بائیکاٹ کے ماحول میں سعودی عرب میں کانفرنس کا آغاز

Print Friendly, PDF & Email

کئی ممالک کی حکومتوں اور سرمایہ کاروں کے بائیکاٹ کے اعلان کے باوجود سعودی عرب میں دوسری “فیوچر انویسٹمینٹ انیشی ایٹو” نامی کانفرنس کا آغاز ہو گیا ہے۔

اپنے اصل پروگرام کے مطابق اس کانفرنس میں 140 بین الاقوامی کارپوریشنز کی 150 نامور شخصیات نے کانفرنس میں تقریریں کرنا تھیں۔ لیکن اب تک 40 شخصیات سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت کےبعد پیدا ہونے والے حالات کے بعد اس کانفرنس میں شرکت کرنے پہنچ سکی ہیں۔ سعودی عرب کی حکومت پر صحافی کو ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔

جمال خاشقجی استنبول میں سعودی قونصل خانے میں دو اکتوبر اپنے کچھ کاغذات لینے گئے تھے جس کے بعد وہ لا پتہ ہوگئے تھے۔ پہلے سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ قونصل خانے سے واپس چلے گئے تھے لیکن دو ہفتے بعد بین الاقوامی دباؤ کے بعد سعودی حکومت نے تسلیم کیا کہ وہ قونصل خانے میں ایک ایک جھگڑے کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔

ترکی نے الزام لگایا تھا کہ صحافی کو سعودی انٹیلیجنس کے ایجنٹوں نے ہلاک کیا تھا۔ لیکن گزشتہ روز سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ انٹیلیجینس کے ایک ’روگ آپریشن‘ میں ہلاک ہوئے ہیں۔

بڑی سطح پر بائیکاٹ کے باوجود مغربی ممالک کے کئی اہم ادارے اس کانفرنس میں شریک ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کے تیل کی برآمد کرنے والے سرکاری ادارے آرامکو نے کہا ہے کہ اس نے چونتیس ارب ڈالرز کی مالیت کے مختلف مفاہمت کی یاداشت (ایم او یو) کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ ٹریفی گورا نامی عالمی شہرت یافتہ تجارت اور سرمایہ کاری کی کارپوریشن نے سعودی عرب میں دھاتوں کی کان کنی کے ایک منصوبہ شروع کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں جبکہ فرانسیسی کمپنی ٹوٹال نے سعودی عرب میں ریٹیل نیٹ ورک بنانے کا معاہدہ کیا ہے۔

سعودی دارالحکومت ریاض میں موجود بی بی سی کے مشرق وسطیٰ کے نامہ نگار، سیبیسٹیئن اشر نے کہا ہے کہ اگرچہ عالمی سرمایہ کاری کی نامور شخصیات اس کانفرنس میں نظر نہیں آرہی ہیں لیکن اس کانفرنس میں سینکڑوں افراد شریک ہوئے ہیں جن میں کچھ ایسے بھی ہیں جو بائیکاٹ کرنے والی نامور شخصیات یا ان کے اداروں کے مفادات کےلیے کام کرتے ہیں۔ نامور شخصیات کیلئے جمال خاشقجی کی ہلاکت کے بعد کے ماحول میں شرکت کرنا مناسب نہیں سمجھا جا رہا تھا۔

بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق، اس کانفرنس میں شریک مندوبین ایک عملیت پسندی کی بات کررہے ہیں یعنی یہ کہ سعودی عرب میں کاروبار کا ایک بڑا مستقبل ہےاور یہ اگرچہ واقعہ ایک بڑی رکاوٹ ہے لیکن بالآخر اس پر قابو پالیا جائے گا۔

Short URL: http://tinyurl.com/yag27m4u
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *