معروف گلوکار عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی سے خصوصی انٹرویو۔۔۔۔ انٹرویو: ذوالفقار خان، میانوالی

Print Friendly, PDF & Email

داؤدخیل(انٹرویو: ذوالفقارخان) بین الاقوامی شہرت یافتہ ، پاکستان کے ہر علاقہ میں یکساں مقبول و معروف اورقمیض تیڈی کالی اور بنے گا نیا پاکستان جیسے گیتوں سے ہر خاص و عام کے دِل میں جوش و اضطراب پیدا کردینے والی شخصیت لالہ عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی سے خصوصی ملاقات کے لیے ساڑھے پانچ بجے شام عیسیٰ خیلوی ہاؤس عیسیٰ خیل کے داخلی دروازے پر پہنچے۔داخلی دروازے کے سیاہ رنگ پر سفید رنگ میں عیسیٰ خیلوی لکھا خوب جچتاہے۔ بائیں طرف اندر اور باہر ملحقہ لاریب مسجد ہے۔مسجد کے نام اور عطااللہ عیسیٰ خیلوی کی بڑی بیٹی کے نام میں مماثلت ان کی بیٹی سے محبت کااظہار لگتی ہے۔ چوکیدار نے دروازہ کھولا، ہم سمجھے کہ ہمیں اندر لے جانے کے لیے دروازہ کھلا ہے۔ مگر اندر سے ایک گاڑی نمودار ہوئی جو ہمارے پاس آکر رُک گئی۔ لالہ عطا اللہ عیسیٰ خیلوی خود گاڑی چلارہے تھے اور ساتھ والی سیٹ پر راقم کے ہم جماعت طارق خان براجمان تھے۔ لالہ عطا نے دُعا سلام کیا اور یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ آپ اندر بیٹھیں میں ابھی کچھ دیر میں آتا ہوں۔

عطااللہ خان عیسیٰ خیلوی کی رہائشگاہ کا داخلی دروازہ

عطااللہ خان عیسیٰ خیلوی کی رہائشگاہ کا داخلی دروازہ

گیٹ کھلا تو سامنے منفرد تعمیر کی گئی عمارت اور اوپر پی ٹی آئی کا بہت بڑا جھنڈا لہراتے ہوئے استقبال کررہے تھے۔راقم اپنی بیٹیوں مانوس جاثیہ، جمائما مریم ، مائدہ ساحل اور معروف انگلش لیکچرار صفی اللہ ملک کے ہمراہ زمین سے پانچ سات فٹ بلند بارہ دری نما گھر کے ہوا دار برآمدے میں بیٹھا دیئے گئے۔زلفی نامی نوجوان نے ہمیں سادہ پانی اور کولڈ ڈرنکس پیش کیے ۔ بچے گھر کے اردگرد گھوم پھر کر تصاویر بنانے میں مصروف ہوگئے اور ہم لالہ کا انتظار کرنے لگے۔

داخلی دروازے سے داخل ہوتے ہی سامنے بارہ دری نما گھر کا منظر

داخلی دروازے سے داخل ہوتے ہی سامنے بارہ دری نما گھر کا منظر

حسبِ وعدہ تھوڑی دیر بعد عطااللہ خان عیسیٰ خیلوی ہشاش بشاش واپس ہمارے سامنے تھے۔ بارہ دری کے سائے میں باہر لان میں کرسیاں لگوا دی گئیں ۔صفی اللہ ملک ،پروفیسر منور علی ملک کے شاگرد ہیں اور لالہ عطااللہ عیسیٰ خیلوی پروفیسر منور علی ملک کے دوست بھی ہیں، شاگرد بھی ، پروفیسر منور علی ملک کے دردِ کے سفیر بھی ہیں۔اس تعلق سے صفی اللہ ملک سے لالہ کا بھی ایک خاص تعلق ہے جو وجہ ملاقات ٹھہرا۔
پانچ سال پہلے کی ملاقات میں نظرآنے والی شوخی اب سنجیدگی میں بدلی دکھائی دی۔ سوچ سمجھ کے مگر فی البدیع اور روانی سے اتنی پتے کی باتیں سننے کو ملیں جو عام گلوکار سے شاید توقع نہ کی جاسکیں۔جتنا اچھا گلوکار اس سے بڑھ کر معیاری باتیں۔ نسوار اور سگریٹ کا میز پہ پڑے ہونا علاقائی ثقافت اور گلوکاری کلچر کی دین ٹھہرا۔ اس پہ بات کرنا عبث ہے۔جو باتیں لالہ عطااللہ عیسیٰ خیلوی سے ہوئیں۔ قارئین کی نذر ہیں۔

لاریب مسجد

داخلی دروازے کے بائیں طرف کونے میں اندر باہر سے ملحق لاریب مسجد۔ جہاں مسافروں کو بھی نماز پڑھنے کی سہولت رہتی ہے۔

راقم: بچپن کی کچھ خاص یادیں جو آج بھی تازہ ہوں؟

عیسیٰ خیلوی: بچپن کی کوئی ایک یاد ہوتو انسان بیان کرے۔ ہر بچے کی طرح میرا بچپن بھی حسین خوابوں ، بے فکر زندگی ، محلے کی گلیوں میں دوڑتے بھاگتے، کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر گرتے پڑتے اور والدین کی ڈانٹ اور ڈنڈوں سے لطف اندوز ہوتے گزرا۔

راقم: لڑکپن میں مزاج میں شوخی تھی یا سنجیدگی؟

عیسیٰ خیلوی: لڑکپن شوخی کا نام ہے ، مگر جب گانے بجانے پروالدین کی ڈانٹ پڑتی تو شوخی رفو چکر ہوجاتی۔
کون ساموسم پسند ہے پر جواب دیا سارے موسم دِل سے ہوکر گزرتے ہیں، دِل کا موسم اچھا توسارے موسم اچھے۔ مگر مجھے سردی کا موسم پسند ہے۔

راقم : لباس اوررنگ کون سا پسند ہے؟

عیسیٰ خیلوی: شلوار قمیص زندگی کا بہترین پہناوا ہے۔ اس چولے سُتَنڑ(قمیص شلوار) سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ ہمارا قومی لباس بھی ہے اور اس میں آسانی بھی محسوس کرتاہوں۔ سندھی اجرک کے ساتھ ساتھ سیاہ رنگ مزاج کا حصہ ہے۔

راقم انٹرویو لے رہاہے جبکہ ساتھ لیکچرار صفی اللہ ملک بھی موجود ہیں

راقم انٹرویو لے رہاہے جبکہ ساتھ لیکچرار صفی اللہ ملک بھی موجود ہیں

راقم : پاکستان ایک حسین ملک ہے۔ اس کے شہروں کے بھی اپنے اپنے رنگ ہیں۔ آپ کو کون سا شہر زیادہ پسند ہے اور کیوں؟

عطااللہ عیسیٰ خیلوی: مجھے عیسیٰ خیل کے علاوہ کوئی شہر پسند نہیں۔ یہ میری جنم بھومی ہے۔ میری زندگی کی قیمتی اور حقیقی یادوں کا سرمایہ اس شہر سے جُڑا ہے۔ عیسیٰ خیل میرے انگ انگ میں رچا بسا ہے۔ اس شہرکے گلی محلوں میں میری جان اٹکی ہوئی ہے۔ میرا بس چلے تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر عیسیٰ خیل مستقل سکونت اختیار کرلوں۔میرا پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ میں نے دُنیا جہان کا چپہ چپہ دیکھا ہے۔ مگر میں ہرجگہ بے چینی محسوس کرتا ہوں۔ جب میں دُنیا بھر سے گھوم پھر کرضلع میانوالی کی سرزمین پر قدم رکھتاہوں تو دِل باغ باغ اور طبیعت ہشاش بشاش اور پُرسکون ہوجاتی ہے۔

راقم: آپ نے بہت سے شعراء کا کلام گایا ہے۔ آپ کا پسندیدہ شاعر کون ہے؟

عطااللہ عیسیٰ خیلوی: سرائیکی و اُردو جن کا کلام مجھے گانا کا موقع ملا، ہر شاعر کسی نہ کسی حوالے سے منفرد مقام رکھتاہے۔ کسی کا دوہڑا بلندیوں کو چھوتاہے تو کسی کا ماہیا۔ کسی کا گیت دِل موہ لیتاہے۔ پروفیسر منور علی ملک،سونا خان بے وس، آڈھا خان، مجبور عیسیٰ خیلوی،محمود احمد محمود، افضل عاجز ہوں یا ایسے میرے بہت سے دیگرمحسن شعراء سب نے اس میدان میں ادب کی بہت خدمت کی ہے ۔

راقم : کھانے میں کیا پسند کرتے ہیں؟

عطااللہ عیسیٰ خیلوی: مجھے کوئی خاص ڈش پسند نہیں ہے۔ بس جو مل جائے الحمداللہ۔ سادہ خوراک کو ہمیشہ ترجیح دیتاہوں۔ میری صحت دیکھیں ، کیسی ہے۔ اس صحت کا راز یہی سادہ خوراک ہے۔

انٹرویو کے دوران دیگر دوست احباب کی آمد پر محفل کا منظر

انٹرویو کے دوران دیگر دوست احباب کی آمد پر محفل کا منظر

راقم : آپ مانشااللہ اس عمر میں بھی فٹ اور سلم اینڈ سمارٹ دکھائی دیتے ہیں۔ کیا آپ کا ورزش کا کوئی باقاعدہ ٹائم ٹیبل ہے؟

عطااللہ عیسیٰ خیلوی:(ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے) بھائی اگر انسان پندرہ منٹ باجا بجا لے تو لگ پتاجاتاہے۔ ساری ورزشیں پوری ہوجاتی ہیں۔

راقم: جس شعبہ زندگی سے آپ وابستہ ہیں، بیگم شکوک شبہات کا اظہار تو کرتی ہوں گی؟ بیگم کس حد تک شکی مزاج ہیں؟

عیسیٰ خیلوی: ایسی کوئی بات نہیں۔ سمجھداراور اچھی بیوی سے بہتر اپنے خاوند کو کوئی اور نہیں جانتا۔ سمجھدار بیوی اپنے مرد کی مزاج شناس ہوتی ہے۔ کسی مرد کے پروفیشن کی بنیاد پر اچھی بیوی شک نہیں کرتی۔ میری بیوی بھی سمجھدار اور بہت اچھی بیویوں میں شمار ہوتی ہے۔

راقم: شاپنگ کا شوق کس حد تک ہے؟

عیسیٰ خیلوی: بالکل نہیں۔ گھر کی ملکہ ہی شاپنگ کی ملکہ ہے۔ وہی میری اور گھرکی دیگرضروریات کے لیے شاپنگ کی بھاری ذمہ داری نبھاتی آئی ہیں۔

راقم: زندگی میں بے شمارکامیابیوں کے بعد کوئی ایسی حسرت جو بار بار اُمنڈ آتی ہو ؟

عیسیٰ خیلوی: اللہ کا میرے اوپر خاص کرم رہاہے۔ زندگی کی ہر خواہش اللہ نے پوری کردی۔ بس ایک حسرت اور خواہش ہے کہ میری اولاد بڑی ہوکر محب وطن اور اچھی پاکستانی ثابت ہو۔ اپنے وطن سے محبت اور اچھے پاکستانی کی عملی مثال میری آنکھوں کے سامنے بنیں۔ تاکہ میری زندگی کاایک بڑا مقصد پورا ہو۔ یہی خواہش پاکستان کی نوجوان نسل کے لیے بھی دِل میں موجزن رہتی ہے۔ اسی لیے میرے گانے بھی وطن کی محبت اور پاکستانی تہذیب کے عکاس ہوتے ہیں۔

 لالہ عطااللہ عیسیٰ خیلوی کے ساتھ طالبات(راقم کی بیٹیاں) مانوس جاثیہ، جمائمامریم اور مائدہ ساحل کی فوٹو

لالہ عطااللہ عیسیٰ خیلوی کے ساتھ طالبات(راقم کی بیٹیاں) مانوس جاثیہ، جمائمامریم اور مائدہ ساحل کی فوٹو

راقم:دورانِ سیلاب آپ نے بہت سی خدمات سرانجام دیں،جھولی پھیلاؤ چندہ مہم چلائی، ضرورت مندوں کو مکان بنوانے میں مدد کی۔ کیا کوئی مستقل سماجی خدمت کا منصوبہ بھی آپ کا مشن ہے؟

عیسیٰ خیلوی: سماج کی خدمت میرے اوپر قرض ہے۔ اس حوالے سے میں نے عیسیٰ خیلوی ویلفیئر ٹرسٹ کے نام سے ایک ادارہ بنا رکھاہے۔ جو ضرورت مند افراد کی مختلف شعبہ جات میں مدد کرتا ہے۔

راقم: آپ نے گائیکی کی دُنیا میں ایک منفرد مقام بنایاہے۔ اسے آپ اپنے معاشرے کی خدمت سمجھتے ہیں یا کبھی اس پروفیشن کے حوالے سے دِل میں خلش بھی پیدا ہوتی ہے کہ یہ پروفیشن اختیار نہیں کرنا چاہیے تھا، ضمیر پہ کوئی بوجھ ہو؟

عیسیٰ خیلوی: کوئی خلش ہے نہ ضمیر پر کوئی بوجھ۔میری گائیکی کے ذریعے ہزاروں، لاکھوں افراد کے دُکھی دلوں کو سہارا ملا ہے۔میرے چاہنے والوں کی تعداد دیکھ کے عام آدمی بھی اندازہ کرسکتاہے کہ اس پروفیشن کے ذریعے میں نے اپنی قوم کی کتنی خدمت کی ہے۔کسی سے دھوکا، فراڈ، جھوٹ، رشوت، غیبت یا کسی سے ظلم و زیادتی کی ہوتی تو ضرور ضمیر پر بوجھ ہوتا۔ دُکھی اور تھکی ہوئی مخلوق کو سکھ اور تازگی مہیاکرنے کی وجہ سے میرا ضمیر مطمئن ہے۔

 عیسیٰ خیلوی کسی اپنے چاہنے والے سے موبائل پر بات کررہے ہیں۔ ساتھ جمائما مریم بیٹھی ہیں

عیسیٰ خیلوی کسی اپنے چاہنے والے سے موبائل پر بات کررہے ہیں۔ ساتھ جمائما مریم بیٹھی ہیں

راقم: آپ اتنے بڑے گلوکار ہیں۔ آپ کا ایک منفردانداز ہے۔ بہت سے لوگ آپ کی نقل کرنے کی کوشش کرتے بھی پائے جاتے ہیں۔ کیا آپ نے اپنے اس انداز اور فن کو منتقل کرنے کے لیے کوئی ادارہ بنایا ہو یا کچھ شاگرد تیار کیے ہوں؟

عیسیٰ خیلوی: میرا اپنا ایک انداز ہے جو اللہ کی دین ہے۔ اب ہر کسی کو تو میرا انداز ملنا ممکن نہیں۔ عطااللہ عیسیٰ خیلوی تو بس ایک ہی اللہ نے پیدا کیاہے۔ بہت سے نوجوانوں نے فن سیکھنے کے لیے میری صحبت اختیار کی مگر آج کے نوجوان میں محنت کا فقدان ہے۔ ہم نے بہت ماریں کھائیں، تب جا کر ہم اس مقام پر پہنچے ہیں۔ اپنے استادوں کے جوتے اُٹھائے اور کھائے۔ تقریبات میں شرکت کے لیے منتیں کیں، کوئی سننے کو تیار نہ ہوتا۔ کئی بار مذاق کا نشانہ بن گئے۔ ترقی کے لیے دل گردہ بہت بڑا کرنا پڑتاہے۔ اب ہر نوجوان شارٹ کٹ کے چکر میں ہے۔ وہ سینہ کے زور پہ نہیں ساؤنڈ سسٹم کے زور پر گلوکار بننے کی کوشش کرتاہے۔بے ہنگم اور شور شرابے والی موسیقی میں ان کی آواز سنائی ہی نہیں دیتی، بس کچھ اُچھل کُود والے مل جاتے ہیں اور وہ ہٹ ہوجاتاہے۔ میری شاگردی تو وہی اختیار کرے گا، جو راتیں جاگے گا۔ جسے کھانے پینے سے زیادہ فن سیکھنے سے محبت ہوگی۔

راقم: پاکستان تحریک انصاف کا گھر پر لہراتا جھنڈا اور بنے گا نیا پاکستان کا گیت کیا صرف پی ٹی آئی سے محبت کے اظہار کے لیے ہے یا اس جماعت کے پلیٹ فارم سے مستقل طور پر کوئی کردار ادا کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں؟

عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی:میں صرف بنے گا نیا پاکستان کے گیت کی حد تک نہیں بلکہ دِل و جان سے کپتان کے ساتھ ہوں۔ عمران خان جو بھی ذمہ داری مجھ پر ڈالیں گے، وہ ادا کرنے کے لیے میں ذہنی طور پرتیار ہوں۔ اب یہ کپتان کو بہتر پتا ہے کہ مجھ میں کون سی صلاحیت اچھی ہے۔

راقم لالہ عطا کو کتاب کی تحفہ پیش کررہے ہیں۔لالہ عطا کتاب کو توجہ سے دیکھ رہے ہیں

راقم لالہ عطا کو کتاب کی تحفہ پیش کررہے ہیں۔لالہ عطا کتاب کو توجہ سے دیکھ رہے ہیں

راقم: پاکستان تحریک انصاف میں ثقافت کے حوالے سے کوئی ونگ کام کررہاہے؟

عیسیٰ خیلوی: کنفرم تو نہیں ، سُنا ہے کہ اس حوالے سے پی ٹی آئی ایک مفصل ایجنڈا رکھتی ہے۔ عمران خان پاکستان کی ثقافت کے حوالے سے بہت حساس ہیں۔ اُن کا قومی لباس اور قومی زبان کو ترجیح دینا بھی اس حوالے سے زندہ مثالیں ہیں۔ جب پی ٹی آئی کو اقتدار ملا تو تہذیب و ثقافت کی حفاظت اور ترقی کے لیے ضرور اقدامات کیے جائیں گے۔ ہر شعبہ کی طرح اس شعبہ میں بھی میرٹ پر اسپیشلسٹ اورایکسپرٹ لوگوں کو ذمہ داریاں سونپی جائیں گی۔

راقم: عمران خان کے اردگرد، دائیں بائیں کافی تعداد دیگر جماعتوں سے نکلے ہوئے ، نکالے ہوئے،آزمائے ہوئے، ناراض یا پی ٹی آئی کی مقبولیت کو دیکھ کر شامل ہونے والوں کی نظر آتی ہے۔ کیا ایسی شخصیات کی موجودگی میں پاکستان تحریک انصاف ملک میں حقیقی تبدیلی لا پائے گی، یا پھر بس ایک نئی پارٹی کی حکومت والی بات ہوگی؟

عطااللہ عیسیٰ خیلوی: جب تھانیدار دیانتدار ہو تو سپاہی بھی ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ عمران خان ایک دیانتدار اور دردِ دِل والا لیڈر ہے۔ عمران خان جیسے کپتان کی موجودگی میں شکستوں سے دوچار ٹیم جب ورلڈ کپ کی فاتح بن سکتی ہے۔ کینسر ہسپتال جیسے مشکل ترین منصوبے کامیابی سے چلائے جاسکتے ہیں۔ نمل ایجوکیشن سٹی جیسے منصوبے کامیابیوں کو چھو سکتے ہیں تو انشااللہ اس کپتان کی موجودگی میں ملک میں بھی حقیقی تبدیلی ضرور آئے گی۔

 پانچ سال پہلے سیلاب کے دنوں میں عیسیٰ خیلوی ہاؤس میں لی گئی عطااللہ عیسیٰ خیلوی کی خصوصی پوز والی تصویر

پانچ سال پہلے سیلاب کے دنوں میں عیسیٰ خیلوی ہاؤس میں لی گئی عطااللہ عیسیٰ خیلوی کی خصوصی پوز والی تصویر

راقم: آپ شہرت کی جس بلندی پر ہیں، یہ شہرت، یہ دولت، یہ عزت اس کو اپنی کاوش کی دین سمجھتے ہیں یا اللہ کی عنایت؟

عطااللہ عیسیٰ خیلوی:( عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے) انسان کوشش کرتاہے۔ کوشش صرف عطااللہ عیسیٰ خیلوی نے نہیں کی۔ بہت سے لوگ ہم سے پہلے اچھا گانے والے ، ہم سے زیادہ محنت کرنے والے، زیادہ مشکل حالات کا سامنے کرنے والے لوگ،ہم جن کی جوتیاں اُٹھانے والے تھے۔ یہ شہرت اور مقام حاصل نہیں کرپائے۔ اور ہمیں یہ سب کچھ مل گیا۔ اس میں مجھ ناچیز کا کمال کم اور اللہ کی مہربانی اور شفقت زیادہ تھی۔ وہی ہے جو عزت بھی بخشتاہے اور شہرت بھی۔ انسان کاکام محنت کرنا اورمکمل بھروسا صرف اور صرف اللہ کی ذات پررکھناہوتاہے۔

شرکاء محفل: آپ کی دوسری شادی بارے کیا رائے ہے؟

عطااللہ عیسیٰ خیلوی: شادی ایک اہم فریضہ ہے۔ کوئی گڈے گڈی کا کھیل نہیں۔ میاں بیوی ایک دوسرے کالباس ہوتے ہیں جب تک یہ ایک دوسرے کا لباس رہیں ، ایک دوسرے سے بے وفائی نہ کریں،ہم شناس ہوں، ایک دوسرے کی ضروریات پوری کررہے ہوں تو دوسری شادی کاسوچنا بھی نہیں چاہیے۔ دوسری شادی شوقیہ نہیں ضرورت کے تحت کرنی پڑجائے تو الگ بات ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ ضرورت بھی ناگزیر، ورنہ اپنی لالچ اور ہوس کو ضرورت کا نام دے کر ایسا قدم اُٹھانا بالکل نامناسب ہے۔ اس طرح پہلی بیوی اور بچوں کے حقوق غضب ہوتے ہیں۔خود غرضی کو ضرورت کا نام دے کر اور پہلی بیوی اور والدین کو مجبوراََ رضامند کرلینا کوئی رضامندی نہیں ہوتی بلکہ یہ والدین اور پہلی بیوی اور بچوں کی محبت کا قتل ہے۔

 پانچ سال پہلے سیلاب کے دنوں میں عیسیٰ خیلوی ہاؤس میں لی گئی عطااللہ عیسیٰ خیلوی کی خصوصی پوز والی تصویر

پانچ سال پہلے سیلاب کے دنوں میں عیسیٰ خیلوی ہاؤس میں لی گئی عطااللہ عیسیٰ خیلوی کی خصوصی پوز والی تصویر

شرکاء محفل: عشق ہوجائے تو؟

عطااللہ عیسیٰ خیلوی: عشق ہو یا ضرورت اگر دونوں دماغ کے کنٹرول میں رہیں تو نعمت ورنہ ذلالت و خباثت کے سوا کچھ نہیں۔ہم جسے چھو نہ سکیں اُس کو خدا کہتے ہیں۔ اور عشق حصولِ منزل کے بعد رفو چکر ہوجاتاہے۔ اپنے دماغ کے خلل کو عشق کا نام دے کر اپنے والدین اور خاندان کے درجنوں افراد کو تکلیف میں مبتلا کرنا عشق نہیں بلکہ حد سے بڑھی ضرورتیں اور خواہشیں ہوتی ہے۔ عشق میں اگر اخلاقی حدود کا خیال نہ رکھا جاسکے تو اس میدان میں قدم نہ ہی رکھا جائے تو اچھا ہے۔کوئی بھی کام شرف انسانیت اور اپنے معیار سے گرا ہوا کرنا شائستہ انسانوں کو زیب نہیں دیتا۔ میرا تو یہی زندگی کا تجربہ اور نچوڑ ہے۔ میری تو نوجوان نسل کو بھی نصیحت ہے کہ کبھی بھی خواہشات کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر ڈوبنے کی غلطی نہ کریں۔ میری بیٹیوں سے بھی دست بستہ درخواست ہے کہ عشق و محبت کے نام پرغلط فیصلے کرکے اپنی اور والدین کی عزت کاجنازہ نہ نکالیں۔
لالہ عطا نے کہاکہ جب تک زندگی ہے گانا گا کر عوام کو خوشی اور مسرت پہنچاتارہوں گا مگر زندگی کو بے کار گزارنے کے بجائے خدمت کو اولین ترجیح دوں گا۔لالہ نے کہاکہ ہمیں اپنی لامتناہی خواہشات سے جب تک چھٹکارہ نہیں مل جاتا ، یہ نفسا نفسی ختم نہیں ہوسکتی ہے۔
چلتے چلتے راقم نے ابویحییٰ کی کتاب جب زندگی شروع ہوگی کا دوسرا حصہ قسم اُس وقت کی لالہ عطااللہ عیسیٰ خیلوی کی خدمت میں پیش کی اورجب میں اپنے دوست صفی اللہ ملک اور بیٹیوں کے ساتھ واپس پلٹا تو ابھی لالہ عیسیٰ خیلوی کی دوستوں کے ساتھ محفل جاری تھی۔ خوب ہنسی مذاق جاری تھا۔ لالہ جب دوستوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو اُن کا وہی لڑکپن لوٹ آتاہے۔ بس پھر وہ ایسی کھُلی ڈُلی سرائیکی اور ہندکو کے حسین امتزاج والی عیسیٰ خیل کی بولی بولتے ہیں جو محفل کو چار چاند لگا دیتی ہے۔
اس انٹرویو کے دوران راقم اور عطااللہ عیسیٰ خیلوی کے بہت نفیس دوست لیکچرار صفی اللہ ملک، طارق نیازی ودیگر دوست اورکچھ وقت کے لیے مانوس جاثیہ، جمائما مریم اور مائدہ ساحل بھی موجود تھیں۔

پانچ سال قبل سیلاب کے دنوں میں عیسیٰ خیلوی ہاؤس میں راقم (ذوالفقارخان)، سینئر صحافی حمیداللہ نیازی، دُلے والا بھکر کے صحافی و شاعر شاہ نواز ارشد کے ہمراہ عطااللہ عیسیٰ خیلوی کے ساتھ گروپ فوٹو

پانچ سال قبل سیلاب کے دنوں میں عیسیٰ خیلوی ہاؤس میں راقم (ذوالفقارخان)، سینئر صحافی حمیداللہ نیازی، دُلے والا بھکر کے صحافی و شاعر شاہ نواز ارشد کے ہمراہ عطااللہ عیسیٰ خیلوی کے ساتھ گروپ فوٹو

عطااللہ خان عیسیٰ خیلوی کا مختصر سا خاکہ

لالہ عطااللہ عیسیٰ خیلوی کا آبائی گھر محلہ بھمبراں والا عیسیٰ خیل میں ہے جہاں آج بھی اُن کی والدہ رہائش پذیر ہیں۔والدین مالی لحاظ سے متوسط درجے سے بھی نچلے درجے پر تھے۔عیسیٰ خیل کے شمالی بازار کے کونے پروالد کی آٹا مشین تھی۔جس پر میٹرک تک لالہ خود کام کرتے رہے۔ گانے کا شوق بھی ساتھ رہا۔ والد نے گانے سے بہت روکا،سختی کی۔ مار کھائی مگر شوق سے پیچھے نہ ہٹے۔
پہلے اپنے محلے کے مڈل سکول ، پھر شہر کے ہائی سکول اور بعد میں ڈگری کالج عیسیٰ خیل میں تعلیم حاصل کی۔ عیسیٰ خیل کی مرکزی جنازہ گاہ لالہ عیسیٰ خیلوی نے اپنی جیب سے اپنی نگرانی میں تعمیر کرائی۔ شہر کے درجنوں نوجوانوں کو بیرونِ ملک بھجوایا۔اپنا گایا ہوا گانا جو اکثر سنتے اور گنگناتے ہیں۔ اُس کے بول کچھ اِس طرح سے ہیں۔ ۔ ۔ میری زندگی دا اناں خلاصہ ۔ دُکھ ، درد، آہیں تے اتھرُو اثاثہ( میری زندگی کا بس اتنا خلاصہ ہے ، دُکھ، درد، آہیں اور آنسو میرا کل اثاثہ ہیں)۔
لالہ عطااللہ خان عیسیٰ خیلوی کی عمر اس وقت تقریباََ63سال ہے۔جذبے آج بھی جوان ہیں۔ لالہ نے کل پانچ شادیاں کیں۔ جن میں سے پہلی تین میں بات علیحدگی پر ختم ہوئی۔ چوتھی شادی معروف اداکارہ بازغہ سے ہوئی۔ جس سے دو بیٹے سانول، بلاول اور ایک بیٹی لاریب ہیں۔ بازغہ انگلینڈ میں سیٹل ہوچکی ہیں جبکہ آخری شادی تونسہ شریف کی ایک شریف فیملی میں ہوئی۔یہ بیوی گھریلو خاتون ہیں۔ بہت سادہ،نہایت خدمت گزاراور مہمان نواز ہیں۔ بہت پیاری سی چھوٹی بیٹی فاطمہ اسی کے بطن سے ہے جو لاہور کے ایک مقامی سکول میں زیرِ تعلیم ہے۔
لالہ عطااللہ خان عیسیٰ خیلوی کی والدہ تو حیات ہیں مگر والد حاجی احمد خان کچھ عرصہ قبل وفات پاگئے۔ لالہ کا چھوٹا بھائی ثنااللہ خان راولپنڈی میں اپنا ذاتی کاروبار کرتاہے۔ لالہ کی دوبہنوں میں سے بڑی بہن وفات پاچکی ہیں۔چھوٹی بہن سکول ٹیچر ہیں۔اس کے دو بیٹے ہیں۔جن کی کچھ عرصہ قبل شادی ہوچکی ہے۔لالہ عطا کا عیسیٰ خیل کے نیازی خاندان کی عزیز خیل برادری سے تعلق ہے۔جب بھی عیسیٰ خیل
آتے ہیں۔ شہر بھر اور گردونواح میں اپنے دوست احباب اور رشتہ داروں کے گھر خوشی اور غمی کے مواقع پہ ضرور شرکت کرتے ہیں۔
عطااللہ خان عیسیٰ خیلوی کا بارہ دری نما گھر، ارد گرد خوبصورت لان، درخت،مختلف پرندے اور جانور ان کی فطرت سے محبت کے عکاس ہیں۔

عمارت کے پچھلی طرف کا منظر

عمارت کے پچھلی طرف کا منظر

Short URL: http://tinyurl.com/jcyoqob
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *