چورڈاکو

Muhammad Ahamd Nawaz
Print Friendly, PDF & Email

تحریر: محمد احمد نواز 
چور ڈاکو معاشرے کا ایسا ناسور ہیں جو معاشرے کا سکون و اطمینان بالکل تباہ کر دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو چوری ڈکیتی کرتے وقت بالکل نہیں سوچتے آیا کہ سامنے والا امیر ہے یا غریب، بوڑھا ہے یا نوجوان، بیوی ہے یا ماں کوئی رشتے ناطے نظر نہیں آتے۔ ان کے ضمیر مر چکے ہوتے ہیں، ان کی گھٹی میں چوری ڈکیتی کرنا ایک عادت بن چکی ہوتی ہے۔ کبھی یہ لوگوں کو اغوا کرتے ہیں تو کبھی یہ سر عام سر پہ بندوق تان کے لوٹ مار کر رہے ہوتے ہیں۔ ان چور ڈاکو کے دل میں زرا سی بھی رحمدلی نہیں بچی ہوتی۔ ان کے سامنے صرف پیسہ ڈر ہی سب کچھ ہے۔ یہ اکثر اپنے ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں۔ محلوں میں کم ہی رہتے ہیں۔ ہجرت کرنا معمول بن چکا ہوتا ہے۔ ایک ہی شخص کے مختلف شناختی کارڈ ہوتے ہیں۔ مختلف نمبرز ہوتے ہیں۔
ان چور ڈاکو کا اصول ہوتا ہے کہ دھندے میں بے ایمانی نہیں کرنی۔ جو کبھی ایسا کرتے ہوئے پکڑا گیا اس کا پتہ اس جہاں سے کٹ جاتا ہے۔ چوروں میں بھی دھندے ایمانداری کے اصول پہ چلتے ہیں۔ کیا کبھی سوچا ہے کہ یہ معاشرے کے ناسور کیسے پیدا ہوتے ہیں؟۔۔۔ ان کے کھلنائیک بننے کے ذمہ دار کون ہیں؟ کیوں ان کے ضمیر مر چکے ہوتے ہیں؟ کیوں انھیں موت سے ڈر نہیں لگتا؟ کیا آسمان سے اترے ہیں جن کے کوئی رشتے ناطے نہیں؟ 
یہ وہ لوگ ہیں جو ایسے ماحول میں جنم لیتے ہیں جہاں امیر امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہو غریب غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہو۔ انصاف کے رکھوالے پیسے والوں کی دلالی کر رہے ہوں۔ عدالتیں اپنا کام ٹھیک طرح نہ کر رہی ہوں۔ ڈاکٹر خدمت جیسے شعبے سے دھڑ ا دھڑ پیسہ کما رہے ہوں۔ جب ایک غریب کا بیٹا ساری زندگی پڑھے اور بنا سفارش کے نوکری نہ ملے تو کیا کرے جس کے پاس اپنے کاروبار کے بھی پیسے نہ ہوں۔ جب ایک عام آدمی ہسپتال جائے اور چیک اپ کرانے کی فیس نہ ہونے کی وجہ سے دھکے مار کر نکال دیا جائے۔ جب عام آدمی تھانے میں شکایات لے کے جائے اور تھانے دار بنا کسی رشوت کے FIR نہ کاٹ رہا ہو۔ جب عدالتوں کے فیصلے ملزم کی موت کے 10 دس برس کے بعد آئیں۔ جہاں فیکٹری کے مالک کا بیٹا مزدوروں کی گھر کی عزت سے کھیلے۔ جہاں ایک کمرے کے مکان کا بل 50000 ہو اور محلوں کا بل نظر نہ آئے۔ جہاں غریب کو بیٹی کی شادی کرنے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں۔ یہ سارے عنصر مل کے ایک چور ڈاکو پیدا کرتے ہیں۔ جو پھر یہ نہیں دیکھتے سامنے کون ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/y3ky3zzz
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *