میں ہوں14اگست۔۔۔۔ تحریر: شاہداقبال شامی

Shahid Iqbal Shami
Print Friendly, PDF & Email

میں ہوں14اگست ، سال میں ایک بارآتا ہوں، تاریخ میں اتنی بار آیاکہ اب تو مجھے بھی یاد نہیں پڑتا کہ کتنی مرتبہ آیالیکن ایک دفعہ ایسا آیا کہ رہتی دنیا تک یاد رہوں گااس دن اور آج کے 14اگست میں زمین آسمان کا فرق ہے۔وہ دن میری زندگی میں سب سے یادگار دن تھا کیونکہ اس دن آزادی کی صبح طلوع ہوئی تھی جس نے ایک قوم کو آن واحدمیں غلامی کے اندھیروں سے آزادی کی تابناک روشنیاں عطا کی تھی اس دن شبستان حیات میں مشرقی افق سے جو سورج ابھرا تھا اس نے ہر طرف روشنیاں ہی روشنیاں بکھیر دی تھی اس دن ہندوستان کی مسلمان قوم نے اپنی جداگانہ شناخت حاصل کی تھی۔
آزادی خوان نعمت پر چنا ہوا کوئی لذیزکھانا نہیں تھا جسے ہندوؤں اور انگریزوں نے تمہاری ضیافت کے لئے خوشی خوشی پیش کر دیا تھا بلکہ آزادی ایک ایسا شجر ثمردار تھا جس کو سینچنے کے لئے مسلمانوں نے اپنا خون خوشی خوشی دیاتھا،ماؤں نے اپنی گودیں اجاڑی تھیں،بہنوں نے اپنی عزتوں کی قربانی پیش کی تھی،سہاگنوں نے اپنے سہاگ قربان کئے تھے،بچوں نے اپنے باپ کھوئے تھے،زمین دولت،گھر بار،رشتہ دار حتیٰ کہ دنیا کی ہر نعمت کو قربان کیا تھا تب آزادی کی سرزمین حاصل کی تھی،پھر بھی وہ دن میرے لئے یادگار ہے حتیٰ کہ اس دن ہندوستان کے دریاؤں میں اتنا پانی نہیں تھا جتنا مسلمان قوم کا خون بہہ رہاتھا۔
1947کا14اگست اسلامی ہند کی تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ یاد رہے گا یہ وہ تاریخ ساز دن تھا جب ملت اسلامیہ ہند سیاسی معاشی اور اقتصادی و عمرانی حیثیت سے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوئی تھی۔آزاد وطن میں آنکھ کھولنے والوں کو 1947والے14اگست کی کیا قدر ،اس دن کی اہمیت پوچھنی ہے تو ان گمنام شہیدوں سے پوچھوں جنہوں نے خاک وطن کو بوسہ دینے کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیں،آزادی کی قدرو قیمت ان بے گوروکفن لاشوں سے پوچھوں جنہیں آزادی کا مطالبہ کرنے کی پاداش میں گولیوں ،برچھیوں اور تلواروں سے چھلنی کر دیا گیااتنا کچھ ہونے کے باوجود انہوں نے پھر بھی آزادی کا نعرہ لگانا نہ چھوڑا ،جن کے گھر بار لٹ گئے عزیزواقارب بچھڑ گئے صرف تن کے کپڑوں میںآزاد وطن میں آنانصیب ہوا،جو پہلے تو شاہوں کی طرح محلات میں عیش کرتے تھے لیکن ملک کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر جھونپڑوں میں رہنا گواراکیا اور اف تک نہ کیا کیونکہ عزت دار و غیرت مندقوموں کے فرد اپنا سب کچھ قربان کر کے بھی آزادی کو سودا کر کے خوش ہوتے ہیں۔
آج جب میں پاکستا ن کی موجودہ صورتحال کو دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے اور میں 1947سے پہلے والے دنوں کو یادکرتا ہوں جب پاکستان بنانے والے لوگوں میں قربانی کا جذبہ موجود تھا ،ہر کوئی ہندو بنیا اور انگریز کی غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے صبح و شام روبہ عمل تھا ،ان کا اٹھنا بیٹھنا،کھانا پینا،سوناجاگنا اور جینا مرنا صرف اور صرف مسلمانوں کیلئے ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کیلئے تھا،جس کیلئے وہ ہر قت کڑی سے کڑی قربانی دینے کیلئے تیار رہتے تھے اور بڑی سے بڑی قربانیاں پیش بھی کی تھیں،ان کے قائدین میں اپنے کارکنان سے بھی زیادہ جذبہ ایثار تھا ان کا ظاہروباطن ایک جیسا تھا وہ جو کہتے تھے ویسا کرکے بھی دیکھاتے تھے،ان کی نظر دشمن کی ہر چال پر تھی وہ دشمن سے کسی بھی محاذ پر شکست کھانے کو تیار نہ تھے بلکہ ہر جگہ ان کو تگنی کا ناچ نچاتے تھے،ان میں پیسے جاہ و جلال عزت و حشمت کی ذرہ بھر طلب نہ تھی ان کا ایک ہی نظریہ تھا کہ ہمارا سب کچھ قربان ہو جائے لیکن اس قوم کی کشتی غلامی کے بھنور سے نکل کر کنارے جا لگے اور انہوں نے دن رات محنت کر کے اپنی جانوں کا خیال نہ کر کے اپنا خواب شرمندہ تعبیر کر دکھایا اور قوم کو آزادی کی صرف نوید ہی نہ سنائی بلکہ ایک آزاد سرزمین دلوا کر دم لیا۔
اس وقت اور ان لوگوں سے آج کے موجودہ دور اور لوگوں کا موازنہ کرتا ہوں تو حیران پریشان رہ جاتا ہوں کہ یہ وہ نسل ہے جس کے آباؤاجداد نے دنیا کی سب سے شاطر،ظالم اور لڑاکا قوم سے ان کو آزادی دلوائی تھی،اب ان کا ہر فرد اس ہی قوم کی تقلید میں سر تا پاؤں ڈوبا ہوا ہے اور اس پر فخر بھی کرتا ہے،اس کے حکمران دشمن کے چالوں کو سمجھنے کے باوجود ان کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں اور اس پر خوش بھی ہیں ان کا جینامرنا صرف اور صرف اقتدار اور دولت کیلئے ہے اور یہ اپنے اقتدار کی قربانی دینے کے بجائے قوم کو قربانی کا بکرا بناتے ہیں اور دن رات پھر اس ہی قوم کی غلامی کیلئے کمربستہ ہیں جس سے لاکھوں قربانیاں دے کر آزادی حاصل کی تھی۔آزادی حاصل کرنا جس قدر مشکل کام تھا آزادی کو برقرار رکھنا اس سے کہیں مشکل کام ہے آج پاکستان کی آزادی کو جو خطرات درپیش ہیں وہ اس سے پہلے کبھی پیش نہیں آئے تھے۔
میں آج بھی پر امید ہو ں میری نظر ان لوگو ں پر جو اس ملک کے حقیقی وارث ہیں اور جو آج بھی نظریہ پاکستان کے علمبردار ہیںآج ان کو نوجوانوں اور نسل نو کو اس عظیم نظریہ سے روشناس کرانا ہو گاجس کے تحت یہ ملک حاصل کیا گیا تھاپاکستان کی آزادی کا تحفظ صرف اس ہی صورت ممکن ہے کہ اس میں رہنے والے اپنی پہچان اپنی شناخت صرف اس ایک رشتہ سے کرائیں اوروہ ہے اسلامی اخوت کا رشتہ جس کے
با رے میں بانی پاکستان قائد اعظم نے فرمایا تھا’’وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدواحد کی طرح ہیں،وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کے ملت کی عمارت استوار ہے،وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے ،وہ رشتہ ،چٹان وہ لنگر اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے۔‘‘تمہیں اس کتاب مقدس کو تھامنا ہو گا ،تم سندھی ہو نہ بلوچی،پنجابی نہ پختون،تم ہو تو صرف اور صرف مسلمان اور پاکستانی،صوبائی تعصب کی امربیل کو کاٹنا ہو گا ہر قسم کے مصنوعی امتیازات سے بلند ہو کر اپنا ملی تشخص قائم کرنا ہو گا تاکہ آزادی کا اہم تقاضا پورا ہو سکے،اپنا ہر قدم ملی تشخص کے استحکام کی خاطر اٹھانا ہو گا اور آزادی کے تحفظ کی خاطر بڑی سی بڑی قربانی دینے کیلئے ہر وقت تیار رہنا ہو گااس ملک سے جاگیرداری تسلط ختم کرانا ہو گا میرٹ سسٹم لانا ہو گا سفارش کلچر ختم کرنا ہوگاطبقاتی نظام کا خاتمہ کرنا ہو گا مسلکی ،لسانی،صوبائی تعصبات سے اوپر اٹھنا ہو گا شخصی حکومت افسرشاہی نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا۔آج آپ سب کو عہد کرنا ہو گا کہ ہم بھوک سہہ لیں گے،دکھ برداشت کر لیں گے ہم اپنے اوپر بیرونی یلغار نہیں ہونے دیں گے،بانی پاکستان کی روح کو کبھی شرمسار نہیں ہونے دیں گے، اغیار کا تر نوالہ نہیں بنے گے،امداد کے نام پر ملک وقوم کا سودا نہیں ہونے گے،تب مجھے تم پر فخر ہو گا میں یہ سمجھوں گا کہ 1947 والے دن میں نے جو دکھ برداشت کئے تھے آج ان کا مداوہ ہو گیاجو خون بہا گیا تھا وہ آج رنگ لے آیا جو عزتیں تارتار ہوئی تھیں آج ان کو قرار مل گیا ۔میں انتظار کروں گا۔۔۔۔ اس دن جب یہ سب بدلے گا اور اس مقصد کو پائیہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا جس کیلئے اتنی قربانیا ں دی گئی تھیں،جب میں سرخرو ہوں گا تو میں اس دن فخر سے کہہ سکوں گا کہ آج میری قربانی رنگ لے آئی۔

Short URL: http://tinyurl.com/gkrwx2k
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *