی شریف 1522،باب عقیقہ کابیان)
سلمان بن عامر الضبی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا” بچے کے ساتھ عقیقہ ہے، تو تم اس کی جانب سے خون بہا ؤاور اس کی گندگی دور کرو “(بخاری شریف،5427، باب عقیقہ کے دن بچے کے بال مونڈنا)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بچے کی جانب سے پور ی دو اور بچی کی جانب سے ایک بکری ذبح کرنیک کا حکم دیا “(سنن ترمذی،1513ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے، سنن ابن ماجہ،3163)
ام کرز رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” بچے کی جانب سے دو بکریاں اور بچے کی جانب سے ایک بکری ہے، اس میں کوئی نقصان نہیں کہ وہ بکرا ہو یا بکری ہو “(سنن ترمذی1516، سنن ابو داؤد2835 ،سنن ابن ماجہ3162)
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ رہن اور گروی رکھا ہوا ہے، اس کی جانب سے ساتویں روز ذبح یا جائے، اور اس کا سر مونڈا جائے اور نام رکھا جائے “(سنن ترمذی 1522، سنن ابن ماجہ (3165)
کان میں اذان واقامت کہنا
جب بچہ پیدا ہو تواس کو نہلا دھلا کر، اورکپڑے پہنا کر سب سے پہلے اس کے دائیں کان میں اذان کہہ دیں، اوربائیں کان میں اقامت یعنی تکبیر کہہ دیں۔(مشکوۃ شریف مع حاشیہ،ج2:،ص:359)
تحنیک کرانا
اگر اس وقت کوئی بزرگ قریب ہوں اور موقع ہو تو ان سے تحنیک کرائیں، کیونکہ یہ سنت ہے۔ تحنیک یہ ہے کہ ان کی خدمت میں ایک دو کھجور پیش کریں اور وہ اپنے منہ میں اس کو چبا کر بچہ کے منہ میں ڈال دیں (اور کچھ بچہ کے تالو میں لگائیں) اور بچہ کے لیے خیر وبرکت کی دعا کریں۔ (مشکوۃشریف، ج:2، ص:362، وتکملہ فتح الملہم، ج:4، ص:200)
آیت الکرسی اور چاروں قل پڑھ کر شہد پر دم کر کے تھوڑا سا شہد بچہ کو چٹانا بھی جائز ہے۔ اس سے بھی تحنیک (کی سنت ادا)ہوجاتی ہے۔ (حوالہ بالا)
ولادت کے ساتویں دن مستحب اعمال
عقیقہ کرنا
جب کسی کے لڑکا یا لڑکی پیدا ہو تو بہتر ہے ساتویں دن ا س کا عقیقہ کردیں، لڑکا ہو تو دو بکرے یا دوبکری یا دودنبے یا دو بھیڑ ذبح کردیں، اور لڑکی ہو تو ایک بکرا یا ایک بکری وغیرہ ذبح کردیں یا گائے میں لڑکے کے دو حصے اور لڑکی کا ایک حصہ لے لیں یا پوری گائے سے عقیقہ کرلیں، سب جائز ہے۔
اگر کسی کو زیادہ توفیق نہ ہو اور وہ لڑکے کی طرف سے ایک بکرایا ایک بکری ذبح کردے تو بھی کچھ حرج نہیں۔ (تنقیح الحامدیہ، ج2:، ص:233)
اور اگر کوئی بالکل ہی عقیقہ نہ کرے تو بھی کچھ حرج نہیں، کیونکہ عقیقہ کرنا مستحب ہے، واجب نہیں۔(مشکوۃ ج:2، ص:363 وبہشتی زیور، ج:3،ص:43)
ولادت سے پہلے عقیقہ کرنا جائز نہیں،اگر کوئی کرے گا تو وہ عقیقہ نہ ہوگا، بلکہ یہ ذبیحہ گوشت کھانے کے لیے ہوگا۔ (المجموع شرح التہذیب،ج:9،ص:245)
دعا عقیقہ
جب کسی لڑکے یا لڑکی کے عقیقہ کا جانور ذبح کیاجائے تو ذبح کرنے والا یہ دعا کرے:
بِسمِ اللہِ واللہ اکبر اللہم لک واِلیک عقِیقۃ فلان۔
ترجمہ:اللہ تعالی کے نام سے اور اللہ تعالی سب سے بڑا ہے، اے اللہ!یہ آپ کی رضا کے واسطے محض آپ کی بارگاہ میں فلاں کے عقیقہ کا جانور ذبح کرتاہوں۔
اور یہ دعا کریں:
اللہم ہذِہ عقِیقۃ ابنِی فاِن دمہا بِدمِہ ولحمہا بِلحمِہ وعظمہا بِعظمِہ وجِلدہا بِجِلدِہ وشعرہا بِشعرِہ، اللہم اجعلہا فِداء لِابنِی مِن النارِ۔ (تنقیح الحامدیہ، ج:2،ص:233)
ترجمہ:یااللہ!یہ میرے بیٹے/بیٹی کا عقیقہ ہے، لہٰذا اس کا خون اس کے خون کے بدلہ، اس کا گوشت اس کے گوشت کے بدلہ، اس کی ہڈیاں اس کی ہڈیوں کے بدلہ، اس کی کھال اس کی کھال کے بدلہ، اس کے بال اس کے بالوں کے بدلہ میں ہیں، یا اللہ!اس کو میرے بیٹے/ بیٹی کے بدلہ دوزخ سے آزادی کا بدلہ بنادے۔
عقیقہ کے مسائل
جس جانور کی قربانی جائز ہے، اس میں عقیقہ کرنا بھی جائز ہے، جیسے:اونٹ، گائے، بھینس، بکرا وغیرہ اور اونٹ، گائے میں عقیقہ کے سات حصے رکھ سکتے ہیں، مثلا کسی شخص کے تین لڑکے اور ایک لڑکی ہو اور وہ ان سب کے عقیقہ میں ایک گائے یا ایک اونٹ ذبح کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ (ہندیہ، ج:5،ص:304)
گائے، بیل وغیرہ میں کچھ حصے قربانی کے اور کچھ حصے عقیقے کے رکھنا جائز ہے۔(حوالہ بالا)
جس جانور کی قربانی جائز نہیں، جیسے: ہرن، نیل، گائے وغیرہ، اس سے عقیقہ کرنا بھی جائز نہیں، اور جس جانور کی قربانی جائز ہے، جیسے: گائے، بیل اور بکرا وغیرہ، اس سے عقیقہ بھی درست ہے۔ (حوالہ بالا)
عقیقہ کے گوشت کے تین حصے کرنا مستحب ہیں: ایک حصہ صدقہ کردیں، ایک حصہ پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو دے دیں، اور ایک حصہ گھر میں رکھ لیں۔(حوالہ بالا)
عقیقہ کے گوشت سے دعوت کرنا بھی جائز ہے، نیز عقیقہ یا قربانی کا گوشت ولیمہ کی دعوت میں استعمال کرنا جائز ہے۔(شامیہ، ج:6، ص:326 اور ماخذہ بہشتی زیور کا حاشیہ، ج:3،ص43)
سرکے بال منڈوانا
بچہ/بچی کی ولادت کے ساتویں دن سر کے بال منڈوادیں، خواہ پہلے سرمنڈوائیں، پھر عقیقہ کریں یا پہلے عقیقہ کریں، پھر سر کے بال منڈوائیں، دونوں طرح جائز ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ پہلے بچہ کے سر کے بال منڈوائیں، پھر عقیقہ کا جانور ذبح کریں۔ (حاشیہ بہشتی زیور، ج:3،ص43)
بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنا
بچہ/بچی کے سر کے بال منڈوانے کے بعد بالوں کے وزن کے برابر سونا یا چاندی خیرات کردیں (چاندی سے اس کا اندازہ رقم میں تقریبا پانچ سو روپے سے ایک ہزار روپے تک ہے، یہ رقم صدقہ کردیں)اور بالوں کو کسی جگہ دفن کردیں۔ (مشکوۃ، ج:2،ص:362)
لڑکے اور لڑکی کا سر منڈوانے کے بعد اگر زعفران میسر ہو تو تھوڑا سا زعفران پانی میں گھول کر روئی وغیرہ سے اس کے سر پر لگادیں اور اگر زعفران نہ ہو تو کچھ حرج نہیں، کیونکہ یہ عمل بہتر ہے، ضروری نہیں ہے۔ (حوالہ بالا)
ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکنے کا حکم
اگر کوئی ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکے تو آئندہ جب کرے ساتویں دن کا خیال کرنا مستحب ہے، ا س کاآسان طریقہ یہ ہے کہ جس دن لڑکا یا لڑکی پیدا ہو، اس سے ایک دن پہلے عقیقہ کردیں، مثلا اگر لڑکا جمعہ کے دن پیدا ہوا ہے تو جمعرات کو عقیقہ کردیں اور اگر جمعرات کو بچہ پیدا ہواہے تو بدھ کو عقیقہ کردیں، اس طرح جب بھی عقیقہ کیا جائے گا، وہ حساب سے ساتواں دن پڑے گا۔(شرح المہذب، ج:9،ص:245)
اگر کوئی ا س کا لحاظ کیے بغیر کسی بھی دن عقیقہ کردے یا بقر عید کے دن قربانی کے ساتھ عقیقہ کردے تو بھی جائز ہے۔ (ماخذہ بہشتی زیور کا حاشیہ، ج:3،ص:43)
جس شخص کا پیدائش کے بعد عقیقہ نہ ہو اہو تو بعد میں اس کو اپنا عقیقہ کرنا جائز ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت ملنے کے بعد اپنا عقیقہ فرمایا۔(شرح المہذب، ج:9، ص:245 وتنقیح الحامدیہ، ج:2،ص:233)
ختنہ کروانا
اگر لڑکا پیدا ہو تو ولادت کے ساتویں دن ختنہ کرانا مستحب ہے، کیونکہ ولادت کے ساتویں دن سے لڑکے کی بارہ سال عمر ہونے تک ختنہ کرانے کا مستحب وقت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی ولادت کے ساتویں دن ان کا ختنہ کروایا تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت کے ساتویں دن ان کا ختنہ کرایا تھا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تیرہ سال کی عمر میں ختنہ کروایا تھا۔ (تکملہ فتح الملہم، ج:5،ص:9)
بچہ کا نام رکھنا
ساتویں دن لڑکے/لڑکی کا اچھا سانام رکھ دیں، نام رکھنے میں ساتویں دن سے زیادہ تاخیر نہ کریں، اور ایسا نام نہ رکھیں جس کے معنی برے ہوں یا اس میں بڑائی کا یا بزرگی کا مفہوم نکلتاہو، جیسے: عاصی یا عاصیہ، جس کے معنی نافرمانی کرنے والا اور نافرمانی کرنے والی کے ہیں، یا جیسے: شہنشاہ، اور امیر الامرا، اس میں بڑائی پائی جاتی ہے، یا جیسے”برہ“نیکو کار اس میں بزرگی پائی جاتی ہے۔(تکملہ فتح الملہم، ج:4،ص:214)
لڑکے /لڑکی کی ولادت کے دن نام رکھنا بھی جائز ہے۔ (تکملہ فتح الملہم،ج:4،ص:220)
لڑکے/لڑکی کا نام کسی نیک اور بزرگ سے رکھوانا مستحب ہے،وہ اپنی پسند سے بچہ/بچی کا کوئی نام رکھ دے۔ (حوالہ بالا)
برا نام بدل دینا چاہیے
اگر کسی لڑکے یا لڑکی کے نام کے معنی اچھے نہ ہوں، اس کو بدل دینا چاہیے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریقہ تھا، جیسے حضرت زینبؓکا پہلا نام برہ تھا جس کے معنی: نیکی اور بھلائی کے ہیں، جس میں اپنی بزرگی کا پہلو نکلتاہے، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بدل کر زینب رکھ دیا۔ اسی طرح ایک شخص کا نام اصرم تھا، جس کا معنی ہے: زیادہ کاٹنے اور کترنے والا، یہ معنی اچھا نہیں ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا: نہیں، تم زارع ہو جس کا معنی کھیتی کرنے والا ہے۔ (بخاری وابوداؤد)
قارئین کرام!عقیقہ سے اسلام کے ایک شعار کا اظہار اورخالص اسکی رضا کے لئے عقیقہ کرنے سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل ہوتا ہے۔ بچوں کے بہت سے دنیاوی اور دینی امور رب العالمین کی توفیق سے سہل ہوجاتے ہیں لہذاہمیں چاہیے کہ ہم باری تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی عظیم نعمت پر اس کے شکر کا اظہار عقیقہ کی صورت میں کریں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)

Short URL: https://tinyurl.com/2zwsas8z
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *