ذلت اور ذلت آمیز
تحریر: ایم سرورصدیقی
شرمندگی ،دکھ ،ندامت یا افسوس چھوٹے ا لفاظ ہیں ہمیں تو اس بات کا غم ہے ہمارے وزیر ِ اعظم عمران خان چین گئے ہی کیوں ہیں؟ ہم تو پاک چین دوستی کو ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے بھی گہری خیال کررہے تھے لیکن یہ کیا ہوا پاکستان کے وزیر اعظم کے دورہ ¿ چین کے دوران بیجنگ میں میونسپل کمیٹی کی ڈپٹی سیکرٹری نے ان کا استقبال کیا شاید چینی وزیر مشیراور افسر کہیں مرگئے تھے یہ اتنا ذلت آمیز سلوک ہے کہ میزبانوںکو چلو بھر پاتی میں ڈوب مرنا چاہےے کم بختوںنے چینی روایات کا پا س بھی نہیں کیا حکومت پاکستان کو اس پر شدید احتجاج کرناچاہےے اور چین کی گورنمنٹ کو سرکاری طورپر معافی مانگنی چاہےے ایسا نہیں ہوتا توان سے معاملات ایک حدمیں رہ کر آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔ ہمیں زندہ قوم ہونے کا ثبوت دینا ہوگا اپنی عزت ، آبرو اور اصولوںپر سمجھوتہ کرنے والے تاریخ میں کبھی سرخرونہیں ہو سکتے۔ دنیا کا یہ رویہ ہم سے نیا نہیں کچھ عرصہ پہلے وزیر ِ اعظم عمران خان چین کے دورہ پر گئے تو ان کے وفدکا استقبال وزیر ِ ٹرانسپورٹ نے کیا تھا،ترکی کے دورہ کے دوران میئر نے،ملائشیا میں نائب وزیر ِ خارجہ ،ایران میں متعلقہ صوبے کے گورنر نے اور اب دورہ ¿ چین کے دوران بیجنگ میں میونسپل کمیٹی کی ڈپٹی سیکرٹری نے ان کا استقبال کیا۔ صرف عمران خان پر ہی موقوف نہیں ہم جن ممالک کی دوستی میں مرے جارہے ہیں وہ ایسا ہی سلوک میاںنوازشریف سے بھی کرتے رہے اور تو اور ہمارے ایک وزیر اعظم کے دورہ ¿ امریکہ کے دوران ائیرپورٹ پر کپڑے اتروا کر تلاشی لی گئی تھی ان کے ننگے بدن پر صرف انڈرویئر ہی تھا پھر بھی ہماری غیرت نہیں جاگی ۔سعودی عرب، ترکی ،متحدہ عرب امارات اور ایران کی پاکستان سے زیادہ بھارت میں انوسٹمنٹ ہے ظاہر جہاں ان کے قومی مفادات زیادہ وابستہ ہوں گے ان کی دلچسپی وہیں ہوگی۔ دراصل دنیا میں ہمارے حکمرانوںکا امیج بھکاری کاسا بن گیا ہے اب” منگتے “ سے کوئی جو بھی سلوک کرے اس کی مرضی یہ ملک شاید ذنیا کا انوکھا اور نرالا ہے کہ پاکستان میں سٹیٹ قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے، حکمرانوں کے پاس قارون سے بھی بڑے خزانے ہیں، ادارے انتہائی کمزورہیں جو بااختیار، بااثرکے سامنے ڈھیر ہوجاتے ہیں اور قانون کا بس صرف غریب پرچلتاہے جو اس کے شکنجے میں آجائے اللہ معاف کرے ہرپاکستانیوںکو اپنے حفظ و امان میں رکھے توبہ ہی بھلی۔ہماری وزیر ِ اعظم پاکستان سے ایک گذارش ہے کہ آپ ملکوں ملکوں جاکر پیسے مانگ مانگ کرذلیل کیوں ہورہے ہیں آئی ایم ایف سے بھی کسی قسم کا کوئی قرضہ نہ لیں ان قرضوںنے ہمارے آنے والی نسلوںکا مستقبل بھی گروی رکھ دیاہے اس قوم کے وسیع ترمفادمیں کچھ ترجیحات کا تعین کریں یہی ماٹو سامنے رکھیں ہم خودکشی کرلیں گے لیکن قرضے نہیں لیں گے اس ملک کو خود انحصاری کی منزل تک جانے کےلئے کچھ قربانیاں دیناہوںگی صرف عوام سے قربانیوںکا مطالبہ نہ کیا جائے حکمران طبقہ اور اشرافیہ بھی قربانی دے پھر جاکر ہم اقوام ِ عالم میں سرخرو ہو سکتے ہیں اس کے لئے سب سے ضروری یہ ہے کہ حکمران طبقہ اور اشرافیہ کے تمام غیرضروری اخراجات ختم کر دئےے جائیں۔ وزیر،مشیر،ارکان ِ اسمبلی اور حکومت میں شامل تمام لوگ تنخواہ اور ہرقسم کی مراعات سے دستبردار ہوجائیں ان طبقہ میں شامل لوگوں کے پاس پہلے سے اربوں،کھربوںکے اثاثے موجود ہیں یہ لوگ جس پاکستان نے انہیں عزت،شہرت،اقتداردیاہے اس کی خاطر تنخواہ اور مراعات نہ بھی لیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ غیرملکی کوئی بھی سربراہ مملکت یا دیگر مہمانوںکو ایک حد تک پروٹو کول دیا جانا چاہےے۔ہرقسم کی کاسمیٹکس،جیولری، الیکٹرونکس،سگریٹ، سامان تعیش،کراکری کی امپورٹ پر پابندی لگا دی جائے اس پرہرسال کھربوں روپے کا زر ِمبادلہ ضائع ہورہاہے ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں لنڈے کے کپڑے بھی منگوانا بین ہے حالانکہ وہاں پاکستان سے زیادہ غربت موجودہے۔ تمام سرکاری اداروںکی عصر حاضرکے چیلنجزکے مطابق تشکیل نوکی جائے خصوصاً امن و امان اورانصاف دینے والے محکموں یا اداروں کو ترجیح دیا جانا ناگزیرہے۔ کیٹگری بناکر شناختی کارڈ رکھنے والے ہر پاکستانی پرفکسڈ ٹیکس لگادیا جائے کم از کم پانچ سو یا 1000روپے سالانہ ہرگھرکا سربراہ ٹیکس دے سکتاہے اس ٹیکس کے عوض اسے کچھ سہولیات اور مراعات دی جائیں تاکہ لوگ شوق سے ٹیکس دیں،انکم ٹیکس گوشواروںکو آسان کیا جائے اتنا سہل اور سادہ کہ عام شہری وکیل کی ضرورت سے بے نیاز ہوجائے۔ کرپشن اور منی لانڈرنگ میں ملوث ملزموںکو عبرتناک سزائیں دی جائیں۔ تجارت کے فروغ اورمعیشت کی بحالی کےلئے ٹھوس اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے اس کےلئے کاٹیج انڈسٹری کو فروغ دیا جائے ان کو آسان شرائط پر بلا امتیازقرضے جار ی کئے جائیں ۔ ایک بات پتھر لکیرہے کہ جب تک ہم معاشی طورپر مضبوط نہیں ہوںگے ملک ترقی نہیں کرسکتا ورنہ جو حال دنیا والے ہمارے حکمرانوںکاکررہے ہیں اس کےلئے شرمندگی ،دکھ ،ندامت یا افسوس چھوٹے ا لفاظ ہیںہمیں زندہ قوم ہونے کا ثبوت دینا ہوگا یہی سچ ہے اپنی عزت ، آبرو اور اصولوںپر سمجھوتہ کرنے والے تاریخ میں کبھی سرخرونہیں ہو سکتے اور یہ بھی سچ ہے کہ قرض مانگنے والوںکی کوئی عزت نہیں کرتا اب یہ ہم پرمنحصرہے کہ ہمیں ذلت والی زندگی چاہےے یا عزت کی بہرحال اس کا فیصلہ آپ نے نہ کیا توپھر بے رحم تاریخ ضرور کرے گی اور یہ بات یاد رکھنے والی ہے تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی آزادی کی قدر نہ کرنے والی قومیں عبرت کا نشان بن جاتی ہیں دنیا بھر میں پاکستانی شہریوں اور ان کے حکمرانوں کے ساتھ جو ذلت آمیز سلوک کیا جاتاہے وہ بھی عبرتناک ہے اگر ہم اب نہ سمجھیں تو کب سمجھیں گے دل سے سوال کرکے تو دیکھیں کیا جواب ملتاہے؟ شاید اسی دن کےلئے مرزا غالب نے کہا تھا
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
Leave a Reply