سرکاری ادارے اور سرکار۔۔۔۔ تحریر: مجیداحمد جائی، ملتان

Majeed Ahmad Jai
Print Friendly, PDF & Email

سیانے سچ ہی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دشمن کو بھی ہسپتال اور تھانے کی راہ نہ دکھائے۔اس بات کا اشکار اس دن ہوا ،جس دن مجھے ہسپتال جانا ہوا۔نشتر ہسپتال جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا سرکاری ہسپتال ہے۔دُنیا والے اسے سرکاری تو کہتے ہیں لیکن بھرتی ہونے والے سرکاری ہوتے ہیں باقی سب غیر سرکاری چلتا ہے۔سرکار کبھی کبھی چل کر ہسپتال کو رونق بھی بخش دیتی ہے،کبھی میری سماعتوں سے سرگوشیاں ٹکراتی تھیں کہ سرکاری ہسپتال میں ادویات مفت ملتی ہیں۔یہاں آکر پتہ چلا ،ادویات مفت نہیں ملتی البتہ،دھکے،گالیاں ضرور مفت مل جاتیں ہیں۔
مجھے اپنی شریک حیات کے دانتوں کا چیک اپ کروانا تھا۔بیچاری کئی دنوں سے کہہ رہی تھی کہ روٹی نہیں کھائی جاتی،درد سے جان جاتی ہے۔پرائیوٹ مہنگا علاج کا سوچ کر سرکاری ہسپتال کی طرف چل پڑا۔وہاں جا کر میرے چودہ طبق روشن ہو گئے ۔میری آنکھوں نے جو منظر دیکھے۔اُف توبہ!،جھوٹ کی یلغار،جھوٹے دعوے۔دن تو ستارے یہاں دیکھائے جاتے ہیں۔آنکھوں میں ڈُھول جھونکتے ہیں۔لمبے لمبے لٹریچر ملتے ہیں۔کہیں بڑے بڑے پروفیسروں کی سفارشیں آرہی ہیں۔کہیں ایم این اے،سیاسی آدمیسے بات کروائی جا رہی ہے۔مریضوں کے ساتھ آئے ہوئے موبائل پہ کسی صاحب کی بات کروا کر اپنے آپ کو اعلیٰ ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔
دوسری طرف نہ سفارش ہے،ہن رقم آنکھوں میں آنسو لئے حسرت بھری نظروں سے تک رہے ہیں۔لمبی لمبی قطاریں لگی ہیں مگر ان کی باری پھر بھی نہیں آتی۔کیسا ملک ہے۔کیسے سیاسیدان ہیں۔کیسا نظام ہے۔کرپشن،من مانی کا فارمولا لاگو ہے۔کوئی سسک رہا ہے،کوئی چیخ رہا یے۔کوئی درد سے تڑپ رہا ہے۔
داخلی فیس ایک روپیہ دینے پر خوشی محسو س ہوئی ،موجودہ حکومت ،سالبقہ حکمرانوں کے لئے دعائیں دل سے نکل رہی تھیں۔مفت علاج کی یقین دہائی ہوئی ،پرچی وصول کرتے آگے بڑھے ،آگے کیا ہوا،مت پوچھئے۔ایک جگہ چیک اپ برائے نام ہوا،اور ایکسرے کروانے کا کہہ دیا گیا۔ایکسرے روم میں پہنچے تو تین سو فیس دے کر ہمیں سرکاری نہیں سرکار کی یاد ستانے لگی۔
دانتوں میں ہلکا درد رہتا تھا اندر سوراخ تھا ،ہم تو سوراخ بند کروانے آئے تھے۔مگر۔۔۔۔۔۔
ہسپتالوں،ڈاکڑوں ،ادویات سے پرانا یارانہ ہے۔آخر ہم بھی بستر مرگ پر چار سال پڑے اٹکھلیاں کرتے رہے ہیں۔اور پھر دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ آنا جا نا لگا رہتا ہے۔شریک حیات کے دانتوں کا ایکسرے کروا کر دیکھانے گئے تو بڑے ڈاکٹر نے دانت نکلوانے کا عندیہ دے دیا۔میں بے ضد تھا کہ سوراخ بند ہو جائیں،دانت نہ نکلے۔جواب ملا،ڈاکٹر ہم ہیں کہ آپَ؟میری زبان کو قفل لگ گئے،نکال لو جی دانت۔آپ کیوں مسکرا رہے ہیں۔ارے بھائی میں قہقہے لگانے کی بات نہیں کر رہا تھا۔جبڑے سے دانت نکانے کی بات کر رہا ہوں۔
لو جی ۔ڈاکٹر نے پرچی مجھے تھما دی۔یہ کیا ہے؟چند دوائیاں لکھی ہیں ،باہر سے لے آؤ،یہاں نہیں ہیں۔مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔سرکاری اور سرکار یا د آئی۔مرتا کیا نہ کرتا۔بھاگا بھاگا گیا اور دوائی لے آیا۔شاپر میرے ہاتھ میں تھا اور پانچ سو کا نوٹ کلینک والے نے لے لئے۔میرے عقل دانی جواب دے گئی،پانچ سو تھمایا اور ڈاکٹر کے پاس آیا۔ڈاکٹر نے بسم اللہ سے دانت نکالنے میں لگ گئے۔کوئی آدھا گھنٹے کے بعد کامیابی سے دانت نکال لیا گیا مگر میری شریک حیات کی باچھیں لہو لہان تھیں۔دانت کے ساتھ ساتھ چمڑے کو کھنچتے رہے تھے۔آخر نئے لوگوں کو ٹرنینگ بھی تو دینی تھی۔میری بیگم نیم بے ہوشی کی حالت میں میرے کندھوں سے آلگی اور ہم اجازت چاہنے لگے۔ارے بھائی جلدی ہی کیا ہے۔پہلے فیس تو دیتے جاؤں۔فیس۔۔۔سچی مچی میری باچھیں کھل گئیں۔کس کی فیس۔۔۔۔۔؟ارے بھائی دانت نکالنے کی فیس۔۔۔کتنی ہے جناب،میں نے پوچھا۔۔۔زیادہ نہیں صرف پانچ سو روپے۔میرے روں روں میں بجلی سی لہر ڈور گئی۔کانوں سے سائیں سائیں کی آوازیں نکلنے لگی۔پانچ سو دینے کے بعد ہم ہارے جواری کی طرح افسردہ افسردہ ہسپتال سے نکل آئے۔
جاتے جاتے ایک حقیقت سے آشیانہ کرتا جاؤں۔سرکاری ڈاکڑوں نے اپنے عملے کو کمشین پر راضی کر رکھا ہوتا ہے۔یہ لوگ مریضوں کو مفت مشورے سے نوازاتے ہیں۔ارے بھائی یہاں کیوں ذلیل ہوتے پھرتے ہیں۔ملحقہ سڑک کے کونے پر ایک بڑے ڈاکٹر کا کلینک ہے۔وہاں علاج کروا کر دیکھو۔بڑا قابل ڈاکٹر ہے جناب۔سرکاری ڈاکٹروں نے سرکار میں رہتے ہوئے اپنا کاروبار چمکایا ہواہے۔دونوں ہاتھوں سے سرکاری خزانوں کو لوٹا جا رہا ہے۔سرکاری اور نیم سرکاری کو جانچنا محال ہو گیا۔اگر یہی سرکاری ادارے ہیں اور سرکار یہی کر رہی ہے تو ہمیں مر جانے دو۔مر جانا ہی بہتر ہے۔سرکاری لوگوں نے ہی کرپشن کو ہوا دی ہے۔رشوت کا پودا یہاں سے پروان چڑھ کر تناآور ہو گیا ہے۔اب تو کوئی عجوبہ ہی گا کہ سرکاری اداروں اور سرکاری لوگوں سے کرپشن کے جراثیم ختم ہو جائے۔ملک دیوالیہ ہوتا جا رہا ہے اور ان کی تجوریاں بھرنے میں نہیں آتییں۔جنرل پرویز مشرف نے جاتے ہوئے ٹھیک ہی جملہ کہا تھااب پاکستان کا اللہ حافظ ہے۔

Short URL: http://tinyurl.com/gpbw37n
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *