تھرمیں ہلاکتیں: کتنی حقیقت کتنا فسانہ؟

تحریر: ایم سرورصدیقی
ایک انٹر نیشنل سیمینار میں ایک انگریز، مسلمان ،سکھ اور ہندو شریک تھے انگریز کہنے لگا ہماری قوم بہت عقلمند ہے ہم آنے والے100کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔ہندو بولاہم بھی اس بات کے قائل ہیںکہ مستقبل کےلئے فکر مندرہنا زندہ قومی کی نشانی ہوتی ہے ہم سو سال نہیںتو50سال تک کےلئے سوچ بچار ضرور کرتے ہیں ۔۔سکھ سے پوچھا تو اس نے جواب دیا اتنا مغز کون کھپائے ہم وقت پڑنے پر سوچتے ہیں کیا کیا جائے؟ اب سب کی نظریں مسلمان کی طرف لگی تھیں کہ موصوف کیا کہتے ہیں اس کے جواب دینے سے پہلے ہی قریبی میزپر بیٹھے ایک شخص نے ہنسنا شروع کردیا سب نے چونک کر اس کی طرف دیکھا وہ کہنے لگا ہم مسلمان! ایسی باتیںسو چتے ہی نہیں۔کہنے کو تو یہ ایک لطیفہ ہے لیکن ایک ایسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے جس سے ہر کوئی نظریں چراتا پھرتاہے حکمرانوں کی بات نہ ہی کریں ان کو تو فکر ہی نہیں کسی معاملے میں کوئی منصوبہ بندی ہے نہ کوئی حکمت ِ عملی ۔ حکومتوںکا وطیرہ رہا ہے انہوں نے ہمیشہ سارا زور گا ۔گے ۔گی پر لگایاہے جو جتنے پر جوش اندازمیں ایسے نعرے لگاتاہے اتنا ہی کامیاب سمجھا جاتاہے دینے کو بہت سی مثالیںدی جا سکتی ہیں مثلاً تھر اور چولستان میں بارشیں کم ہونے سے ہر سال دو سال بعد حالات سنگین ہوجاتے ہیں چونکہ وہاں کے مکینوں کا گذر بسر کا بڑا ذریعہ کھیتی باڑی اور ما ل مویشی پالناہے اس لئے ان کا متاثرہونا یقینی ہے ان علاقوںمیں پینے کا پانی ،علاج معالجہ کی سہولتیں اور خوراک سب سے بڑی ”عیاشی“ قراردی جا سکتی ہے لیکن بیشتر لوگ عموماً اس سے بنیادی طورپر محروم ہیں اور بدقسمتی سے قیام ِ پاکستان سے پہلے اور قیام ِ پاکستان کے بعدکسی صوبائی یا وفاقی حکومت نے کچھ کرنے کا تکلف ہی نہیں کیاجب بھی ان علاقوںمیں قحط، بیماریوں۔ہلاکتوں اور دیگر مسائل کی داستانیں میڈیا پر آتی ہیں حکمرانوں، مختلف سماجی تنظیموں،غیر ملکی NGOاور مخیر حضرات کی باسی کڑھی میں ابال آتاہے جب تک تھر اور چولستان کے مکین موت سے لڑتے بے حال رہتے ہیں فوٹو سیشن بنوانے کے شوقین آتے جاتے رہتے ہیں خوراک، دوا،کپڑے اور دیگر لوازمات بھی آتے رہتے ہیںاس کے ساتھ ساتھ کچھ ناعاقبت اندیش ہوس کے مارے مادی حصول کے لئے جعلی کیمپ لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ان کا یہ طرز ِ عمل مصیبت میں مبتلا لوگوںکےلئے ایک سنگین مذاق سے کم نہیں دعا ہی کی جا سکتی ہے اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت عطافرمائے ۔ ایک اور بات اہم ہے کہ ۔۔وبائی امراض ۔۔قحط، زلزلے۔سیلاب جیسی قدرتی آفات سے نبرد آزماہونے کےلئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل ِ سلیم دی ہے پاکستان میں عموماً عقل کااستعما ل کم ہی کیا جاتاہے کیونکہ ہم اور ہمارے حکمرانوںنے سب کچھ حالات کے رحم وکرم پرچھوڑ رکھاہے پاکستان میں سیلاب قریباً ہر سال آتاہے لیکن اس کےلئے ٹھوس اقدامات کبھی نہیں کئے گئے اس کے چند بھیانک پہلو بھی ہیںسیلاب زدگان کی امداد میں اکثروبیشتر وسیع پیمانے پر مالی بے ضابطگیاں بھی دیکھنے میں آتی ہیں ٹھوس اقدامات نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ NGO،کچھ بیوروکریٹ اور کچھ سیاستدان دل سے چاہتے ہیں کہ یہ موج میلہ ایسے ہی چلتارہے اورانکی دکانداری بھی برقراررہے نفسیاتی اعتبار سے بھی اس قبیل کے طبقہ کو اپنے آگے بھوک سے سسکتے اوربیماری سے کاپتے، نیم برہنہ خواتین ،بچے بوڑھے سراپا سوال بنے، گڑگڑاتے،ہاتھ باندھے امداد کے منتظر مستحقین کو دیکھ کرخوشی ہوتی ہے شاید انکی انا کو تسکین ملتی ہو ۔ تازہ ترین حالات یہ ہیںتھرپارکر میں مٹھی کے سول ہسپتال میں مزید5بچے انتقال کرگئے جس کے بعد رواں ماہ انتقال کرنے والے بچوں کی تعداد 58 ہوگئی ہے۔محکمہ صحت کے مطابق بچوں کی اموات گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غذائیت کی کمی و دیگر امراض کے سبب ہوئیں۔ انتقال کرنے والے بچوں کی عمریں 6 ماہ ، 3 ماہ17 روزہیں جن میں2 نومولود بھی شامل تھے۔ مٹھی میں رواں سال انتقال کر جانے والے بچوں کی تعداد 334 ہو گئی ہے اس سے حالات کی سنگینی کااندازہ لگایا جا سکتاہے گذشتہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تھر کے مکینوں کےلئے کچھ اقدامات کرنے کااعلان کیا تھا لیکن پھر نہ جانے کیوںکچھ بھی نہ کیا گیا ۔
کل چاچا شیدا اپنے دوست کو کہہ رہا تھا کہ میرا خیال ہے کہ سیلاب،آفات اور خشک سالی آنا بھی جاگیرداروں اور وڈیروں کے مفاد میں ہے
”تیری مت تو نہیں ماری گئی ۔ میدے نے چراغ پا ہوکر کہا۔پاگل تو نہیں ہوگیا ؟
“ جب سیلاب آتا ہے تو ان جاگیرداروں اور وڈیروں کی زمینیں زرخیزہو جاتی ہیں ، قدرتی آفات میں ملنے والی امداسے افسروں،سیاستدانوں سمیت سینکڑوںکے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔چاچے شیدے نے اطمینان سے اس کے کندھے پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے کہا ۔آئی سمجھ بھولے بادشاہ
اس حقیقت سے کیسے انکارکیا جا سکتاہے کہ قدرتی آفات کے نام پر ملنے والی امداد سے کروڑوں روپے خوردبردکرلئے جاتے ہیں نوجوان لڑکیوںکے لاپتہ ہونے کی المناک داستانیں الگ ہیں پاکستان میں چونکہ احتساب کا رواج ہی نہیں اس لئے کبھی کسی کا کچھ نہیں بگڑایہ دراصل وہ عوامل ہیں جس کی وجہ سے آج تک کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے نہ کوئی حکمت ِ عملی تیارہوئی ۔۔ضرورت تو اس بات کی ہے کہ مستقل بنیادوںپر یہ مسائل حل کرنے کےلئے ایکشن لیا جائے ویسے سابقہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے ”انکشاف“ کیاہے کہ تھرمیں ایسے واقعات معمول کی باتیں ہیں ہر سال لوگ مرتے ہیں میڈیا بلاوجہ اسے اچھال رہاہے
اب کوئی بتائے کہ ہم بتلائیں کیا؟ اس کا مطلب ہے لوگ ایویں ای شور مچارہے ہیں ۔
Leave a Reply