شہادت سیدناحضرت عثمان غنی ذوالنورینؓ۔۔۔۔ تحریر: حافظ کریم اللہ چشتی، پائی خیل

Hafiz Kareem Ullah Chishti
Print Friendly, PDF & Email

آپؓ کی ولادت باسعادت واقعہ فیل کے چھ برس بعدطائف میں ہوئی اس لحاظ سے آپؓ حضورنبی کریمﷺسے قریباََچھ برس چھوٹے تھے۔آپؓ کانام “عثمان آپؓ کی کنیت’’ابوعبداللہ‘‘اور’’ابوعمرو‘‘اورلقب’’ذوالنورین ‘‘ہے۔آپؓ کے والدکانام ’’عفان ابن ابی العاص ‘‘اور والدہ ماجدہ کانام’’ارویٰ بنت کریز‘‘ہے۔
ذوالنورین کی وجہ تسمیہ:آپؓ کے لقب ذوالنورین کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ حضورنبی کریمﷺکی دوصاحبزادیاں آپؓ کے نکاح میں آئیں آپؓ کانکاح پہلے حضورنبی کریمﷺکی صاحبزادی حضرت رقیہؓ سے ہواانکے وصال کے بعدحضورنبی اکرم ﷺنے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت اُم کلثومؓ کانکاح آپؓ سے کیا۔ حضرت اُم کلثوم کے وصال کے بعدحضورنبی کریم ﷺنے فرمایااگرمیری کوئی اوربیٹی ہوتی جسکامیں نکاح کرتاتومیں اسکانکاح عثمانؓ سے ہی کرتا۔سنن بیہقی میں منقول ہے کہ حضرت سیدناعثمان غنیؓ کویہ اعزازحاصل ہے کہ انکے علاوہ کبھی کسی نبی کی دوبیٹیاں ایک شخص کے نکاح میں نہیں آئیں اوریہی وجہ ہے کہ آپؓ کوذوالنورین یعنی دونوروں والاکہاگیاہے۔زمانہ جاہلیت میںآپؓکی کنیت ابوعمروتھی ۔جب آپؓ نے اسلام قبول کیااورحضورﷺکی صاحبزادی حضرت رقیہؓ سے نکاح ہواتوانکے بطن پاک سے حضرت عبداللہ پیداہوئے جن کے نام سے آپﷺکی کنیت ابوعبداللہ مشہورہوئی۔آپؓ کاسلسلہ نسب عبدمناف پرحضورنبی کریم ﷺسے جاملتاہے آپؓ کے والدکی طرف سے سلسلہ نسب حسب ذیل ہے ۔’’عثمانؓبن عفان بن ابوالعاص بن اُمیہ بن عبدشمس بن عبدمناف بن قصیٰ بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب‘‘۔آپؓ کاوالدہ کی طرف سے سلسلہ نسب حسب ذیل ہے۔ارویٰ بنت کریزبن ربیعہ بن حبیب بن عبدشمس بن عبدمناف”۔
ارشادباری تعالیٰ ہے۔اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکُ اِنَّمَایُبَایِعُونَ اللّٰہ یَدُا للّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِم*ْوہ جوتمہاری بیعت کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے ہی بیت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کاہاتھ انکے ہاتھوں پرہے۔اس آیت کریمہ کاشانِ نزول یہ ہے کہ یکم ذی الحجہ ۹ہجری میں حضورنبی کریمﷺپندرہ سوصحابہ کرام علیہم الرضوان کے ہمراہ مدینہ منورہ سے عمرہ کے ارادے سے مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے ۔آقاﷺاپنی اونٹنی قصواء پرسوارتھے جوکہ حدیبیہ کے مقام پرجاکربیٹھ گئی ۔حدیبیہ ایک گاؤں ہے جومکہ مکرمہ سے بارہ میل کے فاصلے پرجانب مغرب واقع ہے۔آپﷺنے تمام صحابہ کرام علہیم الرضوان کوقیام کرنے کاحکم دے دیا۔آقاﷺنے جب قیام کیاتودوران قیام ہی آپﷺکویہ اطلاع ملی کہ مشرکین مکہ نے انکی آمدکوغلط اندازمیں لیاہے اوروہ ان سے جنگ کرناچاہتے ہیں ۔حضورﷺنے حضرت سیدناعثمان غنیؓ کوقریش مکہ کی طرف مکہ معظمہ میں پیغام دے کربھیجاکہ وہ معززین مکہ کوجاکربتائیں کہ ہم لڑنے یاجنگ کرنے کے لیے نہیں آئے بلکہ ہم توصرف اللہ پاک کے گھرکی زیارت اورطوافِ کعبہ کے لئے آئے ہیں۔حضرت سیدناعثمان غنیؓ محبوب خداﷺکایہ پیغام لیکربحیثیت قاصد قریش مکہ کی طرف چلے گئے ۔جب آپؓ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے توآپکی ملاقات ابان بن سعیدبن العاص سے ہوئی ۔آپؓ انکے ساتھ انکے گھرروانہ ہوگئے ۔آپؓ نے ابان بن سعیدبن العاص کے ساتھ حضورﷺکاپیغام ابوسفیان اوردیگرمعززین مکہ کوجاکرپیغام سنایا۔اس پیغام کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس سال تومسلمانوں اورانکے آقا(ﷺ)کومکہ مکرمہ نہیں آنے دیں گے ۔آپؓ سے انہوں نے کہاہاں اگرتم طواف کعبہ کرناچاہتے ہوتوتمہیں اجازت ہے قربان جاؤں سیدناعثمان غنیؓ آپؓ کے عشق رسولﷺ پر!آپؓ نے فرمایاکہ میں اسوقت تک کعبہ شریف کاطواف نہیں کروں گاجب تک میرے آقاﷺاوردیگرصحابہ کرامؓ طواف کعبہ شریف نہ کرلیں ۔ اس انکارکے بعدمعززین مکہ نے حضرت سیدناعثمان غنیؓ کواپنے پاس روک لیااس تاخیرکی وجہ سے لشکراسلام میںیہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت سیدناعثمان غنیؓ کوشہیدکردیاگیاہے جب آقاﷺکوشہادت سیدناعثمان غنیؓ کاپتاچلا اس پرمسلمانوں کے دلوں میں قتل عثمانؓ کابدلہ لینے کے لئے کفارسے مقابلہ کرنے کا جوش پیدا ہوگیا آقاﷺنے تمام صحابہ کرامؓ کواکٹھاکیااورایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے ۔ آقاﷺنے تمام صحابہ کرامؓ سے اس بات پربیعت لی کہ جب تک ہم حضرت سیدناعثمان غنیؓ کی شہادت کابدلہ نہیں لے لیتے تب تک ہم میدان جنگ سے راہِ فراراختیارنہ کریں گے خواہ ہماری جانیں ہی کیوں نہ چلی جائیں اس بیعت میں نبی کریمﷺنے اپنابایاں ہاتھ حضرت سیدنا عثمان غنیؓ کی طرف سے بیعت کے لئے پیش کیا۔اس بیعت کوبیعت رضوان کے نام سے یادکیاجاتاہے ۔اس پریہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔’’اے پیغمبرﷺ!جولوگ تم سے بیعت کررہے تھے وہ حقیقت میں اللہ پاک سے بیعت کررہے تھے اورانکاہاتھ اللہ کے ہاتھ میں تھاپس جس نے اس عہدکوتوڑااس نے عہدشکنی کی اوراس پراسکاوبال عنقریب پڑے گااورجس نے اس عہدکوپوراکیااس نے اللہ پاک کے ساتھ کیاگیاوعدہ پوراکیاپس اللہ پاک عنقریب اسکواجرعظیم عطافرمائے گا”۔خوش قسمت ہیں وہ صحابہ کرامؓ کہ جنہوں نے حدیبیہ کے مقام پرآپﷺکے ہاتھ پربیعت کی اللہ رب العزت نے فرمادیا۔لَقَدْرَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُوْمِنِیْنَ اِذْ یُیَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَجَرَ ۃِ۔(پارہ ۲۶)بے شک اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے راضی ہوگیا۔جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کرتے تھے ۔جب معززین مکہ کواس بات کی خبرہوئی تووہ بڑے پریشان ہوگئے انہوں نے حضرت سیدناعثمان غنیؓ کوواپس بھیج دیا۔اورساتھ ہی ایک وفدصلح کے لئے حضورنبی کریمﷺکی خدمت اقدس میں بھیج دیاجس نے حضورنبی کریمﷺکے ساتھ معاہدہ حدیبیہ کی شرائط طے کیں جس پرحضرت سیدناعثمان غنیؓ نے بھی دیگرصحابہ کرامؓ کی طرح دستخط طے کیے ۔حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ سے روایت ہے کہ حضورنبی کریمﷺنے ارشادفرمایا”ہرنبی کاایک رفیق ہوتاہے میرارفیق جنت میں عثمانؓ ہے۔حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا”عثمان غنیؓ کی سفارش سے سترہزارجہنمی جن پرآگ واجب ہوچکی ہے بلا حساب جنت میں داخل ہونگے ۔سیدنامرہ بن کعبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے (اپنے بعدکے)فتنوں کاذکرکیااتنے میں ایک آدمی کپڑااوڑھے ہوئے وہاں سے گزراتوآپﷺنے فرمایایہ شخص اس دن ہدایت پرہوگامیں نے اٹھ کردیکھاتووہ عثمان بن عفانؓتھے۔(سنن ترمذی)۔
حیاء عثمان غنیؓ:حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن آقاﷺگھرمیں لیٹے ہوئے تھے ۔اس حال میں آپﷺ کی پنڈلی مبارک ننگی تھی دروازے پردستک ہوئی توپوچھاکون جواب آیاصدیقؓ !آپؓ نے اندرآنے کی اجازت مانگی توآپﷺنے اجازت دے دی اورحضرت ابوبکرصدیقؓ نے آپﷺسے کچھ گفتگوکی۔پھردروازے پرحضرت عمرفاروقؓ آئے ۔آپؓ نے اندرآنے کی اجازت مانگی آقاﷺ نے اندرآنے کی اجازت دے دی ۔حضرت عمرفاروقؓ نے آپ ﷺکے ساتھ کچھ باتیں کی ۔اسکے بعدحضرت عثمان غنی ذوالنورینؓ آئے اور اجازت مانگی تواس پرحضورﷺاٹھ کربیٹھ گئے ۔”وَسَّوَیْتَ ثِیَابَکَ”اوراپنے کپڑوں کودرست فرمالیا۔جب سب چلے گئے توحضرت عائشہ صدیقہؓ نے عرض کی یارسول اللہﷺکیاوجہ ہے جب میرے اباجان آئے آپ اسی حالت میں رہے۔جب حضرت عمرفاروقؓ آئے توبھی آپ اسی حالت میں رہے ۔لیکن جب عثمان غنیؓ آئے توآپ جلدی سے اٹھ کربیٹھ گئے اورپنڈلی کاکپڑابھی درست فرمالیا۔ آقاﷺنے فرمایااے عائشہ کیامیں اس شخص سے حیانہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاکرتے ہیں۔(مشکوٰۃ شریف)۔
سخاوت عثمان غنیؓ:حضرت عثمان غنیؓ نہایت دولت مندتھے ان کی دولت سے اسلام اورمسلمانوں کوبڑافائدہ پہنچا۔جب مسلمان ہجرت کرکے مدینہ منورہ گئے تووہاں پانی کاصرف ایک کنواں تھاجس کانام بئررومہ تھاجوایک یہودی کی ملکیت تھااوروہ مہنگے داموں پانی فروخت کرتاتھاجس سے غریب مسلمانوں کوپانی کی سخت تکلیف تھی ۔حضرت عثمان غنیؓ نے بڑی کوشش کرکے نصف کنواں بارہ ہزاردرہم میں اس شرط پرخریدلیاکہ ایک دن حضرت عثمانؓ کی باری ہوگی اوردوسرے دن کاپانی یہودی کے لئے مخصوص ہوگا۔