میرا ہمزاد عارف لوہار

My cousin Arif Lohar (4)
Print Friendly, PDF & Email

عارف لوہار کی زندگانی ظفر اقبال ظفر کی زبانی

معروف پاکستانی فوک گلوکار عارف لوہار کی زندگی کے پہلو جومجھ پر عیاں ہوئے

مصنف ظفر اقبال ظفر کی کتاب ظفریات کا ایک دلکش مضمون۔ میرا ہمزادعار ف لوہار

My cousin Arif Lohar (6)

ایک دن ٹی وی پر پنجاب کے معروف فوک گلوکار عارف لوہار کا گیت چل رہا تھا کہ میری ماں عارف لوہار کو دیکھ سن کر کہنے لگی یہ میرا بھائی ہے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ماں بولی پنجابی اور لوہار برادری کا رشتہ اپنے ہونے کا اعلان کر رہا ہے میری ماں عارف لوہار کی فین ہے مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی اور میں نے نیت کر لی کہ عارف لوہار سے اپنی ماں کی ملاقات کروا کے اس خوشی کو رُوح سے محسوس کروں گامجھے نہیں پتا تھا کہ یہ خواہش قدرت کے انکشافات کی راہ ثابت ہوگی جو طلب تڑپ چاہت عزت محبت ادب جیسی کیفیات کا روپ دھارتی چلی جائے گئی میڈیا کی ایک خاتون جو ان کے انٹرویوز کر چکی تھی ان سے عارف بھائی کا نمبر مانگا تو انہوں نے عارف بھائی سے میراتزکرہ کرکے نمبر کی اجازت لے کر مجھے سینڈ کر دیا میں نے وائس مسیج کیا کہ مجھے ماں بولی پنجابی کے فروغ پر آپ کا انٹرویوکرنا ہے جو انڈین پنجاب اور پاکستانی پرنٹ اینڈ الیکٹرونک میڈ یا پر آئے گاجواب میں عارف بھائی کا وائس میسج بھی آ گیا کہ آپ میرے گھر پر چار بجے تشریف لے آئیں تاکہ میں اپنے بھائی کو انٹرویو دے سکوں میں عارف بھائی کے پاس پہنچا خوشگوار ملاقات میں خوشبودار باتیں اپنائیت کا وہ احساس ملا کہ رُوح معطر ہو گئی ہم مزاج انسان راحت رُوح ہوتا ہے ایسے لوگوں کی زہنی قلبی فنی تخلیقی زینت و آرائش قدرت اپنے غیر مرئی ہاتھوں سے کرتی ہے میں سوچتا تھا کہ عارف بھائی کسی بھی کلام کو اپنی گائیکی میں آب حیات کیسے پلا لیتے ہیں تو اس کا ایک راز یوں معلوم ہوا کہ آج تک انہوں نے جتنے بھی کلام گائے ہیں ان میں لفظ شراب نہیں ہے یعنی غیر شرعی غیر اخلاقی جذبوں کی ترجمانی کرنے والے الفاظ سے پاک کلام ہی امر ہونے کی وجہ ہوتے ہیں اسی طرح نعت حمد سے پیسے نہیں لیتے۔انٹرویو ریکارڈ ہوا جو شاہ مکھی اور گرمکھی زبان میں انڈیا پاکستان میں شائع ہوا میں عارف بھائی کی قدردانی اور مہربانی کے سامنے اپنا دامن بڑا کرنے کی کوشش میں لگا رہا واٹس اپ پر وائس مسیج میں ان کی قدر عزت محبت پرمبنی خوشبودار باتوں کے جواب میں کئی بار برابری کے لفظ تلاش کرنے میں ناکام ہو کر خاموشی میں جکڑ جاتا جیسے بندہ سپیچ لس ہو جاتا ہے کچھ عرصہ بعد میرے ایک دوست عرفان احمدکی وجہ سے مجھے غلاف کعبہ کا ٹکڑا نصیب ہوا میں نے اور کی فرمائش کی کہ مجھے عارف بھائی کو یہ مقدس تحفہ دینا ہے قدرت نے اس کا انتظام بھی کروا دیا تو میں نے عارف بھائی کواس مقدس تحفے کے بارے میں بتایا جس کا سنتے ہی ان کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی انتہائی خوشی کے عالم میں شکر خداوندی سے لبریز جواب ملا ہم ملاقات کا وقت بناتے رہے اور وقت ہمیں ایک دُکھ کی گھڑی سے ملانے جا رہا تھا کہ ستائیس رمضان المبارک کو ہارٹ اٹیک نے ان کی شریک حیات کو ان سے چھین کر خدا کے حوالے کردیا رُوح کے آنگن میں سوگ کا سماں اندرونی جہاں کو ویران کر گیا میں قل کے ختم پر تعزیت کے لیے حاضر ہوافاتحہ پڑھ کر افطاری کے لیے ان کے سامنے بیٹھا تھا چہرے سے ماسک اتارا تو مجھے دیکھتے ہی دونوں ہاتھ آسمان کی جانب اُٹھا کر کہنے لگے دیکھوبھائی قدرت نے کیا قربانی لے لی ہے میں نے بھی آسمان کی طرف ہاتھوں کا اشارہ کرتے ہوئے خدا کے حکم کی وضاحت کی مجھے سامنے سے بلوا کر اپنے پاس بیٹھا لیا کہنے لگے تمہار ے غلاف کعبہ والے تحفے کا میں نے ان سے تزکرہ کیا تھا اُس عورت نے میرے ساتھ سولہ سال اس طرح گزارے تھے جیسے کوئی عبادت میں جی رہا ہومیں نے کہا بھائی ان کے پردے سے شرم و حیا کا پتا چلتا ہے کہ انہیں کسی نا محرم نے آج تک نہیں دیکھا۔ کہنے لگے وہ میری شرم و حیا کا خدا کی طرف سے انعام تھی میری پاکیزگی کا ظاہری نمونہ تھی اس نے سارا جہاں میری ہی آنکھوں سے دیکھا تھا اپنی زندگی میں ہی بچوں کو کہا کرتی تھی تمہارے باپ کے اندر مجھ سے زیادہ اچھی ماں چھپی ہے مگر مجھے کیا پتا تھا کہ مجھے اُ س کے بعد اُس کو اپنے اندر زندہ رکھ کربچوں کے ساتھ جینا ہوگا اُس کا مقام اہمیت میرے وجود میں اس طرح بس گیا ہے کہ میں اُس کے بعد بھی اُس کی جگہ کسی اور عورت کو دینے کے لیے خود کو رضامند نہیں کر پاؤں گا۔جبکہ عارف بھائی کے والد حاجی عالم لوہار نے چار شادیاں کی تھیں بیویوں کو ایک جیسے لباس اور زیور پہناتے تھے جن میں ایک ماں عارف بھائی کو بہت مارا کرتی تھی ہوش سنبھانے پر معلوم ہوا کہ اس ماں نے انہیں اپنے پیٹ سے جنم دیا ہے۔

عارف بھائی چاہتے تووالد کی رُوح سے اجازت لے کر دوسری شادی کر سکتے تھے مگر انہوں نے خود کے ساتھ بچوں میں بھی اُس عورت کے پیار اور مقام میں کسی کو شریک کرنا گوارہ نہیں سمجھا۔عارف بھائی کے آنسو میری آنکھوں سے ٹپکتے ہوئے میرے چہرے کا وضو کروا رہے تھے اُن کے آنسو بھی اُن کے دل میں ٹپک رہے تھے مگر کمال کا ضبط اور صبر جس نے اپنے بچوں اور چاہنے والوں کو ایک کمزور باپ کا سامنا نہیں کروایا۔جو خود کو نظر انداز کر تے ہیں ان کے اجر و انعام کی زمہ داری قدرت اُٹھا لیتی ہے اکثر لوگ انسانوں کو جسمانی حالت سے ملتے ہیں مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو انسانی جسموں میں بسنے والی رُوحوں سے ملاقات کرتے ہیں عظیم رُوحوں کی عظمتوں کا اندازہ جسم کے طے شدہ اس مزاج سے ظاہر ہوتا ہے کہ لبوں پر شکوہ شکایت نہیں رکھتے ہر مشکل پر خاموش اور ہر مصیبت پر شکر کے عادی ہوتے ہیں یہ ایسی نایاب لذت ہے کہ بڑے سے بڑے نشے اور حسین سے حسین خدوخال میں نہیں ملتی ایسے لوگوں کی آنکھوں کا نہ نور خشک ہوتا ہے نہ ہونٹوں کا تبسم دم توڑتا ہے عشاء کی نماز کا وقت ہو رہا تھا لوگ فاتحہ پڑھ پڑھ کر رخصت ہوتے جا رہے تھے اور مجھے گھر میں عارف بھائی کے بچوں کی فکر ستانے لگی ہجوم مدھم ہوا تو میں نے کہا بھابی کی قبر پر لے چلیں وہاں کلام پاک پڑھ کر آپ بچوں کے پاس چلے جائیں کہ آج رات ان کو ماں کے بغیر سونا ہے مگر وہ رات نیند کی نہیں یاد کی تھی آٹھ سالہ چھوٹے بچے عالم کو دلاسہ یوں دیا کہ دنیا سے جانے والے لوٹ کر بھی آتے ہیں تو عالم نے کہاابو جان وہ کیسے؟جواب میں عارف بھائی نے کہا تمہارے دادا جی کا کیا نام ہے تو اس نے کہا عالم لوہار تو عارف بھائی نے کہا تمہارا نام کیا ہے اس نے کہا عالم لوہار۔تو عارف بھائی نے کہا دیکھو نہ میرے لال جیسے تمہاری شکل میں میرا باپ واپس آ یا ہے ناں اسی طرح تمہاری ماں بھی کسی نہ کسی شکل میں تم لوگوں کے اندر اپنی موجودگی ظاہر کرتی رہے گئی۔ہم قبر پر پہنچے فاتحہ پڑھی بخشش کی دُعا کی قبر پر پھول نچھاور کیے اور واپس گھر کو روانہ ہوئے۔یہ کورونا وائرس کی وبا ء کا دور تھا فکر انسانیت کے غم میں مبتلاشخص اپنے گھر کی ویرانی اور خدا کی رضا پر خود کو راضی کرنے میں لگا ہوا تھاان حالات کو آگے کی زندگی کی ترتیب پر لانے کے لیے کیا کیا جتن کیے ہوں گے اس سے ہر کوئی واقف نہ تھا اس نقصان حیات کے موقع پر انہیں یو ٹیوبرز اور شوشل میڈیا کے لوگوں کی من گھڑت باتوں پر بھی دُکھ ہوامگر انہوں نے کسی سے شکوہ تک نہ کیا چند خاص دوستوں کے ساتھ تزکرہ کیا جس میں میں بھی شامل تھا میں نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ خودغرض زمانہ دوسروں کے غم بیچنے میں بھی ملامت محسوس نہیں کرتا۔عارف بھائی کا گھرانہ کوئی موسیقی کی نسلوں پر چلا نہیں آ رہا یہ تو اک فقیری ہے جو والد پر نازل ہوئی تو معرفت کی باتوں کو شاعری کے روپ میں اپنی ایجاد کے ساز اور آواز کے انداز میں حسن انسانیت کے لیے پیش کرنا شروع کیا تو حاجی عالم وہار کے والدمستری جمال دین یعنی عارف بھائی کے دادا ابو گانے بجانے کے غیر معیاری وجود کی غلط فہمی میں اپنے بیٹے سے ناراض ہو گئے اک برس کے بعد لوگوں سے علم ہوا کہ وہ تو فقیروں درویشوں کی معرفت پر مبنی اصلاحی کلام کو اپنے انداز سے پیش کرکے روح کی پیاس بجھاتا پھرتا ہے دادا جی مستری جمال دین کے لیے گانے بجانے والے پیشے پر ناراض اور دُکھی ہونا بنتا بھی تھا کیونکہ وہ نہایت عزت دار غیرت مند گھرانے کے مستری جمال دین وہ بزرگ تھے جونا صرف بڑے زمیندار تھے بلکہ اپنے اور آس پاس کے گاؤں کے سرپنچ یعنی اعلی درجے کے پنچایتی تھے لوگ اپنے مسلوں کے حل کے لیے ان سے فیصلے کرواتے مستری جمال دین کے اندر کس قسم کا قاضی تھا اس کا اندازہ آپ اس چھوٹے سے واقعے سے لگا سکتے ہیں کہ ایک دفعہ دو بھائیوں کے درمیان زمین کی تقسیم کا تنازعہ جان لیوا صورتحال پر پہنچ چکا تھا تو گاؤں کے لوگوں نے عارف بھائی کے دادا ابو مستری جمال دین کو فیصلے کے لیے بلایا ساری بات سننے کے بعد صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے امن سلامتی کے لیے یہ قربانی دی کہ ایک بھائی کو اُن کی اور دوسرے کو اپنی زمین دے کر گھر آگئے دادی جان کو پتا چلا تو کہا یہ کیسا فیصلہ کر آئے ہیں اپنی زمین گنوا آئے ہیں تو جواب میں انہوں نے کہا زمین کا خطرناک تنازعہ تھا بھائی بھائی کی جان لینے پر تیار تھاایسے میں میں اپنی زمین دے کر بھائی بچا آیا ہوں۔مستری جمال دین کے ایسے خون کی پیداوار تھے حاجی عالم لوہار جو خود بھی خاندانی معیار زندگی کو اسی اسلوب سے نبھاتے رہے اور آگے اپنے بیٹے عارف لوہارکو بھی یہی ترغیب و تربیت دے کر گئے۔ٹی وی سکرین پر رنگ بھرنگے کپڑوں میں ملبوس پنجاب کے کلچر کو معرفت کے لبادے میں پیش کرنے والے ان لوگوں کو لوگ گلوکار کہتے ہیں مگر درحقیقت یہ دنیا کی نظروں میں قابل تعریف منظر بھرنے کے ساتھ ساتھ اللہ میاں کے کیمرے میں اپنے اندر کے احساس انسانیت کوپیش کرنے پربھی گامزن ہیں۔پہلے میرے اندر یہ خیال تھا کہ عارف بھائی پروگرام کرنے کی مصروفیت میں بچوں کا مستقبل بنانے میں مگن رہتے ہیں مگر پھر حقیت یوں عیاں ہوئی کہ خود کے ساتھ منسلک افراد کے گھروں کی فکر اور خیال اپنے گھر اور اولاد کی طرح رکھتے ہیں یہی وجہ ہے ان سے منسلک تمام احباب برسوں کے عرصے سے جڑے ہیں جنہیں زمانہ ملازم سمجھتا ہے انہیں یہ اپنے بچے اور بھائی سمجھتے ہیں۔میں نے دیکھا تھا کہ یہ لوگ عارف بھائی کو مزاق بھی کرتے ہیں جیسے دوستوں میں ہوتا ہے اور وہ اس پر ناراض بھی نہیں ہوتے بلکہ حق کو اہمیت کا مقام دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مجھ سے بھائی اور دوستی کا رشتہ خدا کی رضا پر نا صرف قائم کیا بلکہ اس کا پہرہ بھی دیا جس میں نبھانے والا انداز شامل حال رکھا۔ میری چھوٹی بہن کی شادی تھی تو اس موقع پر میں نے عارف بھائی کو ٹائپ مسیج کے زریعے آمد کی دعوت دی مگر وہ اپنے بچوں کی فکر اور روزمرہ کے حالات کی جکڑن میں نہ آ سکے میں نے ناراضگی کا اظہار کیا تو مجھے کال کرکے منایا اور میری فیملی کی دعوت اپنے گھر پر رکھی میں اپنی فیملی کو ساتھ لے کر پہنچا سارا دن ساتھ گزارا شاہی دعوت میں مثالی مہمان نوازی اور دل و رُوح کی گفتگو ہوئی چھوٹی بہن کو اپنی بچی سمجھ کرشادی کا تحفہ دیا میرے بچوں کو شاپنگ کے لیے پیسے دئیے میرے انکار کے باوجود اپنے حق کوادا کرکے تعلق کا پہرہ یوں دیا کہ مجھے محسوس ہوا کہ ماں اور باپ کے پیار کو جمع کیا جائے تو بڑا بھائی بنتاہے اور میرے دل و رُوح میں عارف بھائی اسی مقام و اہمیت پر فائز ہوئے میں نے رخصت ہوتے ہوئے ان سے گلے ملتے ہوئے کان میں کہا عارف بھائی آپ جیسے دوست قصوں کہانیوں میں ملتے ہیں میرے اوپر قدرت کی مہربانی کہ آپ مجھے میری حیات میں ملے ہیں اس کے جواب میں انہوں نے سیلوٹ کرتے ہوئے کہا میزبانی میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو معاف کر دینا۔میری آنکھیں نم ہوگئیں دعاؤں کے حصار میں اپنی ماں کو دیکھتے ہوئے رب سے کہہ رہا تھا کہ مالک انہی لمحات کے لیے والدین کی خوشی کو بنیاد بنا کر عارف بھائی کے دل میں جگہ مانگی تھی تو نے عطا کی تیرا شکر ہے خدایا۔میں جتنی بار بھی عزت محبت پیارکے پھول ادب کی جھولی میں ڈال کر عارف بھائی کی چوکھٹ پر حاضر ہواہوں انہوں نے انہی پھولوں کی مالا بنا کر میرے ہی گلے میں پہنا دی۔مجھے اس رُوحانی تعلق میں یہ گمان ہوتاہے کہ جیسے عارف بھائی سے میری عالم ارواح میں ہونے والی ملاقاتیں زمین پر دوہرائی جا رہی ہیں۔عارف بھائی نے ہمیشہ دریا دلی سے میرے اور اپنے تعلق کو گولڈن الفاظ میں مان بخشاان کے لیے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ اللہ اور مخلوق کے محبوب وہ انسان ہیں جو زمین کی طرح آسمان کے بھی ستارے ہیں۔

Alam-Lohar-Remembered
عالم لوہار

ساتھ بچوں میں بھی اُس عورت کے پیار اور مقام میں کسی کو شریک کرنا گوارہ نہیں سمجھا۔عارف بھائی کے آنسو میری آنکھوں سے ٹپکتے ہوئے میرے چہرے کا وضو کروا رہے تھے اُن کے آنسو بھی اُن کے دل میں ٹپک رہے تھے مگر کمال کا ضبط اور صبر جس نے اپنے بچوں اور چاہنے والوں کو ایک کمزور باپ کا سامنا نہیں کروایا۔جو خود کو نظر انداز کر تے ہیں ان کے اجر و انعام کی زمہ داری قدرت اُٹھا لیتی ہے اکثر لوگ انسانوں کو جسمانی حالت سے ملتے ہیں مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو انسانی جسموں میں بسنے والی رُوحوں سے ملاقات کرتے ہیں عظیم رُوحوں کی عظمتوں کا اندازہ جسم کے طے شدہ اس مزاج سے ظاہر ہوتا ہے کہ لبوں پر شکوہ شکایت نہیں رکھتے ہر مشکل پر خاموش اور ہر مصیبت پر شکر کے عادی ہوتے ہیں یہ ایسی نایاب لذت ہے کہ بڑے سے بڑے نشے اور حسین سے حسین خدوخال میں نہیں ملتی ایسے لوگوں کی آنکھوں کا نہ نور خشک ہوتا ہے نہ ہونٹوں کا تبسم دم توڑتا ہے عشاء کی نماز کا وقت ہو رہا تھا لوگ فاتحہ پڑھ پڑھ کر رخصت ہوتے جا رہے تھے اور مجھے گھر میں عارف بھائی کے بچوں کی فکر ستانے لگی ہجوم مدھم ہوا تو میں نے کہا بھابی کی قبر پر لے چلیں وہاں کلام پاک پڑھ کر آپ بچوں کے پاس چلے جائیں کہ آج رات ان کو ماں کے بغیر سونا ہے مگر وہ رات نیند کی نہیں یاد کی تھی آٹھ سالہ چھوٹے بچے عالم کو دلاسہ یوں دیا کہ دنیا سے جانے والے لوٹ کر بھی آتے ہیں تو عالم نے کہاابو جان وہ کیسے؟جواب میں عارف بھائی نے کہا تمہارے دادا جی کا کیا نام ہے تو اس نے کہا عالم لوہار تو عارف بھائی نے کہا تمہارا نام کیا ہے اس نے کہا عالم لوہار۔تو عارف بھائی نے کہا دیکھو نہ میرے لال جیسے تمہاری شکل میں میرا باپ واپس آ یا ہے ناں اسی طرح تمہاری ماں بھی کسی نہ کسی شکل میں تم لوگوں کے اندر اپنی موجودگی ظاہر کرتی رہے گئی۔ہم قبر پر پہنچے فاتحہ پڑھی بخشش کی دُعا کی قبر پر پھول نچھاور کیے اور واپس گھر کو روانہ ہوئے۔یہ کورونا وائرس کی وبا ء کا دور تھا فکر انسانیت کے غم میں مبتلاشخص اپنے گھر کی ویرانی اور خدا کی رضا پر خود کو راضی کرنے میں لگا ہوا تھاان حالات کو آگے کی زندگی کی ترتیب پر لانے کے لیے کیا کیا جتن کیے ہوں گے اس سے ہر کوئی واقف نہ تھا اس نقصان حیات کے موقع پر انہیں یو ٹیوبرز اور شوشل میڈیا کے لوگوں کی من گھڑت باتوں پر بھی دُکھ ہوامگر انہوں نے کسی سے شکوہ تک نہ کیا چند خاص دوستوں کے ساتھ تزکرہ کیا جس میں میں بھی شامل تھا میں نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ خودغرض زمانہ دوسروں کے غم بیچنے میں بھی ملامت محسوس نہیں کرتا۔عارف بھائی کا گھرانہ کوئی موسیقی کی نسلوں پر چلا نہیں آ رہا یہ تو اک فقیری ہے جو والد پر نازل ہوئی تو معرفت کی باتوں کو شاعری کے روپ میں اپنی ایجاد کے ساز اور آواز کے انداز میں حسن انسانیت کے لیے پیش کرنا شروع کیا تو حاجی عالم وہار کے والدمستری جمال دین یعنی عارف بھائی کے دادا ابو گانے بجانے کے غیر معیاری وجود کی غلط فہمی میں اپنے بیٹے سے ناراض ہو گئے اک برس کے بعد لوگوں سے علم ہوا کہ وہ تو فقیروں درویشوں کی معرفت پر مبنی اصلاحی کلام کو اپنے انداز سے پیش کرکے روح کی پیاس بجھاتا پھرتا ہے دادا جی مستری جمال دین کے لیے گانے بجانے والے پیشے پر ناراض اور دُکھی ہونا بنتا بھی تھا کیونکہ وہ نہایت عزت دار غیرت مند گھرانے کے مستری جمال دین وہ بزرگ تھے جونا صرف بڑے زمیندار تھے بلکہ اپنے اور آس پاس کے گاؤں کے سرپنچ یعنی اعلی درجے کے پنچایتی تھے لوگ اپنے مسلوں کے حل کے لیے ان سے فیصلے کرواتے مستری جمال دین کے اندر کس قسم کا قاضی تھا اس کا اندازہ آپ اس چھوٹے سے واقعے سے لگا سکتے ہیں کہ ایک دفعہ دو بھائیوں کے درمیان زمین کی تقسیم کا تنازعہ جان لیوا صورتحال پر پہنچ چکا تھا تو گاؤں کے لوگوں نے عارف بھائی کے دادا ابو مستری جمال دین کو فیصلے کے لیے بلایا ساری بات سننے کے بعد صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے امن سلامتی کے لیے یہ قربانی دی کہ ایک بھائی کو اُن کی اور دوسرے کو اپنی زمین دے کر گھر آگئے دادی جان کو پتا چلا تو کہا یہ کیسا فیصلہ کر آئے ہیں اپنی زمین گنوا آئے ہیں تو جواب میں انہوں نے کہا زمین کا خطرناک تنازعہ تھا بھائی بھائی کی جان لینے پر تیار تھاایسے میں میں اپنی زمین دے کر بھائی بچا آیا ہوں۔مستری جمال دین کے ایسے خون کی پیداوار تھے حاجی عالم لوہار جو خود بھی خاندانی معیار زندگی کو اسی اسلوب سے نبھاتے رہے اور آگے اپنے بیٹے عارف لوہارکو بھی یہی ترغیب و تربیت دے کر گئے۔ٹی وی سکرین پر رنگ بھرنگے کپڑوں میں ملبوس پنجاب کے کلچر کو معرفت کے لبادے میں پیش کرنے والے ان لوگوں کو لوگ گلوکار کہتے ہیں مگر درحقیقت یہ دنیا کی نظروں میں قابل تعریف منظر بھرنے کے ساتھ ساتھ اللہ میاں کے کیمرے میں اپنے اندر کے احساس انسانیت کوپیش کرنے پربھی گامزن ہیں۔پہلے میرے اندر یہ خیال تھا کہ عارف بھائی پروگرام کرنے کی مصروفیت میں بچوں کا مستقبل بنانے میں مگن رہتے ہیں مگر پھر حقیت یوں عیاں ہوئی کہ خود کے ساتھ منسلک افراد کے گھروں کی فکر اور خیال اپنے گھر اور اولاد کی طرح رکھتے ہیں یہی وجہ ہے ان سے منسلک تمام احباب برسوں کے عرصے سے جڑے ہیں جنہیں زمانہ ملازم سمجھتا ہے انہیں یہ اپنے بچے اور بھائی سمجھتے ہیں۔میں نے دیکھا تھا کہ یہ لوگ عارف بھائی کو مزاق بھی کرتے ہیں جیسے دوستوں میں ہوتا ہے اور وہ اس پر ناراض بھی نہیں ہوتے بلکہ حق کو اہمیت کا مقام دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مجھ سے بھائی اور دوستی کا رشتہ خدا کی رضا پر نا صرف قائم کیا بلکہ اس کا پہرہ بھی دیا جس میں نبھانے والا انداز شامل حال رکھا۔ میری چھوٹی بہن کی شادی تھی تو اس موقع پر میں نے عارف بھائی کو ٹائپ مسیج کے زریعے آمد کی دعوت دی مگر وہ اپنے بچوں کی فکر اور روزمرہ کے حالات کی جکڑن میں نہ آ سکے میں نے ناراضگی کا اظہار کیا تو مجھے کال کرکے منایا اور میری فیملی کی دعوت اپنے گھر پر رکھی میں اپنی فیملی کو ساتھ لے کر پہنچا سارا دن ساتھ گزارا شاہی دعوت میں مثالی مہمان نوازی اور دل و رُوح کی گفتگو ہوئی چھوٹی بہن کو اپنی بچی سمجھ کرشادی کا تحفہ دیا میرے بچوں کو شاپنگ کے لیے پیسے دئیے میرے انکار کے باوجود اپنے حق کوادا کرکے تعلق کا پہرہ یوں دیا کہ مجھے محسوس ہوا کہ ماں اور باپ کے پیار کو جمع کیا جائے تو بڑا بھائی بنتاہے اور میرے دل و رُوح میں عارف بھائی اسی مقام و اہمیت پر فائز ہوئے میں نے رخصت ہوتے ہوئے ان سے گلے ملتے ہوئے کان میں کہا عارف بھائی آپ جیسے دوست قصوں کہانیوں میں ملتے ہیں میرے اوپر قدرت کی مہربانی کہ آپ مجھے میری حیات میں ملے ہیں اس کے جواب میں انہوں نے سیلوٹ کرتے ہوئے کہا میزبانی میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو معاف کر دینا۔میری آنکھیں نم ہوگئیں دعاؤں کے حصار میں اپنی ماں کو دیکھتے ہوئے رب سے کہہ رہا تھا کہ مالک انہی لمحات کے لیے والدین کی خوشی کو بنیاد بنا کر عارف بھائی کے دل میں جگہ مانگی تھی تو نے عطا کی تیرا شکر ہے خدایا۔میں جتنی بار بھی عزت محبت پیارکے پھول ادب کی جھولی میں ڈال کر عارف بھائی کی چوکھٹ پر حاضر ہواہوں انہوں نے انہی پھولوں کی مالا بنا کر میرے ہی گلے میں پہنا دی۔مجھے اس رُوحانی تعلق میں یہ گمان ہوتاہے کہ جیسے عارف بھائی سے میری عالم ارواح میں ہونے والی ملاقاتیں زمین پر دوہرائی جا رہی ہیں۔عارف بھائی نے ہمیشہ دریا دلی سے میرے اور اپنے تعلق کو گولڈن الفاظ میں مان بخشاان کے لیے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ اللہ اور مخلوق کے محبوب وہ انسان ہیں جو زمین کی طرح آسمان کے بھی ستارے ہیں۔

Short URL: https://tinyurl.com/2hzds8lp
QR Code:


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *