۔6 ستمبر 1965، وقار اور لازوال استقلال کا استعارہ
A Metaphor for Dignity & Everlasting Independence A Metaphor for Dignity & Everlasting Independence A Metaphor for Dignity & Everlasting Independence A Metaphor for Dignity & Everlasting Independence
تحریر: مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی
سلامتی ہی سلامتی کی دعائیں خلقِ خدا کی خاطر
ہماری مٹی پہ حرف آیا، تو عہدِ فتحِ مبیں لکھیں گے
خلیلِ آتش نشیں کی میراث کا تسلسل نگاہ میں ہے
سو امتحاں سے گزرنے والوں پہ حرفِ صد آفریں لکھیں گے
6 ستمبر 1965 پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے کہ جب ازلی دشمن بھارت نے اپنی بزدلی اور مکاری کا سہارا لیتے ہوئے رات کے اندھیرے میں وطن عزیز پاکستان پر غیر اعلانیہ جنگ مسلط کر دی تھی۔ یہ ایسا مشکل وقت تھا کہ جب پاکستان کے پاس اسلحہ بارود کی بھی شدید کمی تھی اور باقی جنگی اسباب بھی بالکل مختصر تعداد میں تھے۔ جبکہ پاکستان کے مقابلے میں دشمن دس گنا زیادہ تیاری کے ساتھ آیا۔ اس وقت افواج پاکستان اور عوام نے ایسی مثالی رفاقت داری قائم کی کہ آج تک دنیا میں نہ کوئی مثال ملی ہے اور نہ ہی کہیں کوئی مثال ملے گی۔
دشمن نے رات کے اندھیرے میں تقریبا 4 بج کر 5 منٹ پر اپنے ناپاک عزائم کے ساتھ پاکستان پر اچانک حملہ کیا تھا لیکن اسے یہ قطعا اندازہ نہیں تھا کہ سرحدوں کے محافظ، پاکستان کے شیر جوان جنہوں نے اس وطن کی حفاظت کی قسم کھائی ہے، جاگ بھی رہے ہیں اور ان پر کڑی نظر بھی رکھے ہوئے ہیں۔
دشمن اپنا خواب لے کر آیا تھا کہ ناشتہ لاہور کے جم خانہ میں جاکر کریں گے شام کو فتح کا جشن مال روڈ پر منائیں گے لیکن لاالہ لا اللہ کا وِرد کرنے والے جوان جو ہمہ وقت تیار اور کامران رہتے ہیں انہوں نے دشمن کے خواب چکنا چور کر دیے۔ جو لاہور کو تر نوالہ سمجھ رہے تھے وہ لیفٹیننٹ کرنل تجمل ملک کی 114 بلوچ رجمنٹ کا نوالہ بن گئے تھے اور پھر ہر طرف تباہ حال گاڑیاں اور درجنوں لاشیں پڑی ہوئی دشمن کے خواب غفلت کی گھناؤنی تصویر بنی ہوئی تھیں۔6 ستمبر 1965 کو دشمن بھارت نے پاکستان پر ایک ساتھ لاہور، امرتسر، کھرلا، گجرات، فیروز پور گنڈا سنگھ اور سلیمانکی جیسے متعدد مقامات سے حملہ کیا تھا۔ دشمن کا خیال تھا اتنے سارے مقامات پر پاکستان کیلئے دفاع کرنا ناممکن ہو جائے گا لیکن اسلام کے نام پر بننے والی اس ریاست میں اس کے ساتھ جو ہونے والا تھا وہ اس کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا۔
لاہور سے بلوچ رجمنٹ نے فوری عمل اس طرح سے کیا کہ گھاس کی لری ہوئی بیل گاڑی کو خالی کر کے اس پر ریکوائل لیس رائفل لگا کر دشمن کے بڑھتے ہوئے قدم وہیں پر روک دیے۔ ادھر سمندری حدود میں جب دشمن نے قدم بڑھانے کی کوشش کی تو پاکستان کی اکلوتی آبدوز نے بمبئی کی بندرگاہ پر ایسی کاری ضرب لگائی تھی کہ 23 ستمبر تک جاری رہنے والی اس جنگ میں پھر دشمن نے پانی کے راستے کوئی ہل چل نہیں کی تھی کیونکہ ایک ہی حملہ میں دشمن کا سارا مواصلاتی نظام درہم برہم ہوگیا تھا۔
دوسری طرف پلک جھپکتے ہی پاک فضائیہ نے دشمن کے پانچ جہاز زمین بوس کر دیئے تھے جس کے نتیجے میں دشمن کے ہوش ٹھکانے پر آ گئے تھے۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں پاکستانی قوم نے ہر لمحہ اپنی افواج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر انکی حوصلہ افزائی کی تھی۔
لاہور شہر میں توپ کے دھماکوں کی آوازیں گونج رہی تھیں لیکن ہر شخص اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اگلے محاذ پر اپنی فوج کی ہمت بندھانے کیلئے نکل پڑا تھا۔لوگ اس وقت اپنے ساتھ کھانا اور ہار لے کر جاتے تھے اور جاکر کھانا فوج کو کھلاتے جبکہ ہار توپوں کو پہنا دیتے تھے۔ دشمن کے ٹینکوں کے سامنے اپنے پیٹ پر بارود باندھ لیٹ جاتے اور دشمن کے ٹینک اللہ اکبر کی صدا سے اڑا دیتے تھے۔ اس جنگ کے وقت جرائم کا نام و نشان مٹ گیا تھا۔
ہر شخص اپنے ملک و قوم کے وقار کی خاطر لڑ رہا تھا۔ زخمیوں کو اسپتال میں خون کا عطیہ دینے کیلئے لوگ گھنٹوں لائن میں کھڑے رہتے تھے لیکن وہ اپنے فوجی جوانوں کیلئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک دینے کیلئے تیار تھے۔
1965کی جنگ میں وطن کے ننھے منے بچوں، بڑے بوڑھوں اور خواتین نے وہ کام کر دکھایا جو ان کا نہیں تھا ایسے مظاہرہ چشم فلک نے کئی ایک محاذوں پر دیکھے ہوں گے اس دور کے ایسے تین بچے جہاں بھی ہوں خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ جو مورچوں میں دشمن سے برسرپیکار محافظین وطن کو پانی کی بالٹیاں پہنچایا کرتے تھے ان میں سے ایک کی عمر بارہ دوسرے کی دس اور تیسرے کی ساڑھے آٹھ برس تھی۔ وہ تینوں سگے بھائی تھے والدین نے انہیں دعائیں دے کر یہ کام کرنے کو کہہ دیا تھا۔ سب سے چھوٹا محاذ جنگ سے قریبا آٹھ میل کے فاصلے پرواقع اپنے گاؤں میں اپنی ماں سے درمیانہ سائز کی پانی سے بھری بالٹی یا گھڑا لیتا اسے اٹھا کر قریبا آدھا میل تک لے جاتا جہاں اس سے بڑا بھائی کھیتوں میں کوئی ڈیڑھ میل کا فاصلہ طے کر کے تیسرے سب سے بڑے بھائی تک پہنچاتااور پھر تیسرا بھائی اس پانی کو ایک خاص مقام تک پہنچایا کرتا جہاں سے اس کے وطن کے سپاہی آکر خود لیجاتے تھے۔ یہ عمل ان بھائیوں نے جنگ کے خاتمے تک سترہ روز تک جاری رکھا۔
آفرین ہے اس بوڑھے رہڑی بان پر جو محاذ کے نزدیک ترین ایک سرحدی گاؤں میں اکیلا صرف اس لیے رہتا تھا کہ وہاں سے پانی بھر کر اپنے فوجی جوانوں کی ضرورت پوری کرنے میں دن رات مگن رہتا محاورتا ًتو یہی کہا جائے گا کہ قوم پشت پر تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ 1965 کی جنگ پاکستان کی قوم نے فوج کے شانہ بشانہ لڑی اور کامیابی حاصل کی۔
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کرکے
6ستمبر کا دن میجر راجہ عزیز بھٹی اور میجر شفقت بلوچ کی کمان میں غازی نہر کے کنارے داد شجاعت دینے والے مجاہدوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا ہے جنہوں نے بھارتی فوج کے عزائم کو خاک میں ملا کر تاریخی کارنامہ سر انجام دیا۔ 6ستمبر کا دن بھارت کے علاقہ کھیم کر ن تک اپنے نقوش پا چھوڑنے والے شہیدوں اور غازیوں کے آگے جبین نیاز غم کرنے کاہے۔
6ستمبر کا دن فاضلہ کا سیکٹر کے سر فروشوں کو عقیدت و محبت کا نذرانہ پیش کرنے کا ہے جن کے نعرہ تکبیر کی صداؤں سے بھارتیوں کے دل ڈوبتے رہے۔
6ستمبر کا دن چھمب اور جوڑیاں کی پر بیچ وادیوں اور اونچی کھائیوں کے چپے چپے بہادری کی داستانیں رقم کرنے والوں کی یاد میں گردنیں خم کرنے کا ہے۔پاکستان کی عسکری اور دفاعی تاریخ کے روشن باب سے ہر دور کے افراد قوم کاآگاہ ہونا ضروری ہے کہ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت کس طرح رات کی تاریکی میں پاکستان پر چڑ دوڑا تھااور افواجِ پاکستان نے وطن عزیز کا دفاع کس جوان مردی کے ساتھ کیا تھا۔
لاہور کے محاذ پر ارض وطن کے مایہ ناز فرزندوں میجر راجہ عزیز بھٹی (نشان حیدر) اور میجر شفقت بلوچ(ستارہ جرات جو بعد میں کرنل بنے)کی الگ الگ کمان میں صرف دو کمپنیاں تھیں یہ کمپنیاں ایک ایک سو جانثاروں سے بھاری تھیں۔ بھارت نے اس سیکٹر پر توپ خانے کے ساتھ انفٹنمری کی بھاری تعداد سے حملہ کیا تھا جبکہ پاکستان کی سرحدوں پر غیر متوقع حملے کو روکنے کیلئے کوئی تیاری نہیں تھی۔لیکن ہمارے جوانوں نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بلاشبہ 6ستمبر 1965 ایک ایسا دن تھا جس نے پاکستان کے ایک ایک فرد کو جھنجھوڑ کر جگا دیا تھا۔آج پاکستان کو اسی 1965 والے جذبے کی اشد ضرورت ہے، آج بھی پاک فوج کو بطور قوم ہماری ضرورت ہے، قومی یکجہتی کی ضرورت ہے، ملک سے بیرونی عناصر کو نکالنے کی ضرورت ہے اور سب سے بڑھ کر ستمبر1965 والے قومی و اجتماعی جذبے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ دفاع وطن کے تقاضوں کو آج بڑے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔
6 ستمبر کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم اپنے شہداء اور غازیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یاد رکھیں کہ آزادی کی حفاظت اللہ پر بھروسہ اپنے وطن عزیز سے بے پناہ محبت اور دفاع وطن کی قربانیوں کے جذبے سے ہوتی ہے،پاک بھارت کی اس جنگ نے ثابت کیا کہ ہمیشہ ریاستی عوام اور فوج متحد ہو کر ہی جنگیں لڑتی ہیں اور جیت جاتی ہیں پاکستان پر خدا کی رحمت باد نسیم کی طرح سایہ فگن ہے اور ہمیشہ رہے گی۔
آئیے یوم دفاع پر ہم سب مِل کر یہ عہد کریں کہ جب بھی پاکستان کو دفاع کی ضرورت پڑے گی تو پاکستان کا بچہ بچہ افواجِ پاکستان کے ساتھ مل کر وطن عزیز کا پورا دفاع کرے گا۔کیوں کہ یہ تقاضے آج اس حوالے سے بھی اہمیت اختیار کرگئے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں برسر پیکار ہے۔ پاکستان جو خود اپنی تاریخ کے ایک نازک ترین دور سے گزررہا ہے کی افواج دفاع وطن کے لیے اندرونی اور بیرونی سرحدوں پر ڈٹی ہوئی ہیں۔
ایک محاذ پر اسے بھارت جیسے شاطر اور کم ظرف دشمن کا سامنا ہے تو دوسری جانب اسے بیرونی اور اندرونی خلفشار کا بھی سامنا ہے۔ پاک فوج سرحدوں کے دفاع کے ساتھ ساتھ اندرونی محاذ پر دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے جو خدانخواستہ اس پاک سرزمین کی سرحدوں کو کھوکھلا کرنے کے درپے ہے۔ اس یوم دفاع پر دعا ہے کہ اللہ تعالی اس ملک کو سلامت رکھے اور پاک فوج میں یونہی وطن پر جانثار ہونے کا جذبہ قائم رکھے(آمین یارب العالمین)
ہے جرم اگر وطن کی مٹی سے محبت
یہ جرم سدامیرے حسابوں میں رہے گا!
Leave a Reply