حضرت عثمانؓ نے اپنی باری کے دن کاپانی مسلمانوں کے لئے مفت کردیا۔لوگ دودن کے لئے پانی بھرلیتے تھے اس طرح یہودی کاکاروبارٹھپ ہوگیااس نے باقی حصہ بھی آٹھ ہزارمیں فروخت کردیااوریہ کنواں حضرت عثمان غنیؓ نے خریدکرمسلمانوں کے لئے وقف کردیا۔مسجدنبوی میں توسیع کی ضرورت ہوئی توآپؓ نے25ہزاردرہم کے لگ بھگ رقم سے جگہ خریدکردی ۔خانہ کعبہ کی توسیع کے لئے قریباًدس ہزارمیں زمین خریدی۔
حضرت ابوبکرصدیقؓ کے دورِ خلافت میں سخت قحط پڑگیالوگ جمع ہوکرحضرت ابوبکرصدیقؓ کے پاس آئے ۔آپؓ کی بارگاہ میں غلہ کم ہونے کی شکایت کی ۔اس پرآپؓ نے فرمایاگھبراؤنہیں بفضلہ تعالیٰ مجھے امیدہے کہ اللہ تعالیٰ شام سے پہلے یہ مشکل آسان فرما دے گاجب شام کاوقت ہواتوپتہ چلاکہ حضرت عثمان غنیؓ کے غلے سے بھرے ہوئے ایک ہزاراونٹ شام سے واپس مدینہ پہنچ چکے ہیں یہ اطلاع ملتے ہی مدینہ منورہ کے تمام تاجرآپؓ کے گھرجمع ہوگئے آپؓ سے غلہ خریدنے کی بات کی حضرت عثمان غنی نے فرمایاکیانفع دوگے؟وہ کہنے لگے دوگنانفع دیں گے ۔آپؓ نے فرمایایہ تھوڑاہے وہ کہنے لگے چارگنانفع لے لو۔آپؓ نے فرمایایہ تھوڑاہے ۔مدینہ کے تاجروں نے کہاپانچ گنانفع لے لو۔آپؓ نے فرمایایہ تھوڑاہے اورزیادہ کرو۔وہ کہنے لگے کہ مدینہ کے تاجرتوہم ہیں اورہم سے زیادہ آپ کونفع کون دے گا۔آپؓ نے فرمایاجوکوئی دس گنانفع دے گایہ غلہ اسے دونگا۔تاجروں نے اتنانفع دینے سے انکارکردیا۔آپؓ نے فرمایامجھے بارگاہ الٰہی سے ایک درہم کے بدلے دس درہم نفع ملتاہے یہ کہہ کرآپؓ نے ساراغلہ مدینہ منورہ کے غرباء میں تقسیم کردیا۔قربان جاؤں حضرت سیدناعثمان غنیؓ تیری سخاوت پراللہ پاک آپؓ کی سخاوت کی وجہ سے اہل مومن کے دل میں سخاوت ڈال دے۔غزوہ تبوک کے موقع پرایک وقت ایسابھی آیاجب مدینہ منورہ میں سخت قحط پڑگیااورنوبت درختوں کے پتے کھانے تک آگئی جب غزوہ تبوک کی تیاری کی گئی تواس وقت نہایت بے سروسامانی کاعالم تھاحضورﷺنے صحابہ کرامؓ کوجہادکی ترغیب دی حضرت سیدناعثمان غنیؓنے سواونٹ سامان سے لدئے ہوئے پیش کیے حضورﷺنے پھرجہادکی ترغیب دی توحضرت سیدناعثمان غنیؓ نے سواونٹ مزیدسامان سے لدئے ہوئے مزیدآقاﷺ کی بارگاہ میں پیش کیے ۔آقاﷺنے جہادکی ترغیب جاری رکھی یہاں تک کہ حضرت سیدناعثمان غنیؓ نے مزیدایک سواونٹ مع سامان لے کر آقاﷺکی خدمت میں حاضرہوئے حضورﷺنے منبرسے نیچے اترکرفرمایا:آج کے بعدکوئی عمل عثمانؓ کونقصان نہیں پہنچائے گا۔حضرت ابوسعیدخدریؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریمﷺکی خدمت اقدس میں حاضرتھاتوآپﷺنے حضرت سیدناعثمان غنیؓ کے لئے دعاکی “اے اللہ میں عثمان سے راضی ہوں لہذاتوبھی اس سے راضی ہوجا”۔
بغض عثمان غنیؓ:حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺایک شخص کی نمازہ جنازہ پڑھانے تشریف لے گئے ۔پس آپﷺنے اسکاجنازہ نہ پڑھایا۔ آپﷺسے عرض کیاگیایارسول اللہﷺآپ اس سے پہلے کبھی کسی کاجنازہ پڑھائے بغیرواپس نہیں آئے توآقاﷺنے فرمایا”بے شک وہ شخص عثمان سے بغض رکھتاتھا،پس وہ اللہ پاک سے بغض رکھتاتھا “۔(ترمذی)۔

شہا د ت

حضرت عثمانؓ کی شہادت عبداللہ بن سبّااورمروان کی شرارتوں سے واقع ہوئی چنانچہ مصریوں کے اصرارپرصحابہ کرامؓ کی ایک جماعت حضرت عثمان غنیؓ کے پاس آئی اورگورنرمصرکی معزولی کامطالبہ کیاآپ نے فرمایاجس کوتم پسندکرتے ہومیں اسکوگورنربنادیتاہوں انہوں نے حضرت محمدبن ابوبکرؓ کی طرف اشارہ کیاآپؓ نے محمدبن ابکرؓ کوگورنربناکرمصرروانہ کردیااور انکے ساتھ مہاجرین وانصارکی بھی ایک کثیرتعدادروانہ ہوئی تاکہ وہاں کے حالات کاجائزہ لیں۔ادھرمروان نے مصرکے پہلے گورنرکوایک خط لکھاجس میں تحریرکیاکہ یہ خط امیرالمومنین کی طرف سے ہے ۔ان کاکہناہے کہ جونہی محمدبن ابوبکراورانکے ساتھی تمہارے ہاں پہنچیں توان سب کوقتل کردینااورخفیہ طورپرحضرت عثمانؓ کی مہرلگاکرآپ ہی کے غلام کواونٹ پرسوارکرکے مصرروانہ کردیاراستہ میں یہ لوگ اوریہ غلام باہم مل گئے۔انہوں نے اس غلام سے پوچھاکہ تم کہاں جارہے ہواس نے کہاامیرالمومنین کاایک پیغام لیکرمصرجاررہاہوں ۔انہوں نے کہاکہ مصرکاگورنرتوہمارے ساتھ ہے جوپیغام ہے انہیں کہواس نے کہایہ نہیں جو مصرمیں ہیں انکی بات ہے اس پرلوگوں کوشک پڑگیاوہ کہنے لگے کہ تیرے پاس کوئی خط تونہیں وہ غلام کہنے لگامیرے پاس کوئی خط نہیں ۔ چنانچہ انہوں نے اس غلام کی تلاشی لی توخط نکل آیاجب اس نے کھول کرپڑھاتواس میں تحریرتھاکہ یہ خط حضرت عثمانؓ کیطرف سے ہے لوگوں نے محمدبن ابوبکرکوزبردستی حاکم مقررکردیاہے لہذاجس وقت یہ مصرمیں پہنچیں توانہیں فوراََ قتل کردینا۔یہ خط پڑھ کرسب غصہ میں بھڑک اٹھے اورواپس مدینہ منورہ آگئے اورتمام صحابہ کوجمع کیااوروہ خط سنایاصحابہ کرامؓ وہ خط لیکرحضرت عثمانؓ کے پاس گئے اورکہاکیایہ خط تم نے لکھوایاہے حضرت عثمانؓ نے لاعلمی اظہارکیا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیایاامیرالمومنین آپ حکم دیں ہم ان سے لڑائی کرکے انہیں بھگادیں ۔آپؓ نے فرمایاتمہیں قسم ہے پیداکرنیوالے کی کسی مسلمان کاایک قطرہ بھی خون کانہ بہانامیں اسکاقیامت کے دن کیاجواب دوں گا۔پھرصحابہ کرامؓ نے کہاکہ آپ کسی اورجگہ چلے جائیں آپؓ نے فرمایامیں چاہتاہوں کہ سرکارکے قدموں میں میری جان نکل جائے توکوئی پرواہ نہیں اسکے بعدآپؓ مسجدمیں تشریف لے گئے اورمنبرپرکھڑے ہوکرخطبہ دیااورخط کے بارے میں اپنی لاعلمی کااظہارفرماہی رہے تھے کہ ظالموں نے آپؓ پرپتھربرسانے شروع کردیے یہاں تک کہ آپؓ بے ہوش ہوکرزخمی حالت میں منبرسے نیچے گرپڑے ۔لوگ آپکواسی حالت میں اٹھاکرلے آئے صحابہ کرامؓ نے آپکی حالت دیکھ کرایک بارپھرکہااے امیرالمومنین آپ ہمیں اجازت دیں ہم انکاخاتمہ کردیں آپؓ نے انہیں منع فرمادیا۔اب ایک بارپھرسینکڑوں کی تعدادمیں بلوائیوں نے حضرت عثمان غنیؓ کے گھرکامحاصرہ کرلیااورکہنے لگے کہ اب بغیرقتل کے نہ چھوڑیں گے اورہرچیزکامکان کے اندرآناجاناحتیٰ کہ پانی تک بندکردیاگھرمیں کھانے پینے کی ہرچیزختم ہوگئی جب پانی بندہوئے سات دن گزرگئے توحضرت سیدناعثمانؓ نے کھڑکی سے سرمبارک باہرنکال کرآوازدی کہ ہے کوئی آج عثمانؓ کوپانی کاایک پیالہ پلادے میں وعدہ کرتاہوں کہ قیامت کے دن جونبی کریمﷺحوض کوثرپرپیالہ مجھے عطافرمائیں گے میں اُسے پیالہ دوں گا۔جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کوپتاچلاتوآپؓ نے تین مشکیں پانی سے بھریں اورجب آپکے مکان کے قریب پہنچے توان باغیوں نے مشکوں میں برچھے مارکرانہیں چھلنی کردیاجس سے ساراپانی بہہ گیااسکے بعدحضرت ام المومنین ام حبیبہؓ بھی پانی کی ایک مشک لے کرخچرپرسوارہوکرآئیں۔مگران ظالموں نے انکی بھی پرواہ نہ کی اورخچرکے منہ پرچھڑیاں ماریں جس سے وہ ایسابھاگاکہ حضرت ام حبیبہؓ بمشکل گرنے سے بچیں یہ دیکھ کرلوگ گھبرائے اورکہاخداتمہارا خانہ خراب کرے ازواج نبی کاتوکچھ خیال کرواس پراہل مدینہ کوبہت غصہ آیااورتلواریں لے کرحضرت عثمانؓ سے عرض کیاکہ اب توازواج رسول کی بھی بے حرمتی ہونے لگی ہے ہمیں لڑنے کی اجازت دوآپؓ نے پھرمنع فرمادیاحتیٰ کہ پانی بندہوئے چالیس دن گذرگئے اسکے بعدظالموں نے آپکے مکان کوآگ لگادی گھروالے گھبرااٹھے بچے رونے لگے حضرت عثمان غنیؓ اسوقت نمازپڑھ رہے تھے گھرجل رہاتھامگرحضرت عثمانؓ کی نمازمیں ذرابھربھی فرق نہ آیا۔اسکے بعدآپؓ قرآن مجیدکی تلاوت شروع کردی ۔چندباغی دیوارپھاندکرمکان کے اندرداخل ہوگئے جن میں محمدبن ابی بکرنے آپؓ کی داڑھی مبارک کوپکڑکرہلاناشرو ع کردیا۔آپؓ نے فرمایااگرتیراباپ آج زندہ ہوتاتوتوکبھی ایسانہ کرتاچنانچہ وہ تواس بات سے شرم کھاکربھاگ نکلا۔ایک ظالم سوادبن جمران نے آپ کاگلاگھونٹااورایک نے آپ کے چہرے پرطمانچے مارنے شروع کردیے مگرواہ عثمان تیرے حوصلے پرصدقے تیرے صبرپرقربان اُف تک نہ کی پھراس نے تلوارکاوارکیاجس سے آپکی زوجہ حضرت نائلہؓ کی انگلیاں روکتے ہوئے کٹ گئیں اورآپؓ کااپناہاتھ بھی کٹ کرزمین پرگرگیااس پرآپؓ نے فرمایایہ وہ ہاتھ تھاجووحی لکھاکرتاتھاآج یہ راہ مولیٰ میں کٹاہے یہ وہ ہاتھ تھاجس نے نبی کریمﷺکے ہاتھ پربیعت کی تھی اورجس دن سے اس ہاتھ کونبی کریمﷺنے اپناہاتھ کہایہ کسی گندی جگہ پرنہ گیا۔آپؓ نے فرمایا!اوبے خبروذرااس ہاتھ کواچھی طرح دفن کرنااسکے بعدایک اورظالم نے آپؓ پربرچھے کے وارکرناشروع کردیے اورخون کاپہلاقطرہ قرآن مجیدکی اس آیت پرگرا”فَسَیَکْفِیْکَھُمُُ اللّٰہ وَھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْم “تمہارے لئے اللہ ہی کافی ہے اوروہ سننے والااورجاننے والاہے۔اس طرح آپ تلاوت قرآن مجیداورکلمہ شریف کاوردکرتے ہوئے اٹھارہ۱۸ذوالحجہ ۳۵ ؁ھ بروزجمعۃ المبارک کوجام شہادت نوش فرماگئے ۔اِنَّالِلّٰہ وَاِنَّااِلِیْہِ رٰجِعُوْن۔
تجہیزوتکفین:روایات میں موجودہے کہ حضرت عثمان غنیؓ کاجسم اطہرتین دن تک آپؓ کے گھربے گوروکفن پڑارہاآپؓ کے گھرکے ارگردسازشیوں نے شورش برپاکررکھی تھی بالآخرشہادت کے چوتھے روزحضرت جبیربن معطمؓ اورحضرت حکیم بن حزامؓ حضرت سیدناعلی المرتضیٰ کی خدمت میں حاضرہوئے اوران سے درخواست کی وہ ان سازشیوں کوسمجھائیں کہ اب تووہ حضرت سیدناعثمان غنیؓ کی تدفین کرنے دیں حضرت علی المرتضیٰؓ سازشیوں کے پاس پہنچے توآپؓ نے حضرت سیدناامام حسن ،حضرت زبیربن العوامؓ اوردیگرکوحضرت سیدناعثمان غنیؓ کاجنازہ لاتے دیکھاجنازہ کے ہمراہ حضرت سیدناعثمان غنیؓ کے کچھ رشتہ داربھی تھے شرپسندوں نے کوشش کی کہ وہ آپکے جنازے کوروکیں لیکن حضرت سیدناعلی المرتضیٰ نے مدینہ منورہ کے چندجوانوں کوحکم دیاکہ اگریہ کچھ کریں توانکے ساتھ سختی سے نمٹاجائے ۔حضرت سیدناعثمان غنیؓ کوجنت البقیع سے ملحقہ باغ حش کوکب میں لایاگیاجوآجکل جنت البقیع کاحصہ ہے حضرت جبیربن معطمؓ نے حضرت سیدناعثمان غنیؓ کی نمازہ جنازہ پڑھائی اور سیدناامام حسنؓ ودیگرنے آپؓ کوقبرمبارک میں اتارا۔روایات میں آتاہے کہ حضرت سیدناعثمان غنیؓ کے جنازہ کے ساتھ سترافرادتھے جنہوں نے آپؓ کوحش کوکب میں دفن کیااورشرپسندوں کے شرکیوجہ سے آپؓ کی قبرمبارک کانشان چھپادیا۔
حضرت سیدناعثمان غنیؓ کی شہادت تاریخ اسلام کاسب سے بڑاسانحہ تھاآپؓ کی شہادت کے بعددین اسلام کاشیرازہ بکھرگیااورتاریخ گواہ ہے کہ مسلمان آپؓ کی شہادت کے بعدپھرکبھی دوبارہ متحدنہ ہوسکے آپؓ کی شہادت کے بعدمسلمانوں میں اختلافات بڑھتے چلے گئے جسکے نتیجہ میں اغیارنے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں میں کئی فرقوں کوپیداکیااورحضورنبی کریمﷺکی یہ حدیث بھی تکمیل کوپہنچی کہ میری امت کے تہترفرقے ہونگے ۔

فرمودات

بندگی کامفہوم ہے کہ انسان اللہ عزوجل کے احکام پرعمل کرے جوعہدکرے اسے پوراکرے اورجومل جائے اس پرصبرکرے۔
خاموشی غصہ کابہترین علاج ہے۔
جس کے لئے دنیاقیدہے اس کے لئے قبرراحت کامقام ہے ۔
جب کسی کواچھاکرتے دیکھوتواسکے ساتھ شامل ہوجاؤ۔
جنت کے اندرروناعجیب ہے جبکہ دنیاکے اندرہنسناعجیب ہے ۔
فقیرکاایک درہم کاصدقہ غنی کے لاکھ درہم کے صدقہ سے بہترہے۔
اگرتوگناہ کرناچاہتاہے توایسی جگہ جاجہاں تجھے اللہ نہ دیکھے۔
حیرانگی ہے اس شخص پرجودوزخ کوبرحق مانتاہے مگرپھربھی گناہ کرتاہے۔
افضل ترین ایمان یہ ہے کہ اللہ عزوجل کوہمہ وقت اپنے ساتھ تصورکرے۔
علم بغیرعمل کے نفع دے سکتاہے مگرعمل بغیرعلم کے نفع نہیں دیتا۔

Short URL: http://tinyurl.com/z44v6ft
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *